مواصلات کے جدید ذرائع

0

تعارفِ سبق : سبق ”مواصلات کے جدید ذرائع“ کے مصنف کا نام ”ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن“ ہے۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف مواصلات کے جذید ذرائع سے ہمیں آگاہ کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں ایک دوسرے کو خط قاصد کے ذریعے بھیجے جاتے تھے۔ ابتدائی مسلمان حکمرانوں نے پیغام رسانی کے لیے دیوان البرید کے نام سے جداگانہ محکمہ قائم کیا تھا۔

مصنف بتاتے ہیں کہ پہلے زمانے میں کبوتروں سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا۔ مسلمان حکمرانوں کو اس ضمن میں سبقت حاصل تھی۔
خط کبوتر کی گردن یا بازو سے باندھ دیا جاتا تھا اور وہ اس خط کو منزل مقصود تک پہنچادیتا تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اس نظام کو پورے بلادِ اسلامیہ میں پھیلایا۔ جہانگیر نے باقاعدہ اس مقصد کے لیے کبوتر پال رکھے تھے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ ریڈیو کی ایجاد میں مارکونی نے وائرلیس بنانے میں ۱۸۹۵ء میں کامیابی حاصل کی۔ اس وائرلیس کی ایجاد اس اصول کے تحت ہوئی کہ ریڈیائی لہریں فضا میں موجود ہوتی ہیں۔ ان میں آواز ارتعاش پیدا کرتی ہے تو یہ ریڈیائی لہریں اس دور تک پہنچادیتی ہیں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ وائرلیس کا استعال پہلے پہلے بحری جہازوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ریڈیو کی ایجاد سے طیاروں کو یہ فائدہ پہنچا کہ طیارے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ریڈیائی لہریں پیدا کرتے ہیں۔ اس سے ان کی منزل مقصود تک ایک ہوائی سڑک بن جاتی ہے۔ یہ سب ریڈیو کی ایجاد کی وجہ سے ممکن ہوا۔

مصنف بتاتے ہیں کہ ٹیلی وژن اس اصول کے تحت کام کرتا ہے کہ یہ بالکل ریڈیو کے اصول پر کام کرتا ہے البتہ اس میں تصویریں بھی صوتی اشاروں کی طرح لہروں کی شکل میں تبدیل کر کے فضا میں بکھیری جاتی ہیں۔ مصنف کمپیوٹر کے بارے میں تفصیل لکھتے ہیں لہ کمپیوٹر سے پوچھا جانے والا سوال ان پٹ میں ڈالا جاتا ہے جہاں یہ بجلی کی لہروں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کمپیوٹر کے پروسینگ یونٹ میں میموری میں جاتا ہے۔ وہ اسے حسابی یونٹ میں بھیجتی ہے اور جواب تیار ہوکر آؤٹ پٹ پر نمودار ہوجاتا ہے۔

مصنف ٹیلی فیکس کے متعلق بتاتے ہیں کہ ٹیلی فیکس مواصلات کا وہ نظام ہے جو تحریر کی فوٹو کاپی وصول کنندہ کو چند منٹوں میں پہنچادیتا ہے۔ بھجنے والا اپنی مشین میں خط یا متعلقہ تحریر کو مشین میں ڈال کر پانے والے کی مشین کا نمبر ملاتا ہے۔ الفاظ پہلے روشنی اور پھر برقی لہروں میں تبدیل ہو کر فضا میں بکھرتے ہیں اور ریڈیائی لہروں کے ذریعے سگنلز میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور دوسری مشین میں پہنچ جاتے ہیں۔ دوسری مشین کا ایمپلی فائر اور سنسر ان الفاظ کو ایک خاص قسم کے سادہ کاغذ پر اتار دیتے ہیں اور فوٹو کاپی کا کاغذ آہستہ آہستہ مشین سے باہر آجاتا ہے۔

سوال نمبر ۱ : مندرجہ ذیل سوالوں کے مختصر جواب دیجیے۔

الف : قدیم زمانے میں ایک دوسرے کو خط کیسے بھیجے جاتے تھے؟

جواب : قدیم زمانے میں ایک دوسرے کو خط قاصد کے ذریعے بھیجے جاتے تھے۔

ب : ابتدائی مسلمان حکمرانوں نے پیغام رسانی کے لیے کون سا جداگانہ محکمہ قائم کیا تھا؟

جواب : ابتدائی مسلمان حکمرانوں نے پیغام رسانی کے لیے دیوان البرید کے نام سے جداگانہ محکمہ قائم کیا تھا۔

ج : کبوتروں سے پیغام رسانی کا کام کیسے لیا جاتا تھا؟ مسلمان حکمرانوں کو اس ضمن میں کیا سبقت حاصل ہے؟

جواب : خط کبوتر کی گردن یا بازو سے باندھ دیا جاتا تھا اور وہ اس خط کو منزل مقصود تک پہنچادیتا تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اس نظام کو پورے بلادِ اسلامیہ میں پھیلایا۔ جہانگیر نے باقاعدہ اس مقصد کے لیے کبوتر پال رکھے تھے۔

د : ریڈیو کی ایجاد میں مارکونی نے کیا کارنامہ سرانجام دیا؟

جواب : اس نے وائرلیس بنانے میں ۱۸۹۵ء میں کامیابی حاصل کی۔

ہ : وائرلیس کی ایجاد کس اصول کے تحت ہوئی؟

جواب : یہ کہ ریڈیائی لہریں فضا میں موجود ہوتی ہیں۔ ان میں آواز ارتعاش پیدا کرتی ہے تو یہ ریڈیائی لہریں اس دور تک پہنچادیتی ہیں۔

و : وائرلیس کا استعمال پہلے پہلے کن لوگوں نے کیا؟

جواب : وائرلیس کا استعال پہلے پہلے بحری جہازوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا۔

ز : ریڈیو کی ایجاد سے طیاروں کو کیا فائدہ پہنچا؟

جواب : طیارے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ریڈیائی لہریں پیدا کرتے ہیں۔ اس سے ان کی منزل مقصود تک ایک ہوائی سڑک بن جاتی ہے۔ یہ سب ریڈیو کی ایجاد کی وجہ سے ممکن ہوا۔

ح : ٹیلی وژن کس اصول کے تحت کام کرتا ہے؟

جواب : یہ بالکل ریڈیو کے اصول پر کام کرتا ہے البتہ اس میں تصویریں بھی صوتی اشاروں کی طرح لہروں کی شکل میں تبدیل کر کے فضا میں بکھیری جاتی ہیں۔

ط : ٹیلی وژن کا کیمرہ مووی کیمرے سے کس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے؟

جواب : ٹیلی وژن کے کیمرے میں ریل یا ٹیپ نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا کام صرف تصویروں کو برقی لہروں میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

ی : ٹیلی فون کو ریڈیو اور ٹیلی وژن پر کس لحاظ سے سبقت حاصل ہے؟

جواب : ٹیلی فون کو ریڈیو اور ٹیلی وژن پر اس لحاظ سے سبقت حاصل ہے کہ ایک تو اس کے ذریعے پیغام رسانی دوطرفہ ہوسکتی ہے اور دوسرا یہ نجی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔

ک : موبائل فون کس اصول کے تحت کام کرتا ہے؟

جواب : یہ کارڈ لیس کی ترقی یافتہ شکل ہے اور یہ ٹیلی فون اور وائرلیس کا امتزاج ہے۔

ل : کمپیوٹر کس اصول پر کام کرتا ہے؟

جواب : کمپیوٹر سے پوچھا جانے والا سوال ان پٹ میں ڈالا جا تا ہے جہاں یہ بجلی کی لہروں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کمپیوٹر کے پروسینگ یونٹ میں میموری میں جاتا ہے۔ وہ اسے حسابی یونٹ میں بھیجتی ہے اور جواب تیار ہوکر آؤٹ پٹ پر نمودار ہوجاتا ہے۔

م : ٹیلی فکس کسے کہتے ہیں؟ اس کے ذریعے خط بھیجنے کا طریقہ بیان کیجیے۔

جواب : ٹیلی فیکس مواصلات کا وہ نظام ہے جو تحریر کی فوٹو کاپی وصول کنندہ کو چند منٹوں میں پہنچادیتا ہے۔ بھجنے والا اپنی مشین میں خط یا متعلقہ تحریر کو مشین میں ڈال کر پانے والے کی مشین کا نمبر ملاتا ہے۔ الفاظ پہلے روشنی اور پھر برقی لہروں میں تبدیل ہو کر فضا میں بکھرتے ہیں اور ریڈیائی لہروں کے ذریعے سگنلز میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور دوسری مشین میں پہنچ جاتے ہیں۔ دوسری مشین کا ایمپلی فائر اور سنسر ان الفاظ کو ایک خاص قسم کے سادہ کاغذ پر اتار دیتے ہیں اور فوٹو کاپی کا کاغذ آہستہ آہستہ مشین سے باہر آجاتا ہے۔

سوال نمبر ۲ : مندرجہ ذیل میں سے مناسب الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے خالی جگہیں پر کیجیے۔

ایمپلی فائر ، جان ہیرڈ ، بحری جہازوں ، دیوان البرید ، ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ( تین لاکھ کلومیٹر)

۱) اس کے لیے ایک جداگانہ محکمہ قائم کر دیا تھا جو دیوان البرید کہلاتا تھا۔
۲) ریڈیائی لہروں کے سفر کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔
۳) ایمپلی فائر آواز کی لہروں کو طاقت ور بنادیتا ہے۔
۴) وائرلیس کو سب سے پہلے بحری جہازوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا۔
۵) ٹیلی ویژن جان ہیرڈ نے ایجاد کیا۔

سوال نمبر ۳ : اس سبق میں جن جن سائنس دانوں (موجدوں کا نام آیا ہے ان کی ایک فہرست مرتب کیجیے۔

فنلے مورس ( ٹیلی گراف)
مارکونی ( وائرلیس، ریڈیو)
فلیمنگ (وائرلیس کاوالو )
ہرز [اس میں ”ٹ“ نہیں پڑھی جاتی] (ریڈیائی لہریں)
بارڈین اور برٹین( ٹرانسمیٹر )
جان ہئیرڈ (ٹی وی) ۔
میکسول ( مارکونی کو نظریہ دیا جس پر اس نے وائرلیس دریافت کیا)

سوال نمبر ۴ : درج ذیل جملوں کو رموز اوقاف کی علامتوں کا درست استعمال کر کے دوبارہ لکھیے۔

الف : دن ہو کہ رات سفر ہو کہ حضر خلوت ہو کہ جلوت انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کو نہ بھولے

دن ہو کہ رات ، سفر ہو کہ حضر، خلوت ہو کہ جلوت ، انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کو نہ بھولے۔

ب : قائداعظم کا فرمان اتحاد تنظیم اور یقین محکم ہمارے لیے آج بھی مشعل راہ ہے

قائداعظم کا فرمان، اتحاد تنظیم اور یقین محکم ہمارے لیے آج بھی مشعل راہ ہے۔

ج : باپ نے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوۓ کہا بیٹا محنت کرو محنت کا پھل ضرور ملے گا

باپ نے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوۓ کہا : ”بیٹا محنت کرو ، محنت کا پھل ضرور ملے گا“۔