مرزا غالب : حقیقی تناظر میں

0

مرزا غالب ہر عہد کے مقبول عام شاعر ہیں۔ خواص ، عوام ، نوجوان، بوڑھے سب ملکر ان کی شاعری دلچسپی سے پڑھتے ہیں سر دھنتے ہیں۔
آج میں اس تحریر میں مرزا غالب کی زندگی کی کچھ حقیقتیں اور ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کروں گی۔ اس تجزیہ نگاری کا اہم مقصد اپنی اور متعلقان کی علمی و فکری زاویوں کی سمتیں وسیع کرنا ہیں۔

مرزا غالب سلجوقی ترک تھے، سلجوق سلطنت کو ڈرامہ ارطغرل کی وجہ سے سبھی جان چکے ہوں گے۔

جس وقت غالب کے دادا ہندوستان میں داخل ہوئے اس وقت مغل سلطنت کا دیا ٹمٹا رہا تھا۔ ایسے میں ترکی کے ان نئے مہمانوں نے وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سپورٹ کرنا ضروری سمجھا۔

مرزا غالب کے چچا نصراللہ نے لارڈ لیک کو بہت زیادہ سپورٹ کیا اور دو عدد پرگنے(پرگنے مطلب علاقے:غالباً) سونک اور سونسا بزورِ طاقت زبردستی لارڈ لیک کو چھین کر دیے۔

اسے مغل ایمپائر سے غداری نہیں کہتے ہیں لکھاری۔ کبھی بھی لکھاریوں نے اسے غداری نہیں لکھا۔ وجہ نامعلوم۔۔۔۔۔۔۔

چچا کی اس غداری پہ خوش ہو کر لارڈ لیک نے دونوں پرگنے ان کے زیر تسلط دے دیے اور ڈیڑھ لاکھ آمدن کا مستحق قرار دیا ( اس زمانے میں ڈیڑھ لاکھ😱)۔

چچا نصراللہ بیگ کی اچانک وفات کے بعد لارڈ لیک نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ دس ہزار سالانہ پنشن مقرر کی(کہاں ڈیڑھ لاکھ، کہاں دس ہزار😂)

اس دس ہزار کے بھی کئے ٹکڑے ہوئے مرزا غالب کے حصے میں صرف ساڑھے سات سو سالانہ آئے یعنی باسٹھ روپے ماہانہ۔

احمد بخش خاں اس پنشن پہ کوئی حق نہیں رکھتے تھے مگر لارڈ لیک کے ہی آرڈر سے ان کو اس پنشن میں سے پانچ ہزار یا دو ہزار ملتے تھے۔

اس پنشن کی ناجائز اولاد کو چیلنج کرنے مرزا غالب کلکتہ پہنچے ، مقدمہ درج کرایا، دورانِ سفر بطور شاعر بھی زلیل ہوئے( ان کی شاعری کو سستی شاعری کہہ کر تذلیل کیا گیا)۔

لارڈ لیک نے گرگٹ بننے کی انتہا کرتے ہوئے احمد بخش خاں کے حصے پہ اپنی مہر کی تصدیق کرائی اپنے سیکرٹری کے ذریعے سے۔۔۔۔

مرزا غالب ناکام و نامراد لوٹے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر(آخری مغل بادشاہ) نے ان کو شاہی شاعر بنانے سے پس و پیش سے کام لیا کیوں کہ یہ ایک غدار نا سہی مگر مخالفین کے گروپ سے تو تھے ہی۔ ابراہیم ذوق سے بھی اچھے اور بہتر شاعر ہونے کے باوجود مرزا غالب کو شاہی شاعر نہیں بنایا۔

ابراہیم ذوق کی وفات کے بعد کچھ ہی عرصہ غالب مغل سلطنت سے وابستہ رہنے موقع پاسکے جلد ہی مغل سلطنت ٹوٹ گئی آخری ضرب 1857 کی جنگ نے لگائی۔۔۔
ٹوٹتی ٹائی ٹائینک میں کون بیوقوف سوار ہوتا ہے؟؟؟ مرزا غالب نے ملکہ برطانیہ کو قصیدے بھیجوانے شروع کر دیے اور ملکہ کو شاہی شاعر ہونے کی اہمیت سے واقف کرانے کوشش کی، مگر یہ تمام چکنی چوپڑی پڑی کی پڑی رہ گئی، ملکہ کے پاس ان سے بڑے چاپلوس جو موجود تھے۔

مغل ایمپائر
قرین قیاس تو یہی ہے کہ مغل بھی اوغوث کی نسل سے تھے ، اور دہلی شہر سے کائی قبیلے کا دیلی دمیر یاد آتا ہے کیوں کہ وہ دونوں میں حرف ہ کا فرق ہے۔ دیلی دمیر کی وفاداری کو خراج دینا کیسے بھول سکتے ہیں کائی والے۔۔۔۔
اس نظریے کی دلیل میں ایک یہ بات پیش کی جاسکتی ہے کہ جیسے ہی مغل ایمپائر مٹی میں رل گئی اس کے بعد عثمانیہ ایمپائر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔

ایسے میں سلجوقیوں کا اس بربادی میں کتنا ہاتھ ہے اس پہ الگ سے تحقیق ہونی چاہیے۔

بہرحال دو سلطنتوں کو برباد کرنے میں ہی سہی مگر اردو ادب کو اس ضمن میں ایک اعلیٰ پائے کا شعر مہیا ہوا مرزا اسد اللہ خان غالب۔

نوٹ: غالب کی ابتدائی شاعرانہ تعلیم ترکی سے آئے ایک نو مسلم پارسی نے کی جس کا نام عبدالصمد تھا، جو کہ سیاحت کے سلسلے میں دو سال ہندوستان رہا اور انہی دو سالوں میں وہ صرف مرزا غالب کے گھر رہا۔۔۔

مجھے ذاتی طور پہ یہی لگتا ہے کہ مغل سلطنت اور عثمانیہ سلطنت کا آپس میں کوئی لنک ضرور تھا۔۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے کمنٹ سیکشن میں ضرور بتائیں۔

  • حواشی
  • 1خطوط غالب از قلم غلام رسول مہر
  • 2 اردو خطوط غالب پر ایک نظر از قلم شمس الرحمن فاروقی
  • 3غالب کا اجتماعی احساس از قلم غلام حسین ذوالفقار
تحریر عائشہ اقبال