Advertisement
Advertisement

انشائیہ چڑیا چڑے کی کہانی کا خلاصہ:

اس سبق میں مصنف نے چڑیا چڑے کی کہانی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مصنف ایک جگہ رہائش کےلیے گئے، اس کمرے کی حالت پچھلی صدی کی تعمیرات سے مشابہ تھی، جس کی چھت لکڑی کے شہتیروں سی بنی تھی اور ان شہتیروں کے سہارے کے لیے محاربیں ڈالی گئی تھیں۔ یوں ان کے درمیان میں جا بجا چڑیوں نے گھونسلے بنائے ہوئے تھے۔

Advertisement

کمرے میں جا بجا چڑیاں چڑے اپنے گھونسلے بنانے میں مصروف تھے۔اس عمل کے دوران وہ تنکے گرا گرا کر ذرا دیر میں کمرے کا نقشہ بیگاڑ ڈالتے تھے۔پہلے پہل تو مصنف نے ان سے مقابلے کی ٹھانی۔جالے اتارنے کے ایک ڈنڈے کے ذریعے ان کو بگایا۔اس ڈنڈے کی ان پرندوں پر خاصی دھاک بھی بیٹھ گئی۔کچھ دیر کی محنت کے بعد وہ چرند پرند وہاں سے چلے گئے۔مگر کچھ دیر بعد مصنف نے کیا دیکھا کہ جس ڈنڈے کو نیزا بنا کر پرندوں پر دھاک جمائی تھی اسے ہی وہ اب بطور سیڑھی استعمال کرنے لگے۔

آخر مصنف نے ان کے ساتھ ہی نباہ کا سوچا۔ اپنا بستر دیوار سے کھسکا کر درمیان میں کر لیا۔اور کمرے میں دن میں کئی مرتبہ جھاڑو پھیرنے لگے۔منھ دھونے کا میز چونکہ جگہ سے کھسکانا ممکن نہ تھا اس لیے اس کو ڈھکا جانے لگا۔جب یہ تدبیر کچھ کارگر ثابت ہوئی تو مصنف نے سوچا کہ اگر ان کے ساتھ نباہ ہی کرنا ہے تو کیوں نہ دوستی بھی کی جائے۔

Advertisement

اپنے حریفوں سے صلح کر نے کے لیے مصنف نے اول تو ان کے گھونسلے توڑنے یا ان کو بھگانے کا کام ترک کر دیا۔اس کے بعد مصنف نے اپنے کمرے میں ایک جانب دری پر ان کے لیے دانا ڈالنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس عمل میں قربت لانے کے لیے دانا برتن میں اور اپنے قریب تر رکھنے لگے۔

Advertisement

ایک دن یہ دانا دری کے کونے پر آیا تو اگلے دن مصنف نے کھسکا کر اسے اپنے بستر کے قریب کرلیا یوں ہوتے ہوتے یہ تپائی اور پھر لکھنے کی کرسی کے پاس آگیا۔ پھر تو مصنف اور ان میں اتنی قربت ہوگئی کہ مصنف گویا ان کے لیے ایک پتھر کا آدمی تھا جس میں کبھی کبھی جان آتی تھی۔ اس قربت کا سارا سہرا مصنف نے ایک چڑے کے سرسجایا ہے۔

مصنف نے چڑے کو قلندر کہا ہے اور اس کو قلندر کہنے کی وجہ اس کی بے باکی،بے دماغی اور رندانہ جرات ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے وہ بے نیازی سے ہر جانب اپنا پہلا قدم بے دھڑک طریقے سے بڑھا دیتا ہے۔اسی نے دری پر کھانے کی طرف بڑھنے میں پہل کی وہی پہلے برتن تک آیا اور یہاں تک کہ تپائی اور کرسی کے پاس بھی وہ ہی پہلے آیا مصنف کو چڑے کی یہ دلیری بہت بھائی اور اس نے چڑے کو قلندرانہ صفات کا حامل قرار دیا۔ چڑیا چڑے مصنف کے یوں پاس آنے لگے کہ جیسے انھیں معلوم ہو کہ وہ آدمی ہو کہ بھی آدمیوں سا خطرناک نہیں۔

Advertisement

سوالات:

سوال نمبر01:مصنف نے اپنے کمرے کا منظر کس طرح پیش کیا ہے؟

مصنف نے کمرے کو پچھلی صدی کی تعمیرات کا نمونہ قرار دیا۔ جس کی چھت لکڑی کے شہتیروں سی بنی تھی اور ان شہتیروں کے سہارے کے لیے محاربیں ڈالی گئی تھیں۔ یوں ان کے درمیان میں جا بجا چڑیوں نے گھونسلے بنائے ہوئے تھے۔

سوال نمبر02:چڑیا چڑے کی کہانی میں مولانا آزاد نے چڑیا چڑے کی کس خوبی کو سب سے زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے؟

مولانا آزاد نے چڑیا چڑے کی کہانی بیان کرتے ہوئے چڑیا چڑے کی مستقل مزاجی اور قلندرانہ صفت کو سب سے زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

سوال نمبر03:مصنف نے قلندر کس کو اور کیوں کہا ہے؟

مصنف نے چڑے کو قلندر کہا ہے اور اس کو قلندر کہنے کی وجہ اس کی بے باکی،بے دماغی اور رندانہ جرات ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے وہ بے نیازی سے ہر جانب اپنا پہلا قدم بے دھڑک طریقے سے بڑھا دیتا ہے۔

سوال نمبر04:اپنے حریفوں سے صلح کرنے کےلیے مصنف نے کیا تدبیریں کیں؟

اپنے حریفوں سے صلح کر نے کے لیے مصنف نے اول تو ان کے گھونسلے توڑنے یا ان کو بھگانے کا کام ترک کر دیا۔اس کے بعد مصنف نے اپنے کمرے میں ایک جانب دری پر ان کے لیے دانا ڈالنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس عمل میں قربت لانے کے لیے دانا برتن میں اور اپنے قریب تر رکھنے لگے۔

Advertisement

سوال نمبر05:”آدمی ہونے پر بھی آدمیوں کی طرح خطرناک نہیں ہے” اس جملے سے مصنف کی کیا مراد ہے؟

اس جملے سے مصنف نے انسانیت کے مختلف رویوں کی جانب اشارہ کیا ہے کہ بعض اوقات انسان نہ صرف جانوروں اور چرند پرند بلکہ انسان کے لیے بھی خطرناک ہوجاتا ہے۔ اور یہاں میں نے پرندوں کو اپنی محبت سے ایسے رام کر لیا ہے کہ وہ اس وقت انسانوں سے بھی نہیں ڈر رہے ہیں۔

Advertisement

Advertisement