گتھی سلجھ گئی

0

اس کے سامنے ایک ساٹھ سالہ اپنے ملک کا بزنس ٹائیکون بیٹھا ہوا تھا جو کہ ڈپریشن اور قلبی بے قراری کا شاکی تھا ، اس کا نام ڈاکٹر جمال بداوی تھا وہ نفسیات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد پچیس سال ماہرِ نفسیات کے طور وسیع تجرباتی زندگی گزار چکا تھا دنیا بھر سے اپنے نفسیاتی مسائل کے حل کیلیے جو لوگ اس سے رجوع کرتے تھے اس کی ایک طویل فہرست تھی ، اس بزنس مین کی بات مکمل سننے کے بعد ڈاکٹر بداوی نے کہا آپ نے آخری بار عبادت کب کی تھی ؟
بزنس مین نے کہا “روایتی مذہبی عبادات یا رسومات کو ترک کیے ہوئے مجھے کئی سال ہوچکے ہیں دراصل میں ان مذہبی پابندیوں سے آزاد ایک انسان دوست ہوں “
اچھا ماہانہ یا سالانہ چیئرٹی میں کتنی رقم دیتے ہیں ؟

یہ لوگ اصل میں اپنے مذہب یا فرقے کی سپورٹ کیلیے ہی ڈونیشن لیتے ہیں اور میں مذہب سے بالاتر ہوکر انسان دوست ہوں ، ایسی چند این جی اوز نے رابطہ کیا تھا جو انسانیت کی بنیاد پر خدمات کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن بعد میں معلومات کرنے پر پتا چلا کہ وہ ڈونیشن بھی اصل مستحق تک نہیں پہنچتی تو باقاعدہ طور پر ماہانہ یا سالانہ ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے ،
ڈاکٹر بداوی نے بڑے تحمل سے کہا ” ٹھیک ہے ، ایسی کوئی دنیا کی سہولت جو حاصل کرنا چاہتے ہوں یا ایسی کوئی چیز جس کی تمنا ہو لیکن نا ملی ہو حسرت ہی رہ گئی ہو ؟ “
سکون ، اطمینان بس یہی نہیں ہے باقی دنیا کی کوئی ایسی سہولت یا چیز نہیں جو حاصل کرنا چاہیں نا ملی ہو ، جواباً بزنس مین نے کہا

ڈاکٹر بداوی نے پھر کہا میں ایک سوال پوچھتا ہوں مجھے اس کا جواب دیجیے گا
بالفرض آپ کا انسانی اسٹیچو بنا کر اگر کسی بند اور تنگ کال کوٹھری میں رکھ دیا جائے کیا وہ شکایت کرے گا ؟ اس سے نکلنے کیلیے مزاحمت کرے گا ؟
ایک اسٹیچو کیسے یا کیا مزاحمت کر سکتا ہے ؟
ڈاکٹر بداوی نے پھر کہا لیکن اگر آپ کو اسی طرح کچھ وقت کیلیے کسی کال کوٹھری میں قید کیا جائے تو آپ کیا کریں گے ؟
ظاہر سی بات ہے کہ میں مزاحمت کرونگا نکلنے کی پوری کوشش کروں گا ۔

ایک زندہ انسان اور اس کے اسٹیچو میں یہی فرق ہے جدید مادی ترقی نے انسانی بدن کیلیے بے انتہا وسائل میسر کیے ہیں لیکن انسان صرف ظاہری بدن اور جسم کا نام نہیں بلکہ انسان میں فہم ، ادراک ، عقل اور شعور جیسی خصوصیات بھی ہیں جو کہ انسان کی باطنیت اور روحانیت کے ساتھ متعلق ہیں ہماری جدید تہذیب میں ہوا یہ کہ انسانی جسم اور روح میں فرق کیا گیا اور یہ اب سے نہیں ڈیکارٹ جیسے فلسفی نے Dualism جیسے قانون کی بنیاد رکھی انسانی جسم اور روح کو جدا جدا پیش کیا لیکن دونوں کی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا گیا صرف انسانی جسم کی ضروریات کو تو ہر طرح سے پورا کرنے کی کوشش کی گئی کئی قسم کے اسباب و آلات مہیا کیے گئے لیکن روح کی غذا کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ جس طرح ظاہری جسم کی ضروریات اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کی بھی ضروریات اور خوراک ہوتی ہیں جب جسم کی خوراک کو ترک کیا جائے تو بدنِ انسانی مر جاتا ہے اسی طرح روح کو اگر خوراک نا ملے تو روح اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نتیجہ وہی سامنے آتا ہے جو کہ آپ کی کیفیت ہے ،
بزنس مین توجہ سے سن رہا تھا

ڈاکٹر بداوی نے مزید کہا کہ میں آپ کو مثال دیتا ہوں کراچی کی سڑک پر ایک شخص جا رہا تھا جو کہ چہرے کے نقوش سے پاکستانی نہیں لگ رہا تھا جبکہ اس کے ظاہری حالات کسمپرسی کا اظہار کر رہے تھے اس سے اس کے وطن کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اس کے والد پاکستانی ہیں لیکن وہ کینیڈا کا پیدائشی ہے ، مزید سوالات کرنے پر پتا چلا کہ وہاں اس شخص کا اپنا گھر ، بیوی بچے نوکری سب کچھ تھا ، لیکن بیوی سے علیحدگی ہوگئی اور سب کچھ چھوڑ کر یہاں آگیا جب اس سے پوچھا گیا کہ وہاں کی تمام تر سہولیات کو چھوڑ کر یہاں غربت کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں ؟

اس شخص نے بڑی تحمل مزاجی سے جواب دیا کہ
There i was comfortable physically and here I’m comfortable spiritually
اس شخص کی نظر میں جسمانی سہولیات کے مقابلے میں روحانی ضروریات زیادہ اہم ہیں ، لیکن یہ صرف ایک شخص کا تجزیہ نہیں بلکہ سماجی حقیقت ہے
ڈاکٹر بداوی نے مزید کہا کہ جاپان کا معاشرہ صنعتی اعتبار سے انتہا درجے کا ترقی یافتہ ملک ہے لیکن وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک مرچنٹ کلچر ہے اور مرچنٹ کلچر انسان کیلیے ناکافی ہے۔

تو موجودہ مشینی تہذیب اور معاشرہ انسان کے نصف حصے کی ضروریات پوری کرکے آدھے حصے کو تو تسکین دیتا ہے لیکن بقیہ نصف کی تسکین کا اس مادی ترقی یافتہ تہذیب میں کوئی سامان نہیں ، اور وہ کمی ہے روحانی تسکین کے سامان اور اسباب کی ، روحانی خوراک اور ضروریات کی ، موجودہ تہذیب نے عبد کا اپنے معبود سے جو عبادت کا تعلق تھا وہ ختم کر دیا ہے اور اسی روحانی تعلق کے معدوم ہونے کی وجہ سے ہی ڈپریشن ، پریشانی ، بے چینی اور عدم اطمینان کی ذہنی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

بزنس مین جو اتنی دیر سے خاموشی سے ڈاکٹر بداوی کی گفتگو سن رہا تھا اچانک گویا ہوا لیکن یہ کیسے پتا چلے کہ اسی روحانی تعلق کی ہی کمی ہے ؟ ہو سکتا ہے کوئی اور وجہ ہو ؟
ڈاکٹر بداوی نے کہا جی یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ آخر وہ کیا ہے جس کی کمی آپ کو سکون کی دولت سے محروم کیے ہوئے ہے ؟ یہ انسان ہی ہے جس کے اندر کسی چیز کی تلاش ،جستجو ،طلب ختم ہی نہیں ہوتی ، ایک انسان کو اگر ساری دنیا کی دولت ، سہولیات ضروریات بھی مل جائیں اس کی طلب اور جستجو کی صفت ختم نہیں ہوگی یہ انسان کی نفسیات کا جزءِ لازمی ہے یہ جو طلب اور جستجو کی خاصیت انسان میں ہے یہ رب کی تلاش ، اور خالق کو پالینے کی جستجو ہے ، انسان کی نفسیات میں یہ ہے کہ وہ کسی ایسی ذات اور ہستی کو پائے جس کو اپنے تمام دکھ درد ، مصائب و آلام زائل کرنے والا سمجھ کر اس کے سامنے ماتھا ٹیکے ، جس کو کامل و اکمل سمجھ کر اس کے در پر آ کر تسکین قلب حاصل کرے ورنہ آپ بتائیں وہ کونسی خوشی ہے جو پیسوں سے خریدی جا سکتی ہے اور آپ نے نہیں خریدی ؟ جب ظاہری جسم کی تمام ضروریات کو آپ نے پورا کیا ہے تو روحانی تعلق کو قائم کرکے اس رب کے ذکر و عبادت سے روح کو خوراک پہنچائیں گے تو قلبی تسکین بھی میسر آئے گی
وہ بزنس گتھی سمجھ چکا تھا اسی وجہ سے اسی وقت سابقہ لادینیت سے تائب ہو کر اللّٰہ پاک پر سچا ایمان لے آیا اور عبادات کی طرف متوجہ ہوگیا۔
اس کو تو قلبی تسکین مل گئی کیا ہم نے اپنی روح کی غذا کا اہتمام کیا ہے ؟

تحریر ابو عمر غلام مجتبیٰ مدنی