بائیسکل کی تعلیم

0
  • سبق : بائسیکل کی تعلیم
  • مصنف : شوکت تھانوی
  • ماخوذ از : بحر تبسم

سوال ۵ : اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

تعارفِ سبق

سبق ”بائسیکل کی تعلیم“ کے مصنف کا نام ”شوکت تھانوی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”بحر تبسم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا۔ آپ کالم نویسی کرتے کرتے مزاح نگار بن گئے۔ آپ نے فلموں اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ صحافت سے دلچسپی کی بنا پر مشہور اخبار ہمدم ، ہمت اور سرپنچ سے وابستہ رہے اور سرپنچ نے ہی شوکت تھانوی کو مزاح نگار کی راہ پر ڈالا۔ ان کے مزاح میں بے تکلفی اور بے ساختگی ہے، وہ لفظوں اور محاوروں کی موزونیت سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ وہ فطرتاً ظریف ہیں، ان کے یہاں طنز کم اور مزاح زیادہ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ قاری غیر ضروری طور پر طنز کا شکار رہے۔

سبق کا خلاصہ

اسسبق میں مصنف نے بچپن کی یاد تحریر کی ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ اپنے ہم عمر دوستوں کو بائسیکل چلاتے دیکھ کر ان کو بھی بائیسکل کا شوق ہوا۔ گھر والوں سے بہت اصرار کیا اور بات یہ طے ہوئی کے پہلے چلانا سیکھ لو پھر لے دیں گے۔ مگر ہم بولے لے دو پھر سیکھ لیں گے۔
مصنف کے بقول دنیا میں لوگوں کے شوق بائسیکل کے ہوں یا خان بہادری کے ، جیل جانے کا ہو یا گول میز کانفرنس جانے کے یا کسی اعلی عہدے تک پہنچنے کے، انسان ان کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اور اس کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتا ہے۔

ایک دن کوئی مہمان اپنی بائسیکل پر سوار ان کے گھر آئے اور وہ دبے پاؤں ان کی بائسیکل لے کر نکل پڑے۔ اب چلانی تو آتی ہی نہ تھی اس لیے لگے گرنے پڑنے۔ پہلی بار بائسیکل ایک فریم سے ٹکرا کر گری۔ اپنی چوٹوں کو نظر انداز کیے وہ پھر سے سوار ہوئے اور اب کی بار بائسیکل گدھے سے ٹکرا گئی اور یوں جوں جوں وہ آگے بڑھتے جاتے، گرتے جاتے۔ پہلے دھوبن سے ٹکرائے اور پھر ایک بوڑھی عورت سے، دونوں سے معافی تلافی کے بعد آگے بڑھے تو ایک بزرگ سے ٹکرا کر گر پڑے۔ مگر اس بار بائسیکل کا ایک ہینڈل گھوم کر دوسری طرف ہوچکا تھا۔ اب وہ بائسیکل چلنے کے قابل نہ رہی اور وہ اپنی بائسیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر شرمندہ گھر واپس آگئے۔

اس سبق کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال : شوکت تھانوی کی مزاح نگاری کی خصوصی تحریر کیجیے۔

جواب : شوکت تھانوی کی مزاح نگاری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ محاورے اور روز مرہ استعمال ہونے والے جملوں کو بہت عمدگی سے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں کہیں کہیں قہقہے شامل ہوتے ہیں اور کہیں قاری صرف مسکرا کر رہ جاتا ہے۔ شوکت تھانوی میں فطرتاً ظرافت تھی ، اس لیے وہ مزاح بہت اچھے طریقے سے نبھا بھی لیتے تھے۔ آپ کے یہاں مزاح زیادہ اور طنز بہت کم پایا جاتا تھا، وہ بلاوجہ طنز کرنے کے حق میں نہیں تھے۔

سوال ۷ : مندجہ ذیل جملوں کے مفہوم کے وضاحت کیجیے :

(الف) اس وقت انسان ایک قسم کی مرفوع القلم مخلوق ہوتا ہے۔

حوالہ سبق : یہ اقتباس ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” بائسیکل کی تعلیم“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”شوکت تھانوی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”بحر تبسم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف دراصل یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جب انسان کے اندر کوئی خواہش جنم لیتی ہے تو اس وقت انسان اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر قیمت چکانے پر راضی ہوتا ہے۔ اس وقت انسان اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے دیوانہ ہوجاتا ہے اور جائز و ناجائز کا فرق بھول کر فقط اپنی خواہش کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔

(ب) ہماری مجنونانہ حالت سے تنگ آگئے تھے۔

حوالہ سبق : یہ اقتباس ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” بائسیکل کی تعلیم“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”شوکت تھانوی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”بحر تبسم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف اپنی اس حالت کا ذکر کررہے ہیں جب ان پر بائسیکل کا نیا نیا شوق سوار ہوا تھا، اور وہ دن رات اپنے گھر والوں کے سامنے نئی بائسیکل کا مطالبہ کررہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے گھر والے بھی ہماری دیوانوں والی حالت سے تنگ آگئے تھے۔

(ج) فطرت کو بہترین معلم جان کر ہم نے بائیسکل کی بسم اللہ کردی۔

حوالہ سبق : یہ اقتباس ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” بائسیکل کی تعلیم“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”شوکت تھانوی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”بحر تبسم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف اس واقعہ کا ذکر کررہے ہیں جب مصنف اپنے گھر آئے مہمان کی بائسیکل لے کر چلے جاتے ہیں۔ انھیں چونکہ بائسیکل چلانے کا کوئی تجربہ تو نہیں ہوتا سو وہ اللہ پر یقین رکھ کر بائسیکل چلانا شروع کردیتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ چلاتے چلاتے ہم بائسیکل چلانا سیکھ جائیں گے۔

سوال ۸ : دو دوستوں کی باہمی گفتگو مکالمے کی صورت میں تحریر کیجیے جن سے ایک بائیسکل کی سواری کا شدید مخالف ہے اور دوسرا بے حد شوقین۔

احمد : السلام علیکم کیسے ہو؟
علی : وعلیکم السلام ، الحمدللہ تم کیسے ہو؟
احمد : الحمدللہ، تم نے سائیکل خرید لی؟
علی : نہیں، کیوں؟
احمد : کیوں نہیں لی؟ جلدی لے لو ، میں نے تو خرید لی ہے پھر ہم دونوں ساتھ مل کر چلایا کریں گے۔
علی : نہیں میں نے تمھیں پہلے بھی بتایا تھا مجھے سائیکل چلانا پسند نہیں ہے، میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔
احمد : لیکن کیوں ، سائیکل چلانے میں بہت مزہ آتا ہے۔
علی : یقیناً آتا ہوگا مزہ لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ اگر ہم گر جائیں تو نہ صرف ہمیں چوٹ لگے گی بلکہ ہم کسی اور کا نقصان بھی کرسکتے ہیں اور پھر مجھے یہ ایک فضول خرچی لگتی ہے۔
احمد : لیکن اگر تم یہ سوچو کہ ہمیں نقصان ہوگا تو ہم روز ایسے بہت سے کام کرتے ہیں جن سے ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جیسے کہ چھری کا استعمال۔
علی : لیکن چھری کا استعمال ہماری ضرورت ہے، بائیسکل ہماری ضرورت نہیں ہے۔
احمد : جو بھی ہے مجھے تو بائیسکل چلانے کا بہت شوق ہے اور اب میں وہی شوق پورا کرنے جارہا ہوں۔
علی : ضرور جاؤ، پھر ملاقات ہوگی۔