حمدمولانا الطاف حسین حالی

0

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام مولانا الطاف حسین حالی ہے۔

تعارف شاعر :

الطاف حسین 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام الطاف حسین، حالی تخلص، اور شمس العلماء خطاب تھا۔ آپ کے والد کا نام خواجہ ایزد بخش انصاری تھا۔ آپ نے پہلے قرآن پاک حفظ کیا پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی شادی سترہ برس کی عمر میں کردی گئی۔ آپ دہلی بھی گئے جہاں آپ کو مزرا غالب اور نواب مصطفی خان شیفتہ کی صحبت میسر آئی۔ اس کے بعد آپ لاہور آگئے اور پنجاب بک ڈپو میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہاں انھوں نے کتب کے اردو تراجم پر نظر ثانی اور درستی کا کام کیا۔ اس کام سے حالی کو انگریزی زبان اور اس کے ادب سے آگاہی حاصل ہوئی۔ یہیں انھوں نے مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر موضوعاتی مشاعروں کی بنیاد ڈالی ، جن میں شاعر مختلف موضوعات پر نظمیں لکھر کر لایا کرتے تھے۔ انھی مشاعروں میں حالی نے ” برکھا رُت ، رحم و انصاف ، حُبِ وطن اور امید“ کے عنوان سے نظمیں پڑھیں۔ حالی نے سرسید کی مشہور تحریک پر اپنا مشہور مسدس ”مدّ و جزرِ اسلام“ بھی لکھا جو مسدسِ حالی کے نام سے مشہور ہوا۔ ”حیاتِ سعدی، مقدمہ شعر و شاعری ، یادگارِ غالب اور حیاتِ جاوید“ حالی کی اہم نثری تصانیف میں سے قابلِ ذکر ہیں۔

قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
اک بندۂ نا فرماں ہے حمد سرا تیرا

تشریح :

اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے دلوں پر آپ ہی کا قبضہ ہے ہم آپ کی ہی حمد و نثا کرتے ہیں۔ اور آپ کے سوا ہم کس کی عبادت کرسکتے ہیں بھلا اور اللہ ہی کی شان ہے کی ایک گناہ گار بندہ اس کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے اور اس کی حمد و نثاء کرتا ہے۔

گو سب سے مقدم ہے حق تیرا ادا کرنا
بندے سے مگر ہو گا حق کیونکہ ادا تیرا

تشریح :

اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے انسان کو اللہ کا حق ادا کرنا چاہیے مگر اللہ نے ہم پر اس قدر کرم فرماۓ ہیں۔ زندگی عطا کی ، جینے کا ڈھنگ سیکھایا ، کھانے پینے کو ہر نعمت عطا کی، غرض دنیا کو انسان کے لیے پر آسائش بنا دیا اور بھلا انسان میں اتنی سکت کہاں کے وہ اللہ کی کرم نوازیوں کا حق ادا کرسکے گا۔

محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ یہاں پر اس دنیا میں تو اپنے محرم رشتوں کا بھی اعتبار نہیں ہے کہ کون ناجانے کب دغا دے جائے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہم یہاں کسی کو اپنا راز بتاتے ہیں تو وہ انسان ہمارا راز کبھی بھی فاش کرسکتا ہے اور ہمیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بیشک ہمارے راز صرف اللہ تعالیٰ ہی سنبھال سکتا ہے۔

جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی
کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا

تشریح :

اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ میں اللہ کی یاد میں مگن رہنے والا مست حال بندہ ہوں۔ میں دنیا سے بخیر بس تیری بندگی میں مگن رہتا ہوں مجھے کچھ پراوہ نہیں ان لوگوں کی جن کی نظر میں میری کوئی حیثیت نہیں اور جن کے نظروں میں میرا وجود کھٹکتا رہتا ہے۔

تو ہی نظر آتا ہے ہر شے پر محیط ان کو
جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گلا تیرا

تشریح :

اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے اور یہ دنیا تیرے ہی کرم کی محتاج ہے اور جب کوئی مشکل اور مصیبت سر پر آتی ہے تو سب منہ موڑ لیتے ہیں، صرف اللہ ہی ہے جو ہر غم و مصیبت سے نجات دینے والا ہے۔ اور سب اسی سے مانگتے ہیں۔

آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لئے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا

تشریح :

اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی کرم نوازیاں آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر شے میں اللہ کی قدرت نمایاں ہوتی ہے اور بھلا کیوں نہ ہو اللہ نے اس دنیا کا ذرہ زرہ ایسا تخلیق کیا ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں حیران رہ جاتی ہے اور انسانی عقل اس کے رازوں تک پہنچ بھی نہیں پاتی۔

ہر بول ترا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے
کچھ رنگ بیاں حالیؔ ہے سب سے جدا تیرا

تشریح :

اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیرا ہر فرمان میرے دل پر نقش ہوجاتا ہے اور میں فرمانِ الہیٰ کو مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ اے میرے رب اس دنیا میں تیرا رنگ سب سے مختلف اور جدا ہے کیونکہ بیشک تو ہی ہم سب کا پروردگار ہے۔

سوال ۱ : حمد کے حوالے سے درج ذیل سوالات کے جواب لکھیں۔

(الف) کون سا بندہ حمد سرا ہے؟

جواب : نافرماں بندہ حمد سرا ہے۔

(ب) کس کا حق سب سے مقدم ہے؟

جواب : اللہ تعالیٰ کا حق سب سے مقدم ہے۔

(ج ) محرم اور نامحرم میں کیا فرق ہے؟

جواب : محرم کا مطلب راز دار اور نامحرم کا مطلب ناواقف ہے۔ اس نظم میں شاعر کے نزدیک محرم اور نامحرم میں کوئی فرق نہیں ہے۔

(د) اللہ کا گدا کس میں مگن رہتا ہے؟

جواب : اللہ کا گدا اپنی کملی میں مگن رہتا ہے۔

(ہ) بادِ صبا گھر گھر کیا لیے پھرتی ہے؟

جواب : بادِ صبا گھر گھر اللہ کی وحدانیت و موجودگی اور خالق و رازق ہونے کا پیغام لیے پھرتی ہے۔

سوال ۲ : اس حمد میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کی کون کون سی صفات بیان کی ہیں؟

  • جواب : اس حمد میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان کی ہیں درج ذیل ہیں۔
  • ٭سب کے دلوں پر حکمرانی
  • ٭محیط
  • ٭ظاہر
  • ٭ہمہ گیر

سوال ۳ : مندرجہ ذیل الفاظ و مرکبات کے معنی لکھیں۔

مقدم : پہلا
محرم : واقف
خلعتِ سلطانی : شاہانہ لباس
محیط : احاطہ کرنے والا
آفاق : دنیا
بندۂ نافرماں : حکم نہ ماننے والا آدمی

سوال ۴ : تیسرے شعر میں شاعر نے “محرم” اور “نامحرم” کو کس لیے ایک جیسا قرار دیا ہے؟

جواب : تیسرے شعر میں شاعر نے محرم اور نامحرم کو ایک جیسا اس لیے قرار دیا ہے کیونکہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حکمتوں سے ناآشنا ہیں۔

سوال ۵ : درج ذیل اشارات کی مدد سے حمد کا خلاصہ مکمل کریں۔

دلوں پر اللہ کا قبضہ۔۔۔۔۔۔۔۔نافرمان بندہ اور حمد سرا۔۔۔۔۔اللہ کی بندگی کا حق کس سے ادا ہوا۔۔۔۔۔۔محرم و نامحرم برابر ہیں۔۔۔۔۔خلعت سلطانی ۔۔۔۔۔۔۔ہر شے پہ محیط ہے۔۔۔۔۔۔ہرطرف اس کی خوشبو ہے۔۔۔۔۔۔حالہ کا بیان سب سے جدا ہے۔

خلاصہ :

اس نظم میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے دلوں پر آپ ہی کا قبضہ ہے ہم آپ کی ہی حمد و نثا کرتے ہیں۔ اور آپ کے سوا ہم کس کی عبادت کرسکتے ہیں بھلا اور اللہ ہی کی شان ہے کی ایک گناہ گار بندہ اس کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے اور اس کی حمد و نثاء کرتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہاں پر اس دنیا میں تو اپنے محرم رشتوں کا بھی اعتبار نہیں ہے کہ کون ناجانے کب دغا دے جائے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہم یہاں کسی کو اپنا راز بتاتے ہیں تو وہ انسان ہمارا راز کبھی بھی فاش کرسکتا ہے اور ہمیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بیشک ہمارے راز صرف اللہ تعالیٰ ہی سنبھال سکتا ہے۔ شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ میں اللہ کی یاد میں مگن رہنے والا مست حال بندہ ہوں۔ میں دنیا سے بخیر بس تیری بندگی میں مگن رہتا ہوں مجھے کچھ پراوہ نہیں ان لوگوں کی جن کی نظر میں میری کوئی حیثیت نہیں اور جن کے نظروں میں میرا وجود کھٹکتا رہتا ہے۔ شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی کرم نوازیاں آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر شے میں اللہ کی قدرت نمایاں ہوتی ہے اور بھلا کیوں نہ ہو اللہ نے اس دنیا کا ذرہ زرہ ایسا تخلیق کیا ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں حیران رہ جاتی ہے اور انسانی عقل اس کے رازوں تک پہنچ بھی نہیں پاتی۔ شاعر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیرا ہر فرمان میرے دل پر نقش ہوجاتا ہے اور میں فرمانِ الہیٰ کو مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ اے میرے رب اس دنیا میں تیرا رنگ سب سے مختلف اور جدا ہے کیونکہ بیشک تو ہی ہم سب کا پروردگار ہے۔

سوال ٦ : اعراب لگا کر تلفظ واضح کریں۔

بَنُدۂ نَافَرُمَاں۔
رَنُگِ بَیَاں۔
رَنُج و مَصِیُبَتُ۔
خِلُعَتِ سُلُطَانِی۔
مَحَرمم۔
مُقَدَّم ۔
حمدُ سَرَا۔

سوال ۷ : مناسب لفظ کی مدد سے مصرعے مکمل کریں۔

(الف) گو سب سے ۔۔۔۔۔۔۔ ہے حق تیرا ادا کرنا (مقدم)
(ب) محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے۔۔۔۔۔(نامحرم)
(ج) ۔۔۔۔ نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی (جچتا)
(د) ۔۔۔۔۔۔ میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری (آفاق)
(ہ) ہر بول ترا ۔۔۔۔۔ سے ٹکرا کے گزرتا ہے (دل)

سوال ۸ : ‘نافرمان’ اور ‘نامحرم’ میں’نا’ سابقہ ہے۔آپ ایسی پانچ مثالیں تلاش کریں جن میں’نا’ سابقے کے طور پر استعمال ہوا ہو۔

نادیدہ۔
ناکام۔
ناآشنا۔
نابلد۔
ناروا۔

سوال ۹ : کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

کالم (الف) کالم (ب)
بندہ نافرماں : حمد سرا
مقدم : حق
محرم : نامحرم
کملی : خلعت سلطانی
آفاق : مہک
پیغام : صبا
بول : رنگ بیاں