پریم پنتھ

0
محبت تم سے کی میں نے تمھارے بے وفا ہوتے
اگر تم با وفا ہوتے تو میں نے کیا کیا ہوتا

“پریم پنتھ” محبت کے مسلک یا راستے کو کہتے ہیں۔ کتاب بنام ” پریم پنتھ” ڈاکٹر محمد نواز کنول کی مرتبہ کتاب ہے ، جس میں انہوں نے عبدالعزیز خالد کی پنجابی شاعری کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ادب کے قاری کے لیے سہولت کا کام کیا ہے۔ عبدالعزیز خالد شاعر ہفت زبان، ماضی قریب کی ایک ایسی ہستی ہیں جنہوں نے بیک وقت اردو، ہندی، فارسی ، عربی، سرائیکی ، جاپانی، عبرانی اور پنجابی میں شاعری تخلیق کی ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نقاد اور مترجم بھی تھے۔ انہیں ایک مشکل پسند شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ڈاکٹر محمد نواز کنول نے ” دانہ ہائے ریختہ” لکھ کر قاری کو ان کی سادہ گوئی سے متعارف کروایا۔

پریم پنتھ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے اور یہ ڈاکٹر محمد نواز کنول کی مسلسل سولہویں کتاب ہے۔ مذکورہ کتاب میں عبدالعزیز خالد کی پنجابی غزلیں، دوہے، ماہئیے، ترانے اورآزاد نظمیں شامل ہیں ۔ بڑے شاعروں کا کلام شائع ہوجانے کے بعد بھی کہیں نہ کہیں سے برآمد ہوتا رہتا ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بکھرے ہوئے کلام اور متن کو ڈھونڈنا ایک مرتب کے لیے بہت مشکل امر ہوتا ہے۔ پھر اس کی تحقیق اور جانچ پڑتال کرنا اور اسے مستند حیثیت سے پیش کرنا بھی ایک محنت طلب کام ہے۔ اس دوران انسانی ذہن ہمہ وقت ریسرچ کی طرف مائل رہتا ہے اور مسلسل ریسرچ خون پیتی رہتی ہے۔ عبدالعزیز خالد ایک درویش صفت انسان تھے جن کے قلم کی چھنکار سے تصوف ٹپکتا ہے۔ ان کی نعت گوئی ، منقبت نگاری اور غزل گوئی کے علاوہ آزاد نظم ، دوہے، ماہئیے، اور ہر طرح کا کلام اپنے اندر تصوف کو سمیٹے ہوئے ہے۔ نعت گوئی کے حوالے سے ان کا ایک شعر قابل غور ہے۔

میں بیان تیرا کراں کیہڑی زبانوں دلبرا
میری ہستی کیہ میں بے ہنرا، نکارا بے نوا

شان مصطفے ٰ کے حوالے سے ان کا کلام اپنی مثال آپ ہے۔ ایک درویش اگر محب وطن بھی ہو تو اس کے کلام میں اتنی قوت اور ہمت ہوتی ہے کہ وہ ایک بے کار شخص کے اندر بھی حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرسکتی ہے۔ عبدالعزیز خالد نے پنجابی زبان میں ترانے بھی لکھے ۔ اس ضمن میں ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔

میں اپنے سوہنے دیس دے سوہلے گاواں
سامنے گاواں ، اوہلے گاواں

دوہے، ماہئیے پنجاب کی دھرتی کی ثقافت کا ایک اہم جزو ہیں۔ پنجابی زبان سے شروع ہونے والی یہ مخصوص شاعری اب اردو زبان میں بھی کی جا رہی ہے۔ عبدالعزیز خالد نے بہت خوبصورت ماہیے بھی لکھے۔

تقدیراں دے لیکھے
پا پھیرا ساڈے ول وی
کدی بے پرواہ بھل بھلیکھے

عبدالعزیز خالد کے دوہے ، ماہئیے انہیں کئی شاعروں سے ممتاز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ عمومی طور پر پنجابی شاعری میں دوہے ماہئیے کی صنف کا سہارا لے کر محبوب کی مداح سرائی کی جاتی ہے لیکن جب محبوب حقیقی ہو تو دوہے ماہئیے کی صنف میں عبدالعزیز خالد جیسے شاعر تصوف کا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ان کا تصوف سے بھرپور ایک شعر پیش خدمت ہے۔

گناہیں بھریا میں پھراں لوک کہن درویش
حشر دہاڑے کیہ ہو سی ، ایہہ سوچ ہمیش

ڈاکٹر محمد نواز کنول گورنمنٹ اسلامیہ گریجویٹ کالج سانگلہ ہل میں صدر شعبہ اردو ہیں۔ انہیں عبدالعزیز خالد سے دلی لگاؤ ہے اور اس سے پہلے وہ ان پر تحقیقی نوعیت کا کام بھی کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد نواز کنول کہتے ہیں کہ انہیں عبدالعزیز خالد کے پنجابی لب و لہجے سے خصوصی انس ہے۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ عبدالعزیز خالد کی شاعری کے حوالے سے جو گوشے خالی پڑے ہیں انہیں پُر کیا جائے۔ اسی نقطہ نظر کے تحت انہوں نے ان کی پنجابی شاعری کو کرید کرید کر ڈھونڈا ہے اور اسے کتابی شکل عطاء کی ہے۔ پنجابی اور اردو زبان کا آپس میں ایک گہرا ربط ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس کاوش کے ذریعے یہ ربط مزید مضبوط ہوگا اور اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ثابت ہوگا۔

میرے نزدیک مصنفہ کتاب کی تخلیق میں اس قدر مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیوں کہ لکھاری کا ذہن ہر لحاظ سے کلئیر ہوتا ہے اور اس کے ذہن کی چار دیواری میں کچھ نظریات جنم لے چکے ہوتے ہیں۔ بس ان نظریات کے عکس کو ایک روانی کے ساتھ کاغذ پر اتارنا ہوتا ہے۔ جبکہ مرتبہ کتاب میں مغز کھپانے کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے ۔ ایک ایک جملے کی تصدیق و تحقیق کرنی پڑتی ہے کہ کیا اس کا برا ہ راست مصنف کی شخصیت سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔

عبدالعزیز خالد پنجابی شاعری میں بھی ایک الگ لہجہ رکھتے ہیں ۔ ان کے پنجابی دوہے ماہیئے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ روایتی دوہے ماہیئے نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعے حقیقی محبوب یعنی خدا کو پکارا گیا ہے۔

سنسان قبرستان چے
اک ویران قبر تے
اک سنج سنج دیوا بلے
آسیباں دے پرچھاویں
راہیا جا راہویں راہویں
تک نہ آسے پاسے
دید دے ترہایاں نوں
شالا مڑ شکل دکھاویں
تحریر امتیاز احمد
پریم پنتھ 1