نظم شکرگزاری کی تشریح، سوالات و جوابات

0

یہ نظم ہماری درس کتاب سے ماخوذ ہے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اللہ کے دیے پر خوش رہنا اور اللہ کی تعریف مسلسل کرتے رہنے کو شکرگزاری کہتے ہیں۔ یہ نظم بند کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ شاعر اس نظم کے پہلے اور دوسرے بند میں شجر اور پانی کی مثال دے کر ہمیں شکر گزاری کا طریقہ سمجھا تا ہے اور پھر آنے والے بندوں میں وہ ایک شکرگزار انسان کی صفات بیان کرتا ہے۔

تعارف ِ شاعر

صفی لکھنوی 2 جنوری 1862 کو لکھنؤ شہر میں سید علی نقی زیدی کے نام سے پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر تھے۔ ان کے والد سید فضل حسین کو اودھ کے نواب امجد علی کے بیٹے شہزادہ سلیمان قادر بہادر کا اطالق (ٹیوٹر) مقرر کیا گیا تھا۔

انہوں نے لکھنؤ میں کیننگ کالجیٹ سے تعلیم حاصل کی اور حکومت کے محکمہ محصولات میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 13 سال کی عمر میں شعر لکھنا شروع کیا۔ ان کی نمایاں ادبی تصانیف میں آغوشِ مدار، تنظم الحیات اور دیوانِ صفی شامل ہیں۔ ان کی شاعری کا فن گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ اردو پروگراموں میں پڑھایا جاتا ہے۔ ان کا انتقال 1950 میں ہوا۔

نظم شکرگزاری کی تشریح

شاخیں جس طرح شجر کی
کرتی ہے جڑوں سے جذب پانی
ہوکر تروتازہ پھر جو دیکھو
واپس کر دیتی ہے اس کو

شاعر اس بند میں درخت کو شکر گزاری کی مثال بنا کر فرماتے ہیں کہ درخت کی شاخیں جو جڑوں کی مدد سے پانی حاصل کرکے تروتازہ ہوتی ہیں پھر ٹرانسپوٹیشن کی شکل میں اس پانی کو واپس کر دیتی ہیں۔

یا جیسے سمندروں کا پانی
بن بن کے سحاب آسمانی
برستے ہیں بے شمار قطرے
پانی پھر وہیں دیکھو سمٹ کے
دریاؤں کے راستے مکرر
گرتا ہے سمندروں کے اندر

نظم کے دوسرے بند میں شاعر سمندروں کو شکر گزاری کی مثال بناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سمندر کا پانی جو باب بن کر آسمان میں جاتا ہے اور پھر وہی سمٹ کے بادل اور بارش کی صورت میں برستا ہے پھر مقررہ راستوں سے دریا کی شکل میں سمندر تک پہنچ جاتا ہے۔

دل شکر گزار آرمی کا
اس کا بھی یہی ہیں ٹھیک نقشہ
محسن سے جو جو نفع ہے اٹھاتا
یعنی جو کچھ ہے فیض پاتا

شاعر اس بند میں فرماتے ہیں کہ شکر گزار انسان کے دل کی مثال بھی درختوں اور سمندروں کی سی ہے جو محسن یعنی اللہ تعالی سے نفع اٹھاتا ہے اور اس کے فائدوں کے بدلے شکر گزاری کرتا ہے۔ گویا شکرگزاری سے اس نے اللہ کا دیا ہوا اسے لوٹا دیا ہو۔ اور اللہ پھر سے شکر گزار انسان کو نعمتیں عطا کرتا ہے۔

ہے اس کا یہ اعتراف پیہم
کرتا رہتا ہے شادو و حرم
احسان کے معاوضے پر ہی
رہتی ہے نگاہ اس کی یکسر

شاعر شکر گزار انسان کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ شکر گزار انسان ہمیشہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کرتا اور شکر مناتا ہے اور اس کی نظر ہمیشہ سے اللہ کے کیے ہوئے احسانوں پر رہتی ہے۔

محسن کو جو فائدے ہوں حاصل
خوش ہوتا ہے اس کا با وفا دل
خندہ روئی کے ساتھ ہر آن
کرتا ہے قبول اس کے احسان
محسن سے اپنے اک عقیدت
اس کے دل میں نظر میں عزت

اس بند میں شاعر فرماتے ہیں کہ شکر گزار انسان کا وفادار دل اللہ کے دیے ہوئے فائدوں پر خوش ہوتا ہے اور ہر وقت خندہ روئی یعنی خوش مزاجی کے ساتھ اللہ کا ہر احسان قبول کرتا ہے اور وہ اپنے دل میں اپنے اللہ کا عقیدہ لیے ہوئے ہمیشہ دل سے اور نظر سے اس کی عزت کرتا ہے۔

حد امکاں سے ہے جو باہر
احسان کا معاوضہ تو اکثر
رہتا ہے ادائے شکر سے یاد
رکھتا ہے مہربانیاں یاد
دل سے کرتا نہیں فراموش
احسان محسن کا اپنے حق گوش۔

شاعر فرماتے ہیں کہ اللہ کے کیے ہوئے احسانوں کا معاوضہ دینا حد امکاں سے باہرہے یعنی ہمارے بس کی بات نہیں ہے مگر شکرگزار انسان ہمیشہ شکر گزاری میں رہتا ہے، اللہ کی مہربانیوں کو یاد رکھتا ہےاور دل سے کبھی بھی اس کے احسانوں کو نہیں بلاتا ہے۔

سوالات

سوال: بادل سمندر کا احسان کس طرح چکاتے ہیں؟

ج: جب سمندر کا پانی بھاب بن کر آسماں میں چلا جاتا ہے تو بادل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر وہی بارش بن کر دریاؤں کے ذریعے سمندر میں پہنچ جاتا ہے اور اس طرح بادل سمندر کا احسان چکاتے ہیں۔

سوال: شکر گزار آدمی اگر احسان کا بدلہ نہیں چکاتا ہے کم از کم اپنے محسن کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہے؟

ج: شکر گزار آدمی اپنے محسن کا اگر بدلہ نہیں چکاتا ہے لیکن کم از کم اپنے محسن کے احسان اور مہربانیوں کو یاد رکھتا ہے اور ہمیشہ اس کا شکر ادا کرتا رہتا ہے۔

نثر میں لکھیے۔

کرتی ہے جڑوں سے جذب پانی : جڑوں سے پانی جذب کرتی ہے۔
واپس کر دیتی ہیں اس کو : اس کو واپس کر دیتی ہے
برساتے ہیں بے شمار قطرے : بے شمار کترے برساتے ہیں۔
گرتا ہے سمندروں کے اندر : سمندروں کے اندر گرتا ہے۔
کرتا ہے قبول اس کے احسان: اس کے حسن کو قبول کرتا ہے

سمجھیے اور لکھیے۔

اس نظم کا خلاصہ اپنی زبان میں لکھیے۔

شاعر درختوں کی جڑوں کے زمین سے پانی جذب کرنے اور تروتازہ ہو کر چھوڑنے کی مثال دیتے ہوئے اور پھر واٹرسائیکل کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انسان بھی اسی طرح اپنے محسن کا شکر ادا کرتا ہے۔ اسے اپنے محسن سے جو فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا اعتراف کرتا رہتا ہے اور اس کے احسانات کو دل سے یاد رکھتا ہے۔ انسان کا عقیدہ ہے کہ خدا ہی میرا محسن ہے وہ خدا کے احسانات کا بدلہ چکا تو نہیں سکتا مگر اللہ کی مہربانیاں اور اس کے احسانات کو یاد رکھتا ہے۔

اس نظم میں شاعر نے پن چکر (واٹرسائیکل ) کا ذکر کیا ہے اس کی وضاحت کیجئے۔

ج: سمندر کا پانی سورج کی گرمی سے بھاب بن کر آسماں میں چلا جاتا ہے اور بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ درجہ حرارت کی کمی کی وجہ سے پانی کے قطروں میں تبدیل ہوجاتا ہے اور زمین پر گرتا ہے۔‌

پینے کے پانی کی مقدار روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے، اس کی ذمہ دار وجوہات قلمبند کیجیے۔

ج: پینے کے پانی کی مقدار اس لئے کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ زیادہ پانی گندگی کی وجہ سے خراب ہوتا جا رہا ہے۔ صنعتی آلودگی کی وجہ سے ہمارے ملک کے اکثر دریا بہت خراب حالت میں ہیں۔ مثلا دریا جمنا کے دلی میں داخلہ کے بعد اس کے پانی میں 170 کروڑ لیٹر گندا پانی ہر روز شامل کر دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ تقریبا 93 ہزار صنعتوں کا فضلہ بھی ہر روز دریائے جمنا میں داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ جمنا کی آبی آلودگی بڑھ رہی ہے بڑے شہروں میں صورتحال زیادہ خراب ہے اس کے علاوہ صنعتیں طے شدہ معیار سے زیادہ تر آلودگی پانی میں خارج کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پینے کے پانی کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے۔