نعت از صہبا اختر تشریح، سوالات و جوابات

0
  • نظم “نعت” از ” صہبا اختر

اشعار کی تشریح:

یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو
کسی کے لال ہو تو آمنہ کے لال کو دیکھو

یہ شعر نعتیہ شعر ہے جس میں حضرت محمد صلی وعلیہ وسلم کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ اس شعر میں شاعر آپ صلی وعلیہ وسلم کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ صلی وعلیہ وسلم کی ذات وہ ذات ہے جس نے یتیمی کا درد سہا مگر اس بلند ترین شخصیت کو تو دیکھو یہ کس کے بیٹے ہیں یہ تو حضرت آمنہ علیہ السلام کے بیٹے ہیں اگر کسی کے بیٹے کو دیکھنا ہو تو آمنہ کے لال ہی کو دیکھو۔

امین ہو تو عرب کے اس امانت دار کو دیکھو
جو صادق ہو تو اس مردِ صداقت کار کو دیکھو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگر کسی امانت دار کو دیکھنا ہو تو عرب کے امانت داروں میں آپ کی شخصیت دیکھو جو پورے عرب میں صادق اور امین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ کسی کی صداقت دیکھنی ہو تو آپ صلی وعلیہ وسلم کی صداقت دیکھی جائے۔

مفکر ہو تو اس کی فکر کے عنوان کو دیکھو
حرا کی خامشی میں آمدِ قرآن کو دیکھو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگر کسی مفکر کو دیکھنا ہو تو بطور مفکرین کی فکر جہاں سے جنم لیتی ہے اس عنوان کو دیکھو یعنی آپ صلی وعلیہ وسلم کی ذات کو دیکھو۔ غارِ حرا کی خاموشی میں قرآن کی آمد کو دیکھو۔

اگر مظلوم ہو تو اہلِ طائف پر عطا دیکھو
جبیں پر زخم کھا کر بھی لبوں پر وہ دعا دیکھو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگر تم مظلوم ہو تو اہلِ طائف کو دیکھو جن پر آپ صلی وعلیہ وسلم نے عنایت کی تھی یعنی چہرے پر زخم کھا کر بھی انھوں نے طائف کے لوگوں کو دعا سے نوازا اور ان کے لیے ہر گز بھی برے کلمات اپنی زبان تک نہ لائے۔

ذرا اس فاتحِ عالم کا انداز ظفر دیکھو
وہ سارے دشمنوں پر ایک رحمت کی نظر دیکھو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا پر حکومت کرنے والے دنیا کو فتح کرنے والے کا انداز دیکھو کہ جس نے اپنے سارے دشمنوں پر محض رحمت اور کرم کی ہی نظر کی۔

اسے جس طور سے چاہو اسے جس ڈھنگ میں دیکھو
وہ اک انسان ِکامل ہے اسے جس رنگ میں دیکھو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی وعلیہ وسلم کی ذات مبارک کو ان کی ذات کے جس بھی زاویے سے دیکھو کلگے تو ان کی ذات میں کہیں کوئی کمی نہیں دکھائی دے گی وہ ہمیشہ سے ایک مکمل انسان تھے ان کو جس بھی رنگ سے دیکھو گے کامل ہی پاؤ گے کہ وہ تمام انسانیت کے لیے ایک عملی نمونہ ہیں۔

  • مشق:

دیے گئے سوالات کے جواب لکھیں۔

فتح مکہ کے موقعے پر آپ صل و علیہ وسلم نے دشمنوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ؟

آپ صلی وعلیہ وسلم نے اپنے تمام دشمنوں کو فتح کے موقع پر معاف فرما دیا۔

شاعر نے نعت میں مفکر کو کیا مشورہ دیا ہے؟

شاعر نے نعت میں مفکر کو مشورہ دیا کہ اگر تم مفکر ہو تو اپنی فکر کے عنوان کو دیکھو یہ عنوان رسول صلی وعلیہ وسلم کی ذات ہے۔

ا میں ہو تو ، عرب کے اُس امانت دار کو دیکھو ” مصرعے کی وضاحت کریں۔

امین ہو تو عرب کے امانت دار کو دیکھنے سے مراد ہے کہ آپ صل و علیہ وسلم کی مبارک ذات جو پورے عرب میں صادق و امین کے نام سے مشہور ہے۔

آمد قرآن” سے کیا مراد ہے؟

آمدِ قرآن سے مراد ہے آپ صلی وعلیہ وسلم پر وحی کا نزول جو کہ غارِ حرا میں ہوا۔

نعت کا مرکزی خیال لکھیں۔

اس نعت میں آپ صلی وعلیہ وسلم کے کردار کی عظمت و صداقت کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ کو تمام جہانوں کے کیے رحمت بنا جر بھیجا گیا۔

نعت کے مطابق درج ذیل مصرعے مکمل کریں۔

  • یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو
  • مفکر ہو تو اس کی فکر کے عنوان کو دیکھو
  • حرا کی خامشی میں آمدِ قرآن کو دیکھو
  • اگر مظلوم ہو تو اہلِ طائف پر عطا دیکھو
  • ذرا اس فاتحِ عالم کا انداز ظفر دیکھو

زبان سیکھیے:

  • فعل معروف: ایسا فعل جس کا فاعل معلوم ہو فعل معروف کہلاتا ہے۔ مثلاً مریم نے خط لکھا۔ جواد نے کہانی سنی ۔ ان جملوں میں “مریم” اور “جواد” فاعل ہیں۔ “خط ” اور” کہانی ” مفعول ہیں۔
  • فعل مجہول:ایسا فعل جس کا فاعل معلوم نہ ہو فعل مجہول کہلاتا ہے۔ مثلاً خط لکھا گیا۔ کہانی سنی گئی۔ کھانا کھایا گیا۔ ان جملوں میں مفعول نے فاعل کی جگہ لے لی ہے۔

دو دو جملے لکھ کر فعل معروف اور فعل مجہول میں فرق واضح کریں۔

فعل معروف احمد نے کہانی سنائی ، لائبہ نے کھانا کھایا۔
فعل مجہول پانی پیا گیا ، کتاب پڑھی گئی ، گانا سنا گیا۔

سوچیے اور لکھیے:

اس نعت کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔

اس نعت میں شاعر نے آپ صلی وعلیہ وسلم کی ذات کی عظمت کو بیان کیا ہے کہ آپ صلی وعلیہ وسلم کی ذات وہ ذات ہے جس نے یتیمی کا درد سہا مگر اس بلند ترین شخصیت کو تو دیکھو یہ کس کے بیٹے ہیں یہ تو حضرت آمنہ علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ کسی امانت دار کو دیکھنا ہو تو عرب کے امانت داروں میں آپ کی شخصیت دیکھو جو پورے عرب میں صادق اور امین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔اگر تم مفکر ہو تو اپنی فکر کے عنوان کو دیکھو یہ عنوان رسول صلی وعلیہ وسلم کی ذات ہے۔اگر تم مظلوم ہو تو اہلِ طائف کو دیکھو جن پر آپ صلی وعلیہ وسلم نے عنایت کی تھی یعنی چہرے پر زخم کھا کر بھی انھوں نے طائف کے لوگوں کو دعا سے نوازا آخر میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی وعلیہ وسلم کی ذات مبارک کو ان کی ذات کے جس بھی زاویے سے دیکھو کلگے تو ان کی ذات میں کہیں کوئی کمی نہیں دکھائی دے گی وہ ہمیشہ سے ایک مکمل انسان تھے ان کو جس بھی رنگ سے دیکھو گے کامل ہی پاؤ گے کہ وہ تمام انسانیت کے لیے ایک عملی نمونہ ہیں۔

ہمارے نبی حضرت محمدرسول اللہ صل و علیہ وسلم” کے عنوان پر تین سو الفاظ پر مشتمل مضمون لکھیں جس میں نبی کریم کے اوصاف و کمالات،عفو و درگزرا اور محتاجوں، مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر ہو۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاء اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔

عربی زبان میں لفظ “محمد” کے معنی ہیں ‘جس کی تعریف کی گئی‘۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔

یہاں پر ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔بلند اخلاق کی ایسی جیتی جاگتی، دائمی اور عالم گیر مثال کیا کوئی پیش کرسکتا ہے یا دنیا نے اپنے معرض وجود کے دن سے اب تک ایسی نظیر دیکھی ہے؟ ہرگز نہیں! یہ فضل خاص ہے جو اللہ رب العزت نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو عطا کیاتھا رسالت محمدی صلى اللہ عليہ وسلم کی بنیادی ذمہ داری قرآن کی تلاوت اوراس کی تعلیم تھی اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کا عملی نمونہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ قرآن کو راہِ راست کی ضمانت قرار دیتا ہے

”بیشک یہ قرآن سیدھے راستے پر گامزن کرتا ہے“ (سورہ بنی اسرائیل) اور دوسری طرف آنحضور صلى اللہ عليہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو نمونہٴ زندگی بنالینے کی تلقین کرتا ہے کہ تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے مگر اس شخص کے لئے جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اور کثرت سے ذکر خدا کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس قرآن کی تعلیم فرماتے اپنی عملی زندگی میں اس کو قابل تقلید بناکر پیش کرتے قرآن کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی سیرت مبارکہ ہے پیغمبر اسلام کی سیرت واخلاق کی عظمت کے آگے بڑے بڑے حکماء اور معلّمین سرنگوں نظر آتے ہیں اور ان کے قول وعمل کی صداقت سے سند حاصل کیے بغیر دنیا کا کوئی انسان اخلاق کے اعتبار سے بڑا نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مثالی نمونہ بناکر دنیا میں بھیجا ہے اور لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ، ہر دور، ہر حال میں اس نمونہ کے مطابق خود بھی بنیں اور دوسروں کو بنانے کی فکر کریں۔ گویا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق و سیرت ایک حیثیت سے عملی قرآن ہے۔

کھانا کھانے کا مسنون طریقہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔

کھانے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوکر کلی کریں اور نہایت عاجزی کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ جائیں ۔بسم اﷲ پڑھ کر سالن نکالیں پھر دائیں ہاتھ سے روٹی کا لقمہ سالن میں لگا کر منہ میں ڈالیں ۔ لقمہ خوب چبا کر کھائیں ۔لقمہ درمیانہ لینا چاہیے ، تاکہ چبا نے میں دقت نہ ہو۔ اگر ایک پلیٹ میں دو تین آدمی مل کر کھا رہے ہوں تو اپنے سامنے سے کھانا چاہیے۔ دوسرے کے سامنے سے لقمہ نہیں اُٹھانا چاہیے ۔اگر کھانے کے دوران چھینک آجائے تو دوسری طرف منہ کر کے چھینکنا چاہیے۔ اور پانی پینا چاہیے۔ کھانا مناسب مقدار میں کھانا چاہیے ۔یعنی ضرورت سے تھوڑا کم ۔ اگر کھاتے وقت کوئی لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھالینا چاہیے ۔کھانا پلیٹ میں نہیں بچانا چاہیے ۔ اگر انگلیوں کے ساتھ سالن وغیرہ لگا ہو تو اسے چاٹ لینا چاہیے۔ کھانا کھا کر اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور مسنون دعا پڑھنی چاہیے ۔ کھانا کھا کر ہاتھوں کو دھوکر تولیے سے صاف کرنا چاہیے ۔ پانی کھانا شروع کرنے سےپہلے پی لیں یا کھانے کے دوران پئیں آخر میں نہ پئیں۔

نعت کو ایک بار پھر غور سے پڑھیں اور اس میں حضرت محمد رسول اللہ صلی وعلیہ وسلم کے لیے استعمال ہونے والے القاب چن کر ان کی وضاحت کریں۔

آپ صلی وعلیہ وسلم کی ذات مفکر ، صادق و امین ، فاتح عالم اور کامل انسان ہے۔