نظم گور گریباں کا خلاصہ اور مرکزی خیال

0

سوال:- نظم طباطبائی کی حالات زندگی اور خصوصیات کلام تحریر کریں۔

  • نام : علی حیدر
  • تخلص : نظم طباطبائی/ حیدر
  • پیدائش : 1853ء محلہ حیدر گنج لکھنؤ میں ہوا۔
  • وفات : 1933ء 82 سال عمر میں حیدرآباد میں ہوا۔
  • خطاب : حیدر یار جنگ
  • والد : سید مصطفیٰ حسین
  • دادا : سید مہدی طباطبائی

تعلیم:

ابتدائی تعلیم ملا باقر اور ملا طاہر سے لکھنؤ میں حاصل کی۔ منشی مینڈولال زار سے فارسی،اور محمد عسکری سے انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔انہیں فلکیات اور علم عروض سے خاص دلچسپی تھی۔ اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے نوجوانی میں علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگانِ اودھ (اودھ کے شہزادوں) کو تعلیم دینے لگے۔

ملازمت:

شاہ اودھ واجد علی شاہ اختر معزول کرکے کلکتہ بھیجے گئے تو یہ بھی اپنے والد کے ہمراہ 1868ء میں کلکتہ چلے گئے چنانچہ کلکتہ کے مٹیابرج میں قیام رہا۔ وہاں مختلف ملازمتوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ واجد علی شاہ اختر کے انتقال کے بعد تلاش و معاش کے لیے حیدرآباد آ گۓ۔ کتب خانہ آصفیہ کے مہتمم رہے۔ اور نظام کالج حیدرآباد میں عربی، فارسی کے لیکچر اور پھر اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اور 1918ء میں دارالترجمہ حیدرآباد میں ملازمت کے دوران انہوں نے کئی کتابوں کے ترجمے کیے۔ آخری عمر تک یہی رہے اور یہیں انکا انتقال ہوا۔

خصوصیات کلام:

اردو میں پابند نطم کی تاریخ میں نظم طباطبائی کو بلند مقام حاصل ہے۔ اردو ادب میں نظم طباطبائی دو وجہوں سے خاص طور پر مشہور ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ نظم طباطبائی پہلے وہ شخص ہے جنہوں نے 1901ء میں “دیوان غالب” کی مکمل شرح لکھ کر حیدرآباد سے شائع کی۔
نظم طباطبائی کی شہرت کی دوسری وجہ ان کا منظوم ترجمہ گورِ غریباں ہے۔ جو 1897ء میں انگریزی شاعر تھامس گرے کی مشہور ایلچی نظم (Elegy Written In a Country Chruch Yard) کا اردو منظوم ترجمے کا عنوان انہوں نے “گورِ غریباں” کے نام سے کیا۔ اور اس نظم کا ہر بند انگریزی اسٹانزا کی ہیت میں لکھا گیا۔

عبدالحلیم شرر کے مطابق اردو میں اسٹانزا (Stanza) (یعنی: چار مصرعے کے بند کی نطم) کی شروعات اسی نطم سے ہوئی۔ نظم طباطبائی کے تجربہ کی مقبولیت جلد ہی نظر آنے لگی اور اردو میں اسٹانزا فارم بے حد مقبول ہو گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سے شعراء مثلاً: سجاد حیدر یلدرم، حسرت موہانی، تلوک چند محروم وغیرہ نے اس فارم میں نظمیں لکھیں۔

ڈاکٹر سیدہ جعفر کہتی ہیں کہ نظم طباطبائی کی “نظم گورِ غریباں”؛اردو نطم کی تاریخ کا ایک سدا بہار کارنامہ ہے۔ 32 بندو پر مشتمل یہ نظم آج تک اردو کے بہترین منظوم ترجموں میں شمار کی جاتی ہے۔ بلاشبہ آج بھی اردو کا اولین اور بہترین منظوم ترجمہ ہے۔

نظم طباطبائی بحیثیت شاعر کوئی بلند مقام حاصل نہ کر سکے۔ نظم طباطبائی کی اصلی پہچان ان کی علمیت اور تنقیدی تحریروں کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن نظم جدید کی تاریخ میں انہیں صفِ اول میں اس لیے رکھا جاتا ہے کیونکہ اسٹانزا کی فارم ایجاد کرنے اور نظم معریٰ کی بنیاد رکھنے والے میں ان کا نام پہلی صف میں آتا ہے۔

نظم طباطبائی نے “اس طرح وطن کی خیر مناتے ہیں” اور ایک معریٰ نطم “دلگداز” 1900ء میں چھپی۔

▪️نوٹ: نظم طباطبائی نواب واجد علی شاہ اختر کی بیوی بوٹا بیگم کے پھوپھی زاد بھائی تھیں۔ اور ان کی والدہ لکھنؤ کے نواب معتمدالدولہ آغا میر کے خاندان سے تھی۔ اور آغا میر لکھنؤ کے نواب غازی الدین حیدر کے وزیر اعظم تھے۔

⭕️ نظم گور گریباں کا خلاصہ اور مرکزی خیال⭕️

نظم طباطبائی اردو ادب میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے دیوان غالب کی مکمل شرح لکھ کر حیدرآباد سے شائع کی۔ ان کی شہرت کا دوسرا سبب ان کا منظوم ترجمہ “گورِ غریباں” ہے۔
نظم طباطبائی نے انگریزی زبان کے شاعر تھامس گرے کی 32 بندوں پر مشتمل نظم Elegy written in a country Church yard کا ترجمہ گورِ غریباں کے نام سے کیا۔ اس نظم میں دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ پیش کیا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے۔ موت حقیقت ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اعلیٰ، ادنیٰ، چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، شاہ، فقیر غرض جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے واپس لوٹ کر جانا ہے۔ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ہر جاندار کو اس کی زد میں آنا ہے۔ ایک دن ایسا آتا ہے کہ مرنے والے کی ہڈیاں مٹی میں مل جاتی ہے۔ اور مرنے والا سب کچھ یہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے
وہ جو چیز اپنے ساتھ لے کر جاۓ گا وہ اس کے اعمال ہونگے۔ مرنے والے کے اچھے کام اور اسکی محبتیں ہی رہ جاتی ہیں۔

نظم طباطبائی کی یہ نطم عبرتناک نصیحت آمیز نظم ہے۔ اس دنیا سے ہر جاندار کو جانا ہے۔ اور جو اس دنیا سے رخصت ہو گۓ ہیں ان کی قبر اور ان کی ہڈیاں ہمارے لیے عبرت کی چیزیں ہیں کیونکہ اس دنیا میں چھوٹے انسان سے لیکر بادشاہ تک کو جانا ہے۔ ایک دن اس دنیا میں چاروں طرف خاموشی کا ماحول ہوگا اور یہ دنیا فنا ہو جائے گی۔ باغ ویران ہو جائیں گے اور محلوں میں الو اپنا آشیانہ بنا لینگے۔ غرض کہ انسان جب تک زندہ ہے تب تک یہ چہل پہل ہے اس کی موت کے بعد سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

اس نظم میں شاعر نے بوڑھے کسان کا بھی ذکر کیا ہے۔ جو آخری کلمات ادا کرتے ہوے ایک شخص (جو باغ میں گھومنے آتا تھا) کے بارے میں کہتا ہے کہ خدا اس مرنے والے کو بخشے، اسے ایک دوست کی تلاش تھی، اور خدا ہی اس کا دوست نکلا (یعنی وہ خدا کے پاس پہنچ گیا) اب اس کے بارے میں برا بھلا کہنا اچھی بات نہیں۔ کیونکہ خدا سب باتوں کو جانتا ہے۔

⭕️نظم گورِغریباں کی تشریح⭕️

وداعِ روزِ روشن ہے گجر شامِ غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم گھر کی طرف کس شوق سے اُٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے
  • معنی: شامِ غریباں : مسافروں/مصیبت/ تنہائی کی شام
  • گجر : گھنٹہ/ گھڑیال
  • چراگاہوں : گھانس کا میدان
  • آشیانہ : گھونسلہ
  • طائر : پرندے/چڑیا
  • دہقان : گاؤں میں رہنے والا/ کسان

حوالہ: یہ بند ہمارے نصاب میں شامل ہے نظم طباطبائی کی نظم “گورِ غریباں” سے لیا گیا ہے۔ در اصل یہ ان کی طبع زاد نظم نہیں بلکہ ایک انگریزی شاعر تھامس گرے کی نظم “Elegy Written in a Country Church Yard” کا ترجمہ ہے۔

تشریح: شاعر نے اس بند میں دن کے گزرنے اور شام کے ہونے کا منظر خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ گھنٹے کی آواز سن کر کھیتوں میں دن بھر کام کرنے والے تھکے ہوے کسان بڑے شوق سے اپنے ہل کو کندھے پر رکھ کر اپنے جانوروں کے ساتھ خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف آ رہے ہیں۔ اب سورج چھپ گیا اور چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور اسی تنہائی میں میرے علاوہ کچھ پرندے ہیں جو اپنے اپنے گھونسلوں میں جا رہے ہیں۔

اندھیرا چھا گیا دُنیا نظر سے چھپتی جاتی ہے
جدھر دیکھو اُٹھا کر آ نکھ اُدھر اِک ہوُ کا ہے عالم
مگس لیکن کسی جا بھیرویں بے وقت گاتی ہے
جرس کی دور سے آواز آ تی ہے کہیں پیہم
  • معنی: ہوٗ : سنّاٹا
  • مگس : مکھی
  • جرس : گھنٹی
  • پہیم : لگاتار/ مسلسل
  • بھیرویں : راگ/راگنی (پانچ راگنیوں میں سے ایک راگنی جو صبح کے وقت گائی جاتی ہے۔
  • تشریح: شاعر اس شعر میں شام کے منظر کو خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شام ہونے کی وجہ سے چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ چاروں طرف ہوٗ (سناٹا) کا عالم ہے۔ لیکن کسی جگہ سے مکھیوں کی بے وقت کی بھنبھناہٹ کی آواز آرہی ہے۔(یعنی صبح کے وقت نا گاکر شام کے وقت گاتی ہے) اور کہیں دور سے گھنٹے کی آواز آ رہی ہے۔
کبھی اک گنبدِ کہنہ پہ بومِ خانماں ویراں
فلک کو دیکھ کر شکووؑں کا دفتر باز کرتا ہے
کہ دُنیا سے الگ اک گوشہؑ عزلت میں ہوں پنہاں
کوئی پھر کیوں قدم اِس کنجِ تنہائی میں دھرتا ہے
  • معنی: کہنہ : پرانا
  • بومِ : الّو
  • خانماں : گھر
  • گوشہ : کونا
  • فلک : آسمان
  • عزلت : تنہائی
  • پنہاں : پوشیدہ /چھپنا
  • شکو : شکایت/ گلہ

تشریح: شاعر کہتا ہے کہ اس ویرانی کی وجہ سے ایک پرانے گنبد پر ایک آوارہ الوّ بیٹھا ہوا آسمان کو دیکھ کر شکایت کرتا ہے کہ اے خدا میں دنیا سے الگ تھلگ ایک گوشۂ تنہائی میں چھپا بیٹھا ہوں۔ پھر بھی کوئی شخص اس گوشۂ تنہائی میں کیوں خلل (Disturb) پیدا کرتا ہے۔

نہ دیکھیں حال اِن لوگوں کا ذلت کی نگاہوں سے
بھرا ہے جن کے سر میں غرّہؑ نوّابی و خانی
یہ اِنکا کاسۂ سر کہہ رہا ہے کج کلاہوں سے
عجب ناداں ہیں وہ جنکو ہے عجبُ تاجِ سلطانی
  • معنی: غرۂ : غرور
  • کاسۂ سر : کھوپڑی
  • ذلت : رسوائی
  • کج کلاہی : بانکپن/ خودنمائی

تشریح: شاعر اس شعر میں نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُن لوگوں کو ذلت کی نگاہ سے نہ دیکھیں جن کو اپنی نوابی اور بادشاہی کا غرور تھا، آج ان لوگوں کی کھوپڑیاں ادھر اُدھر بکھری پڑی ہیں اور لوگوں سے کہہ رہی ہے کہ کتنے نادان ہے یہ لوگ جن کو آج بھی اپنے تاج سلطانی پر غرور ہے۔
(شاعر کہتا ہے کہ نواب ہو یا بادشاہ اس کو موت آنی ہے موت کے بعد اس کی بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ اس لیے جو زندگی ہمیں ملی ہے اسے انسان بن کر انسانوں کی بھلائی میں لگائے۔)

خدا جانے تھے اِن لوگوں میں کیا کیا جوہرِ قابل
خدا معلوم رکھتے ہوں گے یہ ذہنِ رسا کیسے
خدا ہی کو خبر ہے کیسے کیسے ہوں گے صاحب حل
خدا معلوم ہونگے بازوئے زور آزما کیسے

تشریح: اس بند میں شاعر نے ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو دارِ فانی سے رخصت ہو گۓ، نہ جانے ان لوگوں میں قابلیت کے کس قدر جوہر و کرامات تھے۔ وہ کتنے ذہین اور لائق تھے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس دنیا میں کیسے کیسے صاحبِ دل انسان موجود ہیں اور قبروں میں دفن ہیں۔ (مطلب یہ دنیا فانی ہے ختم ہو جانے والی ہے۔ یہاں کوئی بھی ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا۔)

نہ دیکھ اِن اُستخواں ہاےؑ شکستہ کو حقارت سے
یہ ہے گورِ غریباں اک نظر حسرت سے کرتا جا
نکلتا ہے یہ مطلب لوحِ تربت کی عبارت سے
جو اِس رستے گذُرتا ہے تو ٹھنڈی سانس بھرتا جا
  • معنی: استخوان : ہڈی
  • حقارت : نفرت
  • گور : قبر
  • لوحِ تربت : قبروں پر لگی تختی

تشریح: شاعر اس شعر میں قبرستان سے گزرنے والے لوگوں سے کہتا ہے کہ مُردوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو نفرت بھری کی نظر سے نہ دیکھو، قبروں پر لگی تختیوں پر جو لکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اس راستے سے گزرے تو ٹھنڈی سانس بھر اور ان کے انجام کو سمجھنے کی کوشش کر۔

حقیقت غور سے دیکھی جو اِن سب مرنے والوں کی
تو ایسا ہی نظر آنے لگاانجامِ کار اپنا
اِنہیں کی طرح جیسے مل گئے ہیں خاک میں ہم بھی
یونہی پُرسانِ حال آنکلا ہے اک دوستدار اپنا

تشریح: شعر اس شعر میں کہتا ہے کہ جب ہم نے مرنے والوں کی حقیقت کو غور سے دیکھا تو ہمیں بھی اپنا انجام ان کے جیسا ہی نظر آنے لگا۔ جیسے ان لوگوں کی طرح ہم بھی مٹی میں مل گۓ ہوں۔ اور وہاں ایک دوست ہمارا حال جاننے کے لیے آیا ہوں۔ (مراد انسان جب موت کی حقیقت پر غور کرتا ہے تو اسے ساری حقیقت سامنے نظر آنے لگتی ہے۔

یہ اس سے ایک دہقانِ کہن سال آ کے کہتا ہے
کہ ہاں ہاں خوب واقف ہیں دیکھا ہے اِسے اکثر
پھر اِسکے بعد دِل ہی دِل میں کچھ غم کھا کے کہتا ہے
کہ ابتک پھرتا ہے آ نکھوں میں پھرنا اِسکا سبزے پر
  • معنی: دہقان کہنا سال : عمر رسیدہ/بڑی عمر کا بوڑھا کسان
  • سبز : تروتازہ (گھانس)

تشریح: شاعر کہتا ہے کہ اس دوست کو دیکھ کر ایک بوڑھا کسان ہم سے آکر کہتا ہے کہ ہم اس شخص سے خوب واقف ہیں۔ پھر اس کے بعد دل ہی دل میں غم محسوس کرتے ہوے کہتا ہے اب تک اُس کا سبزے (ہریالی) پر پھرنا ہماری آنکھوں میں ہے (یعنی ہم نے اپنی آنکھوں سے اُسے روز یہاں گھانس پر ٹہلتے دیکھا ہے۔

وہ اُسکا نور کے تڑکے اِدھر گلکشت کو آنا
وہ پو پھٹنے سے پہلے آ کے پھرنا سبزہ زاروں میں
وہ کچھ کم دِن رہے اِسکا لبِ جو کی طرف جانا
وہ اُسکامسکرانا دیکھ کر شور آبشاروں میں
  • معنی: نور : روشنی
  • تڑکا : صبح صادق
  • گلگشت : باغ کی سیر
  • پو پھٹنا : صبح صادق ہونا
  • سبز زادر : جہاں دور دور تک ہری گھانس اُگی ہو
  • لبِ جو : ندی کا کنارہ
  • شورآبشار : غل/جھرنا (جھرنے کا شور)

تشریح: اس شعر میں شاعر کسان کی زبانی کہتا ہے کہ وہ روزانہ صبح یہاں باغ کی سیر کرنے آتا تھا، اور صبح ہونے سے پہلے ہی واپس لوٹ جاتا تھا، کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ وہ نہر کے کنارے ٹہل رہا تھا اور آبشاروں (جھرنے کے شور ) میں اس کے مسکرانے کا شور سنائی دے رہا تھا۔

غرض کیا کیا کہوں اک روز کا یہ ذکر ہے صاحب
کہ اِس میداں میں پھرتے صبح دم اِسکو نہیں دیکھا
ہوا پھر دوسرا دِن اور نظر سے وہ رہا غائب
خیاباں میں اِسے پایا نہ دریا پر کہیں دیکھا
  • معنی: صبح دم : منہ اندھیرے/ بہت تڑکے
  • خیاباں : کیاری (باغ کے درمیان سے گزرتا راستہ)

تشریح:اس شعر میں شاعر بوڑھے کسان کے حوالے سے کہتا ہے کہ میں اس کے بارے میں کیا کیا کہوں۔ ایک روز کا ذکر ہے میں نے ان صاحب کو میدان میں پھرتے ہوے نہیں دیکھا، جہاں وہ روز آتے تھے۔ جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر میری نظروں سے غائب رہا۔ نہ میں نے اسے باغ میں کہیں نہیں دیکھا نہ ہی وہ دریا کے کنارے نظر آیا۔ مطلب یہ کہ وہ دو دن سے باغ میں کہیں نظر نہیں آیا۔

پر اِسکے تیسرے دِن دیکھتا کیا ہوں جنازے کو
لئے آتے ہیں سب پڑھتے ہوےؑ کلمہ شہادت کا
تمہیں پڑھنا تو آتا ہوگا آو پاس سے دیکھو
یہ اِسکی قبر ہے اور یہ کتابہ سنگِ تربت کا
  • معنی: کتابہ سنگ تربیت : وہ عبارت جو پتھر پر لکھی جاۓ۔ (قبر پر لگا ہوا پتھر جس پر مردہ کا نام تاریخ لکھی ہو)

تشریح: شاعر اس بند میں کسان کے حوالے سے کہتا ہے کہ میں پھر تیسرے دن دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے جنازے کو لیکر آ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہیں پڑھنا تو آتا ہوگا آؤ ذرا پاس آکر دیکھو۔ یہ اس کی قبر ہے اور اس پر لگی تختی کو غور سے دیکھوں جس پر کچھ عبارت لکھی ہوئی یہ ہے۔

خدا بخشے بس دوست کا رہتا تھا وہ جویا
تو نکلا دوست اک آخر خدا وندِ کرم اِسکا
اب اسکے نیک و بد کا ذکر کرنا ہی نہیں اچھا
کہ روشن ہے خدا پر عالمِ امید و بیم اِسکا
  • معنی: جویا : ڈھونڈنے والا
  • نیک و بد : برا بھلا
  • بیم : خوف/خطرہ/اندیشہ/ڈر

تشریح: نظم کے آخری بند میں بوڑھا کسان آخری کلمات ادا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا اس کو معاف کر دے کہ وہ ہر وقت اپنے دوست کی تلاش میں رہتا تھا اور اس کا دوست دونوں جہاں کا مالک خدا تعالیٰ تھا،(یعنی وہ خدا کے پاس پہنچ گیا) اب اس کی اچھائیوں اور برائیوں کا ذکر کرنا اچھی بات نہیں۔ کیونکہ خدا اس کی ہر باتوں کو جانتا ہے۔ وہ غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے۔اس کے مقابلے میں کوئی رازداں نہیں۔

نظمؔ طباطبائی کے انگریزی منظومات سے کئے گئے یوں تو بہت سے ترجمے اردو میں موجود ہیں لیکن جو مرتبہ انگلستان کے نامی شاعر طامس گرے کی ایلیجی Elegyکے ترجمہ ’’گورغریباں ‘‘ کو حاصل ہے اس درجہ کو آج تک کوئی نہ پہنچ سکا ۔ ’’گورغریباں ‘‘ کی کامیابی کا رازیہ ہے کہ نظمؔ صاحب نے مفہوم کا ترجمہ کیا ہے اور اردو زبان کے اسلوب اور مقامی اسلوب اور مقامی ماحول کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے ۔ یہ لفظی ترجمہ نہ ہونے کے باوجود ایلیجی کی تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ اگر اس کے لئے لفظ ترجمہ استعمال نہ کیا جائے تو یہ کلاسکی ادب اردو کے بلند پایۂ منظومات میں شمار کیا جا سکتا ہے اس پوری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے جن سے عروس شاعری کا حسن دمک اٹھا۔

⭕️مشقی سوالات و جوابات:

سوال1۔ “گورِ غریباں” کے اشعار کس انگریزی نظم سے لیے گئے ہیں؟

جواب: اس نظم کے اشعار ایک انگریزی شاعر تھامس گرے کی مشہور نظم Elegy Written in a Country Church Yard سے لیے گئے ہیں ۔

سوال2۔ زمین میں کیسے کیسے لوگ دفن ہے؟

جواب: زمین میں امیر، غریب، اعلیٰ، ادنیٰ، شاہ، فقیر،فنکار، دستار اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ دفن ہیں۔

سوال3۔ لوحِ تربت کسے کہتے ہیں؟

جواب: قبر کے سرہانے کی طرف پتھر کا کتبہ یا لکڑی یا دھات سے بنا بورڈ جس پر صاحب قبر کا نام، تاریخ وغیرہ تحریر ہو اس کو لوحِ تربت کہتے ہیں۔

سوال4۔ کہن سال دہقان کیا کہتا ہے؟

جواب: کہن سال دہقان (عمر رسیدہ کسان) ایک مزار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے دوست (شاعر) سے کہتا ہے کہ ان صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ روز اس باغ میں علی الصبح (تڑکے) ٹہلنے آتے تھے۔ اور پو پھٹنے (صبح صادق ہونے) سے پہلے واپس لوٹ جاتے تھے۔ ایک دن کی بات ہے کہ وہ باغ میں کہیں نظر نہیں آئے۔ دوسرے دن بھی نظروں سے غائب رہے۔ تیسرے دن ان صاحب کا جنازہ لے کر کچھ لوگ آ رہے تھے۔ آخر میں بزرگ کسان اس کے لیے دعائیں مغفرت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا اسے بخشے، مرنے والے کو کسی دوست کی تلاش تھی۔ اور وہ اپنے دوست یعنی خدا تعالیٰ کے پاس چلا گیا۔ اب اس کے بارے میں برا بھلا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں خدا سب باتوں کا جاننے والا ہے وہ غیب کی باتیں بھی جانتا ہے۔

⭕️ معروضی سوالات کے جوابات:

س1۔ نظم طباطبائی کب اور کہاں پیدا ہوے؟

جواب: 1853ء لکھنؤ میں پیدا ہوے۔

س2۔ نظم طباطبائی کی والدہ کا تعلق کس خاندان سے تھا؟

جواب: ان کی والدہ کا تعلق لکھنؤ کے نواب معتمدالدولہ آغا میر کے خاندان سے تھا۔

س3۔نظم طباطبائی کے والد کا نام کیا ہے؟

جواب:سید مصطفیٰ حسین خاں ہے۔

س4۔ نظم طباطبائی کو کس علوم میں خصوصی دلچسپی تھیں؟

جواب: نظم طباطبائی کو فلکیات اور علم عروض میں خصوصی دلچسپی تھیں۔

س5۔ نظم طباطبائی کی پہلی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟

جواب: ان کی مقبولیت کی پہلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے 1901ء میں “دیوان غالب” کی مکمل شرح لکھ کر حیدرآباد سے شائع کی۔

س6۔ نظم طباطبائی کی مقبولیت کی دوسری وجہ کیا ہے؟

جواب: نظم طباطبائی کی مقبولیت کی دوسری وجہ منظوم ترجمہ گورِ غریباں ہے۔ جو 1897ء میں انگریزی شاعر تھامس گرے کی مشہور ایلچی نظم Elegy written in a Country Church yard کا اردو ترجمہ کیا۔ اور اس نطم کا ہر بند اسٹانزا کی ہیت میں لکھا گیا۔

س7۔ اسٹانزا Stanza کسے کہتے ہیں؟

جواب: چار مصرعے کے بند کو اسٹانزا کہتے ہیں۔

س8۔ اسٹانزا فارم Stanza میں نظم لکھنے والے شعراء کا نام تحریر کیجئے؟

جواب: سجاد حیدر یلد، حسرت موہانی، تلوک چند محروم وغیرہ ہے۔

س9۔ نظم”گورِ غریباں” کتنے بندوں پر مشتمل ہے؟

جواب: یہ نظم 32 بندوں پر مشتمل ہے۔

س10۔ اسٹانزا کی فارم اور ایجاد کرنے والے اور نظم معریٰ کی بنیاد رکھنے والے شاعر کا نام تحریر کیجئے؟

جواب: حیدر علی نظم طباطبائی

س11۔ حیدر علی نظم طباطبائی کو کس خطاب سے نوازا گیا؟

جواب: حیدر یار جنگ کے خطاب سے نوازا گیا۔

تحریر ⭕محمد طیب عزیز خان محمودی⭕