روایتی عدم برداشت

0

عدم برداشت کو برداشت کرنے کا مطلب ہے کہ ہم اس بیماری کو پنپنے کا موقع دے رہے ہیں۔  کارل پوپر کی تحقیق کے مطابق کسی بھی معاشرے کو اپنی رواداری برقرار رکھنے کے لیے عدم برداشت کے رویے کی طرف اپنی قبولیت کو ختم کرنا ہوگا۔

جب ایک معاشرہ عدم برداشت کے رویے کو قبول کرنا شروع کر دیتا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس معاشرے سے راواداری ختم ہو جاتی ہے۔  مثلا اگر آپ روڈ پر کسی کار والے شخص کو دیکھتے ہیں جو کہ ایک غریب رکشے والے کو بری طرح سے پیٹ رہا ہے تو معلوم کرنے پر پتہ چلے گا کہ اس بچارے کی قیمتی گاڑی کا رکشے والے کی کوتاہی سے معمولی سا نقصان ہوا ہے۔

لہذا ہم کار والے کا برا رویہ بہت آرام سے قبول کر لیں گے۔  کارل پوپر کے مطابق عدم برداشت کے فلسفے کا مقابلہ عقلی دلیل سے ہی کیا جانا چاہیے۔  اگر یہ ناکافی ہو تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے۔

ہمارے معاشرے میں تیزی سے ختم ہوتی رواداری کے پیچھے دراصل یہی اصول کار فرما ہے۔  مخصوص مواقع پر مارنے والا اور پٹنے والا دونوں ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔  مثلا اگر بچے نے ہوم ورک نہیں کیا ہے تو وہ ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے کہ ٹیچر نے صرف مارنا ہی ہے اور ٹیچر کے پاس بھی سوائے مارنے کے کوئی دوسری سزا نہیں ہوتی۔

اس ساری صورتحال کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے اس رویے کو ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔  کارل اوپر کے نزدیک یہ قبولیت ہی دراصل اس بیماری کو لاعلاج کر دینے کا سبب ہے۔

ہر معاشرے میں بسنے والے ارکان الگ الگ شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔  بعض افراد فطرتا انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف اور صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔

جب یہ دونوں رویے آمنے سامنے آ جائیں تو عین ممکن ہے کہ منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے اندر موجود رواداری کو بھی اپنے منفی رویہ سے ختم کردے اور  اس طرح عدم برداشت کا وائرس چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کو لگتے لگتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں چھوت کی یہ بیماری اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس کی علامات آپ کو جا بجا نظر آئیں گی۔  ٹیلی ویژن کی اسکرین سے لے کر اصل زندگی کے مناظر تک اور اخبارات کے صفحات سے لے کر برقی صفحات تک جابجا غیر شائستہ اور اکھڑ انداز گفتگو سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔

شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو، جب آپ روڈ پر سفر کے دوران ایسا کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھیں۔  ہر شخص ٹریفک قوانین سائیڈ پر رکھ کر آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف نظر آئے گا اور اگر اس کوشش میں کوئی دوسری گاڑی چھو بھی جائے ، تو دونوں افراد بیچ سڑک پر رک کر تہذیب کا جنازہ نکالنا شروع کر دیں گے۔

اسی طرح مختلف خدمات فراہم کرنے والے دفاتر کا رخ کریں۔  عملے کی جانب سے جس رویے کا اظہار کیا جاتا ہے وہ کسی طرح بھی ایک شائستہ اور مہذب قوم ہونے کی دلیل نہیں ہے۔  ریستوران میں خدمات انجام دینے والے افراد ہوں یا کسی ورکشاپ میں کام کرنے والا بچہ، کوئی سکیورٹی گارڈ ہو یا کسی اسٹور کا سیلز مین، ان میں سے ہر شخص روزانہ کئی بار اپنے معاشرے کے دیگر نام نہاد مہذب افراد کی طرف سے برے رویے کو سہتے ہیں جو کہ یقینا ان کے اندر بھی منفی جذبات کو جنم دیتا ہے۔  اس کے برعکس یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا یہی طریقہ ہے کہ دوسرے کی عزت روند دی جائے۔

ماہرین کے خیال میں عدم برداشت دراصل ہمارے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتا ہے اور یہ مایوسی ہمارے ناتمام ارادوں اور ناآسودہ خواہشات کا نتیجہ ہوتی ہے۔  معاشرتی اصولوں یا تربیت کے باعث ہم بہت سے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں۔

اچھی معیاری تعلیم اور تربیت کا خوبصورت امتزاج ایک بچے کو اس قابل بناتا ہے کہ جب وہ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھے تو ہر طرح کے مسائل اور صورتحال کو عقلی بنیادوں پر جانچ کر ان سے نبرد آزما ہو سکے اور ان کا حل تلاش کر سکے۔

فی زمانہ دی جانے والی تعلیم اور اچھی تربیت کا فقدان معاشرے کو بیمار کر رہا ہے۔  نسل پرستی اور مذہبی عدم برداشت کے جو مظاہرے برصغیر پاک و ہند میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہ شاید ہی آج کے زمانے میں کسی دوسرے خطے میں دیکھنے کو ملیں۔

تعصب اور فرقہ واریت نے لوگوں کو انتہا پسند اور متشدد بنا دیا ہے۔  ہر فرقہ اور ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اپنا نظریہ منوانے کے لیے ہر طرح کے جارحانہ رویے اور تشدد کو جائز سمجھتا ہے۔

دوسری طرف آنے والی نسل کو جس طرح سے بغیر کسی نگرانی کے اسکرین کے حوالے کر دیا گیا ہے، ان کے حق میں انتہائی خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ مار دھاڑ اور تشدد سے بھرپور کارٹون اور ویڈیو گیمز تمام بچوں میں قبولیت کی سند حاصل کر چکی ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ بیماری ہمارے سماج میں مزید اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہوگی ۔

پہلو بہ پہلو سماجی اخراج اور امتیازی سلوک بھی ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ٹائم بم ہے، جسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔  اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے 2011 میں سماجی اخراج کو تین مختلف تناظر میں جانچنے کا خیال پیش کیا تھا۔ سیاسی، سماجی اور معاشی پہلو سے اس مسلے کا جائزہ لیا گیا۔

حقیقت میں یہ تینوں پہلو ایک دوسرے سے اس طرح باہم مربوط ہیں اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جس ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو گا وہاں کی معیشت بھی یقیناً کمزر ہی رہے گی۔  اور اس طرح بگڑتے ہوئے معاشی حالات ہمارے سماجی مسائل کو مزید ابتری کی طرف لے جاتے ہیں۔

سماجی اخراج معاشرے سے رواداری کا خاتمہ اور تشدد پسندی میں اضافہ کرتا ہے۔  لہذا عدم برداشت کا عارضہ بالخصوص تیسری دنیا کے وہ ممالک جنہیں ہم ‘بنانا ریپبلک‘ کہتے ہیں یا سیاسی طور پر غیر مستحکم ممالک میں بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔

اس کی بہت بڑی وجہ وہاں پر تباہ شدہ معاشی نظام ہے جو کہ سماجی برائیوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔  روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے کی صورت میں ملک دشمن عناصر کو پنپنے کا موقع ملتا ہے ۔  سماجی روایات جب تعصب اور امتیازی سلوک کی دھول میں دب جاتی ہیں تو پھر برائی کے مقابلے میں بھلائی کا جنم لینا ناممکن نظر آنے لگتا ہے۔

پاکستان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے 70 سالوں میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی ڈھانچہ کبھی مضبوط نہ ہو سکا۔  اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، طبی سہولیات کا فقدان، تعلیمی پسماندگی اور اس طرح کی دیگر کئی وجوہات نے ہمارے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔

معاشرے میں طلاقوں کا بڑھتا ہوا رجحان، اخلاقی مواد کی کھلے عام تقسیم، نمود و نمائش، فیشن کی دوڑ میں بھیڑ چال کا رویہ، رشوت اور سفارش کا دور دورہ، نشہ آور اشیاء کا کھلے عام استعمال اور ایسے دوسرے کئی پہلو ہیں جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار نہ صرف یکسر بدل گئی ہیں بلکہ مذہبی اقدار کا بھی مکمل دیوالیہ نکل چکا ہے ۔

قدرتی طور پر وہ شخص جس کا بچہ کتے کے کاٹنے کی ویکسین میسر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی گود میں دم توڑ دے یا کسی خاندان کا کوئی فرد کسی ایمبولینس میں اس لیے دم توڑ دے کہ سڑک اس شخص کی حفاظت کے لیے بند کی گئی تھی جو خود پبلک سرونٹ ہے۔  جس کی ماں معالج کی غفلت یا علاج کے اخراجات میسر نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ دے تو ایسا شخص اپنے آپ کو کس طرح مایوسی سے بچا پائے گا۔

ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ اس کے اندر جارحیت پیدا نہیں ہو گی۔  وہ معاشرہ جہاں تعلیم کو ایک برانڈ بنا لیا گیا ہو، جہاں حکومت کے بروقت اقدامات نہ لینے کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں کے گھر بار اور مال مویشی بارشوں اور سیلاب کی نذر ہو جائیں ان کے اندر پیدا ہونے والی محرومی اور مایوسی کی ذمہ دار نہ تعلیم ہے نہ تربیت اور نہ معاشرہ بلکہ اس کا ذمہ دار صرف اور صرف غیر مستحکم سیاسی نظام ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ایک چور روٹی چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کی سزا چور کے ساتھ ساتھ اس کو بھی ملنی چاہیے جو اسے وہ روٹی فراہم کرنے پر مامور تھا۔

تحریر: امتیاز احمد