• کتاب” ابتدائی اردو” برائے چوتھی جماعت
  • سبق نمبر06: حکایتیں
  • سبق کا نام: حکایتیں( ترجمہ)

خلاصہ سبق: حکایتیں( ترجمہ)

اس سبق میں شیخ سعدی کی حکایات کا ترجمہ بیان کیا گیا ہے۔ پہلی حکایت ایک ایسے شخص کی ہے جس نے کبھی ناشکری یا شکایت نہ کی تھی۔ ایک بار وہ ننگے پاؤں تھا اور جوتا نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایسے ہی سونا پڑا۔اسی غم میں جب وہ کوفے کی مسجد میں داخل ہوا توایک آدمی کو دیکھا کہ جس کے پاؤں ہی نہ تھے۔

اس شخص نے جب اسس شخص کو دیکھا کہ جس کے پاؤں ہی ںہیں تھے تو اس نے اپنے پاس جوتا نہ ہونے پر صبر کیا۔اس حکایت کے ذریعے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور حکایت جس میں آرام کی قدر و قیمت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک بادشاہ اپنے غلام کے ساتھ کشتی میں سفر کررہا تھا۔غلام نے کبھی کشتی کا سفر نہیں کیا تھا اس لیے اس نے ڈر کے مارے رونا دھونا شروع کر دیا۔جس سے بادشاہ کو تکلیف ہوئی اور وہ اسے چپ کرانے کی تدبیر سوچنے لگے۔

اس کشتی میں ایک دانا تھا۔اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ حکم دیں تو وہ اسے چپ کرا دے گا۔بادشاہ کی اجازت پر کشتی میں موجود دانا کے اشاروں سے ملازموں نے اس غلام کو دریا میں پھینک دیا۔ جب وہ ڈوبنے لگا تو اسے بالوں سے پکڑ کر کشتی کی طرف لے آئے اس نے کشتی کو پکڑ لیا اور اس کے پچھلے حصے میں دبک کر خاموشی سے بیٹھ گیا۔بادشاہ نے حکمت پوچھی تو دانا نے بتایا کہ اس نے کبھی ڈوبنے کی تکلیف نہیں اٹھائی اس لیے یہ کشتی کے آرام سے ناواقف تھا۔

یعنی آرام کی قدر وہی جانتا ہے جس نے تکلیف جھیلی ہو۔تیسری حکایت ایک عالم اور ملا ح کی ہے ۔عالم ملاح کی کشتی میں سوار تھا۔ اس نے ملاح سے پوچھا اے ملاح! کیا تو گرامر جانتا ہے؟ملاح نے جب کہا کہ وہ گرامر نہیں جانتا تو عالم اسے کہنے لگا کہ افسوس تمھاری آدھی عمر برباد ہوگئی۔ یہ سن کر ملاح کو دکھ بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔تھوڑی دیر بعد کشتی بھنور میں پھنس گئی ملاح نے عالم سے پوچھا آپ کو تیرنا آتا ہے۔ عالم۔کے نہیں میں جواب پر ملاح کہنے لگا کہ افسوس آپ کی تو ساری عمر برباد ہے کہ کشتی اب ڈوبنے والی ہے۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے۔

کوفے کی مسجد میں جب وہ شخص گیا تو اس نے کیا دیکھا؟

کوفے کی مسجد میں اس شخص نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جس کے پاؤں ہی نہ تھے۔

اس شخص نے اپنے پاس جوتا نہ ہونے پر کیوں صبر کیا؟

اس شخص نے جب اسس شخص کو دیکھا کہ جس کے پاؤں ہی ںہیں تھے تو اس نے اپنے پاس جوتا نہ ہونے پر صبر کیا۔

غلام کیوں رونے دھونے لگا ؟

غلام نے کبھی کشتی کا سفر نہیں کیا تھا اس لیے اس نے ڈر کے مارے رونا دھونا شروع کر دیا۔

کشتی پر بیٹھے دانا نے غلام کو کیسے چپ کرایا؟

کشتی میں موجود دانا کے اشاروں سے ملازموں نے اس غلام کو دریا میں پھینک دیا۔ جب وہ ڈوبنے لگا تو اسے بالوں سے پکڑ کر کشتی کی طرف لے آئے اس نے کشتی کو پکڑ لیا اور اس کے پچھلے حصے میں دبک کر خاموشی سے بیٹھ گیا۔

عالم نے ملاح سے کیا پوچھا؟

عالم نے ملاح سے پوچھا اے ملاح! کیا تو گرامر جانتا ہے؟

ملاح کو عالم کی کس بات سے دُکھ ہوا اور غصہ بھی آیا؟

ملاح نے جب کہا کہ وہ گرامر نہیں جانتا تو عالم اسے کہنے لگا کہ افسوس تمھاری آدھی عمر برباد ہوگئی۔ یہ سن کر ملاح کو دکھ بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔

خالی جگہوں کو صحیح لفظوں سے پر کیجیے:

  • میں نے خدا کی نعمت کاشکر ادا کیا۔
  • ڈر کے مارے اس نے رونا دھونا شروع کر دیا۔
  • اسی غم میں میں کوفہ کی مسجد میں داخل ہوا۔
  • غلام نے اس سے پہلے کبھی دریا نہ دیکھا تھا۔
  • عالم نے کہا ” افسوس ، تیری آدھی عمر برباد ہوئی۔
  • تیز ہوا کے جھکڑ سے کشتی بھنور میں پھنس گئی۔

ان لفظوں سے جملے بنائیے۔

مسجدمسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔
صبرروضہ ہمیں صبر سکھاتا ہے۔
زنجیرشیر کو زنجیر سے جکڑ کر لایا گیا۔
انعامعلی کو جماعت میں اول آنے کا انعام ملا۔
کشتیکشتی بھنور میں پھنس گئی۔
جوتامیرا جوتا پرانا ہے۔
آسمانآسمان کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔

اس سبق سے متضاد الفاظ، چن کر صحیح خانوں میں لکھیے :

آدھیساری
تیرناڈوبنا
آرامتکلیف
بادشاہغلام

ہر تصویر کے آگے اس شخص کا کہا ہوا ایک جملہ لکھیے :

دانا: اس نے بادشاہ سے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو اسے چپ کروادوں۔
بادشاہ: بادشاہ نے پوچھا کہ اس میں کیا حکمت تھی؟
عالم:اے ملاح کیا تو گرامر جانتا ہے؟
ملاح: کیوں صاحب! آپ کو تیر نا بھی آتا ہے؟

نیچے لکھے ہوۓ لفظوں کے جملے لکھیے۔

سختیہمیں بچوں کے ساتھ سختی سے نہیں پیش آنا چاہیے۔
آدھیآدھی روٹی کھا کر احمد کا پیٹ بھر گیا۔
بربادافسوس تم نے اپنی آدھی زندگی برباد کر دی۔
دکھملاح کو عالم کی بات سن کر بہت دکھ ہوا۔
بادشاہبادشاہ نے پوچھا کہ اس میں کیا حکمت تھی؟
تکلیفہمیں اپنے بڑوں کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔
دانادانا آدمی نے کشتی میں موجود غلام کو چپ کرایا۔
پسندمجھے آپ کا گھر بہت پسند آیا۔

نیچے لکھے ہوۓ جملے کس نے کس سے کہے؟

اے ملاح کیا تو گرامر جانتا ہے؟

عالم نے ملاح سے پوچھا۔

کیوں صاحب! آپ کو تیر نا بھی آتا ہے؟

ملاح نے عالم سے کہا۔

اس نے بادشاہ سے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو اسے چپ کروادوں۔

دانا آدمی نے بادشاہ سے کہا۔

بادشاہ نے پوچھا کہ اس میں کیا حکمت تھی؟

بادشاہ نے دانا آدمی سے پوچھا۔

ان تصویروں پر دودو جملے لکھیے۔

مسجد: مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔
مسجد کو ہم اللہ کا گھر بھی کہتے ہیں۔ جہاں پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہے۔
کشتی: کشتی پانیوں میں چپو کی مدد سے چلائی جاتی ہے۔
کشتی کو بطور سواری سمندر یا دریا کے سفر میں استعمال کیا جاتا ہے۔
جوتا: جوتا پاؤں میں پہنا جاتا ہے۔
جوتے کے لیے پاپوش کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

بلند آواز سے پڑھیے اور خوش خط لکھیے :

قسمت ، شکایت ، داخل، غلام ، کشتی۔