عشق کا حادثہ نہیں ہوتا

0
عشق کا حادثہ نہیں ہوتا
گر تو مجھ سے ملا نہیں ہوتا

کچھ تو ہے ورنہ ان فضاؤں میں
یوں ترا تذکرہ نہیں ہوتا

کچھ ہوا کا بھی ہاتھ تھا ورنہ
پردہ یوں ہی ہلا نہیں ہوتا

اپنی اپنی پسند ہے ویسے
شعر کوئی برا نہیں ہوتا

کچھ ترا بھی سرور ہے ورنہ
مے میں اتنا نشہ نہیں ہوتا

بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے
جس سے اب رابطہ نہیں ہوتا

وہیں پر ساتھ چھوڑتی ہے زیست
جس جگہ چھوڑنا نہیں ہوتا

دل اسی سے جا ملتا ہے اِندرؔ
جس کا کوئی پتہ نہیں ہوتا
شاعر: اِندر سرازی