غزل: غمِ حیات، غمِ قلبِ زار، کیا کیجے!

0
غمِ حیات، غمِ قلبِ زار، کیا کیجے!
کسی بھی طور نہیں ہے قرار، کیا کیجے!
پلا گیا وہ ہمیں بے شمار، کیا کیجے!!
اترنے والا نہیں یہ خمار، کیا کیجے!!
رکھیں گے نام غذا کا غبار، کیا کیجے!!
نہیں ہے آج کہیں روزگار، کیا کیجے!!
نصیب سے بھئی شکوے ہزار کیا کیجے!!
ہے دشمن اپنی پرانی بَہار، کیا کیجے!!
قبا کسی کی کہیں تار تار کیا کیجے!!
ہے دامن اپنا بھی تو داغدار، کیا کیجے!!
مرے تو کیسے مرے یہ بخار، کیا کیجے!!
جئے تو کیسے جئے دل فگار، کیا کیجے!!
بجھا گیا ہے وہ امید کا دیا لیکن!!
امید ہے کہ وہیں برقرار، کیا کیجے!!
نہ کام آئے گا یوں بھی کسی کے دل یہ عزیؔز !
سو کر ہی دیتے ہیں اُس پر نثار، کیا کیجے!
عزیؔز اختر