مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزلیں

0

تعارفِ غزل

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تعارفِ شاعر

مرزا غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ بیگ خان تھا۔ غالب تخلص اور مرزا نوشہ عرفیت تھی۔ ندرتِ بیان ، تنوع اور رفعتِ خیال آپ کی شاعری کا خاصہ تھی۔ آپ کی دیگر کتابوں کے علاوہ دیوانِ غالب اور کلیاتِ غالب (فارسی) بہت مشہور ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے آپ کو اپنا استاد مقرر کیا اور دبیر الملک ، نظام جنگ اور نجم الدولہ کے خطابات سے نوازا۔

(غزل نمبر ۱)

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں کہ میری کوئی امید پوری نہیں ہوتی ہے، اور مجھے اپنی زندگی میں آسانیوں کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی ہے۔ اس شعر میں شاعر دراصل ہمارے کمزور ایمان کی نشاندہی کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان اس قدر کمزور ہے کہ ہماری امیدیں ہمیں پوری ہوتی نظر نہیں آتی ہیں۔ اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب ہماری بدقسمتی کی وجہ سے ہورہا ہے۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ایک دن ہر انسان کو موت آ جانی اور اس کا سب کچھ ہی اس دنیا میں رہ جانا ہے، تو پھر انسان کو رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی وہ کیوں اپنی آسائشوں کے فکر میں ہر وقت پریشان رہتا ہے؟ اس شعر کا یہ مطلب بھی ہے کہ انسان کو ایک دن موت آنی ہے تو پھر ہمیں اللہ تعالی پر یقین کیوں نہیں ہے اور ہم رات بھر موت کے خوف سے کیوں جاگے رہتے ہیں۔

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ پہلے مجھے اپنے حالِ دل پر ہنسی آتی تھی، پہلے مجھے اپنے محبوب کی بے رخی کی وجہ سے اپنے دل کے تڑپنے پر ہنسی آتی تھی۔ لیکن اب تو میں نے اپنی زندگی میں ان حالات کا سامنا کر لیا ہے کہ میری ہنسی کہیں کھو گئی ہے اور اب مجھے کسی بھی بات پر ہنسی نہیں آتی ہے۔

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کا اور اس کی عبادت کرنے کا بہت ثواب ہے اور ایسا کرنے سے انسان کو جنت نصیب ہو گی۔ پر میں کیا کروں کہ میری طبیعت ادھر نہیں آتی اور میرا عبادت کرنے کا دل نہیں چاہتا۔

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جو میں چپ ہوں اور اپنے محبوب کا پردہ رکھا ہوا ہے میں نے، تو ضرور کوئی نہ کوئی ایسی بات ہے کہ میں چپ ہوں ورنہ مجھے بھی بات کرنا آتی ہے اور میں بھی اپنے محبوب کی طرح اس پر الزمات لگا سکتا ہوں جس طرح وہ مجھ پر الزامات لگا رہا ہے۔

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر اپنی بے بسی کا حال بیان کر رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں زندگی میں کچھ ایسے مقام پر پہنچ چکا ہوں جہاں مجھے بھی نہیں پتا کہ میں کہاں ہوں اور میں کیا چاہتا ہوں، اور کیا نہیں چاہتا اور میری زندگی میں کیا ہونے والا ہے۔

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہم مرنے کی آرزو کرتے ہوئے مررہے ہیں کہ ہم مر جائیں، لیکن ہماری موت ہے کہ آتی ہی نہیں۔ میری زندگی میں تو مجھے کوئی خوشی نہیں ملی لیکن میری موت مجھے سکون دینے کے لیے مجھے گلے نہیں لگاتی ہے بلکہ مجھ سے دور بھاگتی رہتی ہے اور ہم اپنی موت کی آرزو ہی کرتے رہتے ہیں۔

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم کعبہ کس منہ سے جاؤ گے، یعنی تم اتنے گناہ کر چکے ہو کہ اب اگر تم توبہ کرنا بھی چاہو تو تم کس منہ سے توبہ کرو گے۔ تمہیں شرم نہیں آتی کتنے گناہ کرنے کے باوجود بھی تمھیں اللہ تعالی سے توبہ کی امید نہ ہے۔

(غزل نمبر ۲)

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر انسان کے مرنے کی حقیقت بیان کر رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی صورت ایسی ہوتی ہیں جو پھول اور سبزے میں یعنی انسانوں کے جھرمٹ میں ہر جگہ بہت نمایاں ہوتی ہیں، لیکن جب وہ صورتیں خاک میں مل جاتی ہیں یعنی جب اچھی صورت والے انسانوں کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں، تو ان کی صورت بھی لوگ بھولنے لگتے ہیں۔ اور ایسے خوبصورت چہرے بھی لوگوں کے ذہنوں سے کھو جاتے ہیں۔

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی کی حقیقت جاننے سے پہلے ہمیں بھی محفلوں کے بارے میں خوب علم تھا اور ہم بھی محفل کی جان ہوا کرتے تھے، لیکن جیسے ہی ہم نے انسان کی زندگی کی حقیقت کو جانا، ہم نے یہ تمام محفلیں اور یہ تمام آسائشیں چھوڑ دیں اور ہماری یادداشت سے یہ تمام چیزیں مٹ چکی ہیں۔

سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنان مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر حضرت یوسف اور زلیخا کے واقعے کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر انسان اپنے محبوب سے محبت کرنے والے لوگوں سے یعنی اپنے رقیب سے جلتا ہے اور نہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن زلیخا حضرت یوسف سے اتنی محبت کرتی تھی کہ حضرت یوسف کو دیکھنے والی عورتوں سے بھی خوش ہوگئی کہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں دیکھنے میں محو ہو کر اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔

جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اب ہماری جدائی کی شام آ پہنچی ہے، اس لیے تم آنسو بہا لو اور تمہاری آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر میں یہ سمجھوں گا کے تمہارا چہرہ روشن ہو گیا ہے اور تمہاری آنکھوں سے موتی گررہے ہیں۔

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزلخواں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں جیسے ہی چمن میں گیا وہاں پر ایک مکتب بن گیا اور وہاں پر میری باتیں سننے کے بعد وہاں موجود بلبل بھی غزل کہنے لگی اور غزل خواں ہو گئیں۔

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم رسومات کو ترک کرتے ہیں اور ان کی بے جا پیروی نہیں کرتے ہیں اور ہم اپنے ایمان کو تروتازہ رکھتے ہیں۔ اور شاعر کہتے ہیں کہ جو ملتیں اپنا ایمان کھو دیتی ہیں وہ تمام کی تمام ملتیں مٹ جاتی ہیں۔

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب انسان کو غم کی عادت ہوجاتی ہے تو پھر اسے کوئی غم غم نہیں لگتا بلکہ اسے ان غموں میں بھی مزا آنے لگتا ہے۔ اور شاعر کہتے ہیں کہ مجھ پر اتنی مشکلیں پڑی ہیں کہ اب مجھے میری ہر مشکل آسان لگتی ہے اور مجھے کوئی مشکل مشکل لگتی ہی نہیں ہے۔

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر لوگوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ لوگوں تم دیکھنا اگر غالب یونہی روتا رہا، تو میری محفل بھی ویراں ہو جائے گی اور کوئی بھی انسان غالب کے دکھ سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے، بلکہ ہر کوئی غزل سننا چاہتا ہے اور اگر غالب اپنا غم لوگوں کو سناتا رہا تو لوگ یہاں آنا چھوڑ دیں گے اور یہ بستی ویران ہوجائے گی۔

سوالوں کے جوابات

سوال ۱ : مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کیجیے :

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ایک دن ہر انسان کو موت آ جانی اور اس کا سب کچھ ہی اس دنیا میں رہ جانا ہے، تو پھر انسان کو رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی وہ کیوں اپنی آسائشوں کے فکر میں ہر وقت پریشان رہتا ہے؟ اس شعر کا یہ مطلب بھی ہے کہ انسان کو ایک دن موت آنی ہے تو پھر ہمیں اللہ تعالی پر یقین کیوں نہیں ہے اور ہم رات بھر موت کے خوف سے کیوں جاگے رہتے ہیں۔

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

اس شعر میں شاعر اپنی بے بسی کا حال بیان کر رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں زندگی میں کچھ ایسے مقام پر پہنچ چکا ہوں جہاں مجھے بھی نہیں پتا کہ میں کہاں ہوں اور میں کیا چاہتا ہوں، اور کیا نہیں چاہتا اور میری زندگی میں کیا ہونے والا ہے۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر انسان کے مرنے کی حقیقت بیان کر رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی صورت ایسی ہوتی ہیں جو پھول اور سبزے میں یعنی انسانوں کے جھرمٹ میں ہر جگہ بہت نمایاں ہوتی ہیں، لیکن جب وہ صورتیں خاک میں مل جاتی ہیں یعنی جب اچھی صورت والے انسانوں کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں، تو ان کی صورت بھی لوگ بھولنے لگتے ہیں۔ اور ایسے خوبصورت چہرے بھی لوگوں کے ذہنوں سے کھو جاتے ہیں۔

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں جیسے ہی چمن میں گیا وہاں پر ایک مکتب بن گیا اور وہاں پر میری باتیں سننے کے بعد وہاں موجود بلبل بھی غزل کہنے لگی اور غزل خواں ہو گئیں۔

سوال ۲ : مندرجہ ذیل کے مفہوم کی وضاحت کیجیے :

ثواب طاعت و زہد : پرہیزگاری کا ثواب
نقش و نگارِ طاقِ نسیاں : رنگا رنگ بزم بھولنا
ماہ کنعاں : حضرت یوسف علیہ السلام کا نام
موحد: ایک خدا کو ماننے والا
اجزائے ایمان : ایمان کے جُز

سوال ۳ : آپ نے اب تک جو غزلیں پڑھی ہیں۔ان میں تلمیح پر مشتمل شعر تلاش کیجیے اور ان تلمیحات کی وضاحت کیجیے۔

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سیکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
(علامہ اقبال)

اس شعر میں علامہ اقبال نے اس واقعہ کو تلمیح کے طور پر استعمال کیا ہے جس میں حضرت اسماعیل نے حضرت ابراہیم کو اپنی قربانی کے لیے رضامندی دی تھی۔

سوال۴ : غالب کن خصوصیات کی وجہ سے ایک عظیم شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں؟

جواب : غالب کو دو حیثیتوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ایک تو آپ کی شاعری کی وجہ سے اور دوسرا اس وجہ سے کہ آپ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا اور خط لکھنے کو بہت آسان بنا دیا۔ غالب کو مندرجہ ذیل خصوصیات کی وجہ سے ایک عظیم شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔
آپ نے حدیث دلبری سے حدیث زندگی تک تمام اشعار لکھے۔ عبدالرحمن بجنوری کہتے ہیں کہ ہندوستان کی دو الہامی کتابیں ہیں، ایک وید مقدس اور دوسری دیوان غالب۔ آپ نے بہت عمدہ اشعار لکھے اور ہر قسم کے موضوع پر اشعار لکھے اس وجہ سے آپ کو عظیم شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔