حسن کا بے باکیوں سے سلسلہ بنتا گیا

0
حسن کا بے باکیوں سے سلسلہ بنتا گیا
بے حیائی کا ولا میں راستہ بنتا گیا
تیرے میرے درمیاں جب فاصلہ بنتا گیا
دل کا غم سے غم کا دل سے رابطہ بنتا گیا
ذکر ہوتا تھا محبت کا کبھی جس گھر میں وہ
ہجر جاناں کے سبب اک میکدہ بنتا گیا
رفتہ رفتہ ساری دنیا کو بھلا بیٹھا میں جب
ذہن میں یادوں کا اسکی دائرہ بنتا گیا
اک امید ناز کی خاطر گنوا بیٹھا حیات
روگ ایسا لگ گیا جو لا دوا بنتا گیا
دانہ عاقل صاحب تدبیر زیرک ہوشیار
مبتلائے عشق ہو کر باولا بنتا گیا
ظالم و سفاک و جابر سنگ دل تھا جو کبھی
سلطنت میں آ کے پل پل پارسا بنتا گیا
رہنمائی کی ضرورت تھی جسے فیضان وہ
مال و دولت کے سبب سے رہنما بنتا گیا