گوادر میں موجود ٹیلیگراف کی ایک سو پچاس سالہ عمارت مخدوش حالت میں

0
تحریر عبدالحلیم

گوادر آثار قدیمہ اور تاریخی ٹقافتی ورثہ کا حامل شہر ہے. اس شہر میں تاج بر طانیہ کے دور سے لیکر اومان کے زیر حکمرانی استعمال رہنے والی قدیم عمارتوں کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔

ان عمارتوں میں ایک قدیم عمارت ٹیلیگراف (تار آفس) کی بھی ہے. کہتے ہیں کہ جب برطانیہ بر صغیر میں قدم رنجاں ہوئی تو اس نے اٹھارویں صدی میں کولکتہ انڈیا سے برصغیر اور پرشئین گلف تک اپنے مواصلاتی نظام کا نیٹ ورک پھیلا یا جس کی ابتداء 1870ء میں ہوا۔

یہ نیٹ ورک ٹیلیگراف کے نظام سے منسلک کیا گیا جس کا یہاں سے لندن پیغام رسانی کا کام لیا گیا. ٹیلیگراف کے نظام کو منسلک کرنے کے لئے برطانوی اختیار داروں نے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح مکران میں بھی ٹیلیگراف کی لائین بچھائی تھی۔

جو انڈیا سے ضلع لسبیلہ میں پہنچایا گیا اس کے بعد گوادر، گوادر سے لیکر ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار تا تہران لے جایا گیا. ٹیلیگراف کا ایک اسٹیشن گوادر میں بھی قائم کیا گیا. یہ عمارت اس دور کی نشانی بتایا جاتا ہے۔

1958ء میں گوادر کا پاکستان سے الحاق کے بعد یہ قدیم عمارت تار آفس کی سہولت کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے. لیکن دو دہائیوں کے گزرجانے کے بعد اب اس عمارت کا کوئی پرسان حال نہیں۔

نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے یہ تاریخی عمارت مخدوش حالت میں ہے. عمارت کی چھت اور کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں جو قدیم طرز تعمیر کی شاہکار ہیں ٹوٹ چکی ہیں اور یہ تاریخی عمارت اس وقت خستہ حالی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔

گوادر کے تاریخی ورثہ کے بارے میں گوادر کے معروف سماجی کارکن اور دیہی اجتماعی ترقیاتی کونسل یعنی آر سی ڈی سی گوادر کے صدر ناصر رحیم سہرابی کا کہنا ہے کہ ”گوادر کا قدیم ثقافتی تاریخی ورثہ یا آثار قدیمہ اپنے اندر ایک تاریخی نمو رکھتا ہے. آرسی ڈی سی کونسل نے گوادر کے قدیم ثقافتی ورثہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے سالانہ کتاب میلہ 2019ء میں اس کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔“

وہ کہتے ہیں کہ ٹیلیگراف کی یہ عمارت سمیت دیگر کئی عمارتیں قدیم آثار کی نشانیاں ہیں.آرسی ڈی کونسل گوادر نے شہر کے آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لئے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان جو خود بھی کتاب میلہ میں تشریف فرما تھے ان کو اپنے تجاویز بھی پیش کئے ہیں۔ اس کے علاوہ محکمہ آثار قدیمہ سے خط و خطابت بھی کی گئی جس کے بعد مزکورہ محکمہ کے سیکریٹری نے گوادر کا دورہ کرکے ان تاریخی مقامات کا معائنہ بھی کیا ہے۔“

ناصر رحیم کا کہنا تھا کہ سننے میں آیا ہے کہ ثقافت کا محکمہ مکران میں آثار قدیمہ کے ایک پروجیکٹ پر کام کررہا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ گوادر کا آثار قدیمہ بھی اس پروجیکٹ میں شامل کیا گیا ہے یا نہیں. اگر شامل نہیں کیا گیا تو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ گوادر میں محکمہ آثار قدیمہ یا کلچرل ہیریٹیج کے تحفظ کے لئے کسی کا بھی دھیان نہیں ہے اور نہ ہی متعلقہ ادارے یہاں پر فعال ہیں۔

ناصر رحیم نے تجویز پیش کی کہ گوادر کی آثار قدیمہ یا کلچرل ہیریٹیج کو یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کا حصہ بنایا جائے. اس سے مقامی ثقافت اور تاریخی ورثہ کو بین الاقوامی شناخت مل سکتی ہے. یہ کام صوبائی حکومت کی توسط سے ممکن ہے. اگر گوادر کا قدیم تاریخی ثقافتی ورثہ یونیسکو کی اس فہرست میں آگیا تو ان کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی توجہ بھی مل سکتی ہے۔

ناصر رحیم کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں آثار قدیمہ یا ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے دوبارہ استعمال کو ان کے لئے پائیدار سمجھا جاتا ہے۔ گوادر میں ٹیلیگراف کی عمارت کے علاوہ دیگر بھی قدیم تاریخی عمارتیں موجود ہیں جن کی بحالی کے بعد ان کا کمیونٹی مقاصد یا ان کو میوزیم میں تبدیل کرکے استعمال میں لایا جاسکتا ہے جس سے ان تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال اور تحفظ کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔“