شاعروں کے لطیفے

0

تعارفِ سبق :

سبق ”شاعروں کے لطیفے“ کے مصنف کا نام ”مولانا محمد حسین آزاد“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” آبِ حیات “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

آپ کا نام محمد حسین، آزاد تخلص اور شمس العماء خطاب تھا۔ آپ ۱۸۳۰ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمد باقر تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ ذوق کے شاگرد ہوئے۔ آپ نے اعلیٰ ثانوی تعلیم دلی کالج سے حاصل کی اور آپ کے تعلیم سے فراغت پانے کے فوراً بعد ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ مولانا آزاد کے والد کو ایک انگریز کے قتل کے الزام میں سزائے موت ہوگئی۔ آزاد نے بمشکل اپنی جان بچائی اور لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ یہاں بھی حالات سازگار نہ پاکر لاہور روانہ ہوئے اور وہاں محکمہ تعلیم سے منسلک ہوگئے۔ آپ نے درسی کتابیں تیار کیں۔ آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی کے استاد رہے۔ آپ نے لاہور میں انجمنِ پنجاب کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیفات میں ” آبِ حیات ، نیرنگِ خیال ، دربارِ اکبری ، قصص ہند ، مکاتیب آزاد اور نظمِ آزاد “ قابلِ ذکر ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۱۰ء میں ہوا۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف نے مختلف شعرا کے درمیان پیش ہونے والے واقعات کو قلم بند کرتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ دو لوگوں کے درمیان میر اور مرزا کے کلام کی وجہ سے بحث ہونے لگی۔ وہ دونوں لوگ خواجہ باسط کے مرید تھے انکے پاس فیصلے کے لیے گئے۔ خواجہ باسط نے ان کا مسئلہ سننے کے بعد فرمایا کہ :
” دونوں ہی کمال ہے بس فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام آہ ہے اور مرزا صاحب کا کلام واہ ہے۔ “

پھر مصنف ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک دن دربار لگا تھا وہاں ایک شخص کسی بیگم یا مرشد زادی کا پیغام لے کر آیا اور بادشاہ کے پاس جا کر آہستہ آہستہ اسے کچھ بتانے لگا۔ جب وہ اپنی بات پوری کرچکا تو دربار سے واپس جانے لگا۔ اسے واپس جاتا دیکھ حکیم احسن اللہ خاں نے اظہارِ تعجب کیا کہ تم ابھی تو آئے تھے یہاں اور اب تم یہاں سے جارہے ہو تو صاحب عالم کی زبان سے اس وقت نکلا کہ اپنی خوشی سے آۓ نہ اپنی خوشی سے چلے۔ اس پر وہاں موجود لوگوں نے ایک شعر بنادیا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ہمیں اس دنیا میں ہماری تقدیر لائی تو ہم یہاں آگئے اور ہماری موت ہماری اس دنیا سے دوری کا سبب بنے گی تو ہم اس دنیا سے دور ہوجائیں گے۔ ہم نہ یہاں اپنی مرضی سے آئے تھے نہ یہاں سے اپنی مرضی سے روانہ ہورہے ہیں۔ یہ سب تو تقدیر کے کھیل ہیں۔

مصنف ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خواجہ حیدر علی آتش کا ایک شاگرد بے روزگاری کی شکایت کرتے ہوئے سفر کا ارادہ کرتا تھا۔ خواجہ صاحب اسے کہتے تھے کہ تم کہاں جاؤ گے خدا نے جو دیا ہے اس پر صبر کرو اور جو گھڑی ملی ہے تو مل کر بیٹھ جاؤ۔ ایک روز وہ شاگرد حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں چلتا ہوں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ کہاں جاٶ گے تو اس نے کہا بنارس، اگر آپ کی کوئی خواہش ہو تو بتا دیجیے۔ خواجہ صاحب کہنے لگے کہ وہاں کے خدا کو میرا سلام دینا۔ شاگرد پریشان ہوا کہ یہاں اور وہاں کا خدا تو ایک ہی ہے، تب خواجہ صاحب نے فرمایا کہ جب خدا ایک ہی ہے تو جو اس سے وہاں جا کر مانگو گے، وہ یہاں بیٹھ کر مانگ لو اور جو وہ وہاں تمہیں عطا کرے گا وہ تمہیں یہاں بھی عطا کر دے گا۔ یہ بات سن کر شاگرد پر اس قدر اثر ہوا کہ اس نے اپنے سفر کا ارادہ بدل لیا۔

سوال ۱ : مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

(الف) خواجہ باسط نے میر اور مرزا کے کلام کے بارے میں کیا فرمایا ؟

جواب : خواجہ باسط نے فرمایا کہ : ”دونوں ہی صاحب کمال ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میرؔ صاحب کا کلام “آہ” ہے اور مرزاؔ صاحب کا کلام “واہ” ہے۔“

(ب) شریف زادے کی غزل سن کو سودا نے کیا کہا؟

جواب : شریف زادے کی غزل سن کر سودا نے اس کی بہت تعریف کی، بہت مرتبہ اس سے کلام پڑھوایا اور کہا میاں لڑکے! جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔

(ج) سید انشا کے اصرار پر جرات نے کون سا مصرع پڑھا؟

جواب : سید انشا کے اصرار پر جرات نے یہ مصرع پڑھا :
اس زُلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجُھی

(د) خواجہ صاحب اپنے اس شاگرد سے کیا کہا کرتے تھے، جو اکثر بے روزگاری کی شکایت سے سفر کا ارادہ کیا کرتے تھے؟

جواب : خواجہ صاحب نے اپنے اس شاگرد سے یہ کہا کرتے تھے کہ میاں کہاں جاؤ گے؟ دو گھڑی مل کر بیٹھنے کو غنیمت سمجھو اور جو خدا دیتا ہے اس پر صبر کر لو۔

(ہ) صاحب عالم کی زبان سے اس وقت کیا نکلا جب حکیم احسن اللہ خاں نے جلدی سے ان کے آنے اور جانے پر اظہار تعجب کیا؟

جواب : جب حکیم احسن اللہ خاں نے صاحب عالم کے آنے اور جانے پر اظہار تعجب کیا تو صاحب عالم کی زبان سے اس وقت نکلا کہ اپنی خوشی سے آۓ نہ اپنی خوشی سے چلے۔

سوال ۲ : درست جملوں پر (✓) کا نشان لگائیں۔

  • (الف) شعر تو میر کا ہے مگر داد خواہی ان کی ددا کی معلوم ہوتی ہے۔ (✓)
  • (ب) سودا نے بہت تعریف کی اور کہا کہ میاں لڑکے بہت طویل عمر پاؤ گے۔ (×)
  • (ج) جرات ہنس پڑے اور اپنی لکڑی اٹھا کر مارنے کو دوڑے۔ (✓)
  • (د) چونکہ نام بھی امام بخش تھا، اس لیے تمام اہل جلسہ خاموش رہے۔ (×)
  • (ہ) بھائی! اگر کوئی گدھا لات مارے تو تم اس کا کیا جواب دوگے؟ (✓)

سوال ۳ : سبق کے متن کو مدنظر رکھ کر درست جواب کی نشان دہی (درست) سے کریں۔

(الف) میر اور مرزا کے کلام پر تکرار کرنے والے کس کے مرید تھے؟

  • ٭خواجہ میر درد کے
  • ٭مرزا غالب کے
  • ٭ابراہیم ذوق کے
  • ٭خواجہ باسط کے (✓)

(ب) انشااللہ خاں ایک دن کس کی ملاقات کو آئے؟

  • ٭غالب کی
  • ٭میر درد کی
  • ٭جرات کی (✓)
  • ٭مصحفی کی

(ج) یہ مصرع “اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی” کس شاعر کا ہے؟

  • ٭انشا کا
  • ٭جرات کا(✓)
  • ٭درد کا
  • ٭میر کا

(د) “قاطع برہان” کے مصنف کون ہیں؟

  • ٭ذوق
  • ٭مومن
  • ٭غالب (✓)
  • ٭سودا

سوال۴ : متن کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب لفظ کی مدد سے خالی جگہ پر کریں۔

  • (الف) ایک دن لکھنؤ میں (میر اور مرزا) کے کلام پر دو شخصوں نے تکرار میں طول کھینچا۔
  • (ب) میر صاحب کا کلام (آہ) ہے، مرزا صاحب کا کلام (واہ) ہے۔
  • (ج) گرمیِ کلام پر (سواد) بھی چونک پڑے۔
  • (د) (جرات) نے کہا کہ ایک مصرع خیال میں آیا ہے۔
  • (ہ) جرات ہنس پڑے اور (لاٹھی) اٹھا کر مارنے کو دوڑے۔
  • (و)(اندھے) کو (اندھیرے) میں بہت دور کی سوجھی۔
  • (ز) چونکہ نام بھی (امام بخش) تھا اس لیے تمام اہل جلسہ نے نہایت تعریف کی۔
  • (ح) ایک شاگرد اکثر (بے روزگاری) کی شکایت سے سفر کا ارادہ ظاہر کیا کرتے تھے۔
  • (ط) ایک دن معمولی دربار تھا (استاد ابراہیم ذوق) بھی حاضر تھے۔
  • (ی) انھوں نے (آہستہ آہستہ) بادشاہ سے کچھ کہا اور رخصت ہوئے۔

سوال ۵ : ان الفاظ کے متضاد لکھیں۔

الفاظ متضاد
کمال : بےکمال
گرمی : سردی
مطلع : مقطع
خاص : عام
بےروزگار : روزگار

سوال ٦ : مذکر اور مؤنث الفاظ الگ الگ کریں۔

مذکر : کلام، شور ، چراغ ، قدرت ، مصرع ، مزاج
مونث : تکرار ، طول ، آہ ، قیامت ، زلف ، تسبیح، شکایت

سوال ۷ : مندرجہ ذیل الفاظ پر اعراب لگائیں۔

کَمال
مَطْلَع
اِشْتِیاق
غَنِیمَت

سوال ۸ : مندرجہ ذیل عبارت کی تشریح سیاق و سباق کے ساتھ کیجیے۔

”ایک دن معمولی دربار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے۔“

  • حوالہ : یہ اقتباس سبق شاعروں کے لطیفے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام مولانا محمد حسین آزاد ہے۔ یہ سبق کتاب آبِ حیات سے ماخوذ کیا گیا ہے۔
  • تشریح : ایک اقتباس میں مصنف دراصل ایک دربار کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک دن دربار لگا تھا وہاں ایک شخص کسی بیگم یا مرشد زادی کا پیغام لے کر آیا اور بادشاہ کے پاس جا کر آہستہ آہستہ اسے کچھ بتانے لگا۔ جب وہ اپنی بات پوری کرچکا تو دربار سے واپس جانے لگا۔ اسے واپس جاتا دیکھ حکیم احسن اللہ خاں نے اظہارِ تعجب کیا کہ تم ابھی تو آئے تھے یہاں اور اب تم یہاں سے جارہے ہو تو صاحب عالم کی زبان سے اس وقت نکلا کہ اپنی خوشی سے آۓ نہ اپنی خوشی سے چلے۔ اس پر وہاں موجود لوگوں نے ایک شعر بنادیا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ہمیں اس دنیا میں ہماری تقدیر لائی تو ہم یہاں آگئے اور ہماری موت ہماری اس دنیا سے دوری کا سبب بنے گی تو ہم اس دنیا سے دور ہوجائیں گے۔ ہم نہ یہاں اپنی مرضی سے آئے تھے نہ یہاں سے اپنی مرضی سے روانہ ہورہے ہیں۔ یہ سب تو تقدیر کے کھیل ہیں۔

سوال ۹ : مندرجہ ذیل واحدالفاظ کے جمع اور جمع کے واحد لکھیے۔

واحد جمع
کمال کمالات
شعر اشعار
مشاعره مشاعرے
بیگم بیگمات
شخص اشخاص
خادم خدام

سوال۱۰ : کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

آہ واہ
پھپھولے دل
زرا ٹک
مرزا سودا
جرات انشا