عقیدہ آخرت کا مفہوم و اہمیت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 08

سوال۱:اسلام کے بنیادی عقائد کو الگ الگ بیان کرتے ہوئے ان پر مختصر نوٹ لکھیں۔

جواب:لفظ ”آخرت“ کے معنی بعد میں ہونے والی چیز کے ہیں۔ اس کے مقابلے میں لفظ ”دنیا“ ہے، جس کے معنی قریب کی چیز کےہیں۔ عقیدہ آخرت کا اصطلاحی مفہوم یہ ہےکہ انسان مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے فنا نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح باقی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ تعالیٰ اس کی روح کو جسم میں منتقل کرکے اسے دوبارہ زندہ کردے گا اور پھر انسان کو اس کے نیک و بد اعمال کا حقیقی بدلہ دیا جائے گا۔ نیک لوگوں کو ایک ایسی جگہ عنایت کی جائے گی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھرپور ہوگی۔ اس کا نام جنت ہے اور برے لوگ ایک انتہائی اذیب ناک جگہ میں رہیں گے، جس کا نام جہنم ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: بے شک نیک لوگ بہشت میں (ہوں گے)۔ اور بے شک گناہ گار دوزخ میں۔ (سورۃ الانفطار: ۱۳، ۱۴)

انسان کی دنیاوی زندگی اس کی آخرت کی زندگی کی پیش خیمہ ہے۔دنیا کی زندگی عارضی اور آخرت کی زندگی دائمی ہے۔ انسان کی تمام اعمال کو پورے پورے نتائج اس عارضی زندگی میں مرتب نہیں ہوتے۔بلکہ اس عارضی زندگی میں جن اعمال کا بیج بویا جاتا ہے ان کے حقیقی نتائج آخرت کی زندگی میں ظاہر ہوں گے۔ جس طرح دنیا کی ہر چیز علیحدہ علیحدہ اپنی ایک عمر رکھتی ہے جس کے ختم ہوتے ہی وہ چیز ختم ہو جائے گا اور ایک دوسرا نظام اس کی جگہ لے لے گا۔

جب دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور ایک دوسرا نظام قائم ہوگا، تو انسان کے ایک نئی جسمانی زندگی ملے گی۔ اس روز ایک زبردست عدالت لگے گی جس میں انسان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اسے نیک اعمال کی جزاملے گی اور برے اعمال کی سزا۔

سوال۲:عقیدہ آخرت کے انسانی زندگی پر اثرات پر وضاحتی نوٹ تحریر کریں۔

جواب:عقیدہ آخرت کے انسانی زندگی پراثرات درج ذیل ہیں:

نیکی سے رغبت اور بدی سے نفرت:

جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے تمام اعمال ، خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، اس کے نامہ اعمال میں محفوظ کر لیے جاتے ہیں آخرت میں یہی نامہ اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور منصف حقیقی فیصلہ فرمائے گا۔ ان اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ ایک پلڑے میں نیک اعمال اور دوسرے میں برے اعمال ہوں گے۔ اگر نیکی کا پلڑا بھاری ہوا تو کامیابی حاصل ہوگی، اور جنت میں ٹھکانہ ہوگا اور اگر برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا تو ناکامی ہوگی اور جہنم کا درد ناک عذاب چکھنا ہوگا۔
آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص برائیوں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اسے علم ہوتا ہے کہ ان کے نتیجہ میں وہ عذاب میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اسے نیکیوں سےمحبت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے نیکی کا اجر ملے گا۔

بہادری اور سرفروشی:

ہمیشہ کے لیے مٹ جانے کا ڈر انسان کو بزدل بنا دیتا ہے۔ مگر جب دل میں یہ یقین موجود ہو کہ اس دنیا کی زندگی چند روزہ ہے، پائیدار اور دائمی زندگی آخرت کی ہے تو انسان نڈر ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔ وہ جانتا ہے کہ راہ حق میں جان کا نذرانہ پیش کردینے سے وہ ہمیشہ کے لیے فنا نہیں ہوجائے گا۔ بلکہ آخرت کی کامیابی اور پرمسرت زندگی حاصل کرے گا۔ چنانچہ یہ عقیدہ مومن کے دل میں جذبہ سرفروشی پیدا کرکے معاشرے میں امن اور نیکی کے پھیلنے کی راہیں ہمدار کر دیتا ہے۔

صبر و تحمل:

عقیدہ آخرت سے انسان کے دل میں صبر و تحمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ حق کی خاطر جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی۔ اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اجرملے گا۔لہٰذا آخرت پر نظر رکھتے ہوئے وہ ہر مصیبت کا صبر و تحمل سے مقابلہ کرتا ہے۔

مال خرچ کرنے کا جذبہ:

عقیدہ آخرت انسان کے دل میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ حقیقی زندگی صرف آخرت کی زندگی ہے۔ لہٰذا اسی دولت سے لگاؤ رکھنا چاہئے جو اس زندگی کو کامیاب بنائے۔ چنانچہ مومن جتنا بھی دولت مند ہو جاتا ہے، اسی قدر زیادہ سخاوت اور فیاضی کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کی آخرت کی زندگی سنور جائے گی۔

احساس ذمہ داری:

آخرت پر ایمان رکھنے سے انسان میں احساس ذمہ داری پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرنا جرم ہے، جس پر آخرت میں سزا ملےگی۔ لہٰذا پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کیے جائیں۔ آہستہ آہستہ یہ احساس اس قدر پختہ ہو جاتا ہے کہ انسان اپنا فرض پوری دیانت داری سے سرانجام دینے لگتا ہے خواہ اس کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو یا اللہ تعالیٰ کے حقوق سے۔

سوال۳:عقیدہ رسالت کے لفظی اور اصطلاحی معنی بیان کیجیے۔

جواب: انسا ن کو ذات الہیٰ کی صحیح پہچان اس کے رسولوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اس لیے اسلام کے سلسلہ عقائد میں توحید کے بعد رسالت کا درجہ ہے۔ رسول کے لغوی معنی ہیں پیغام دےکر بھیجا ہوا یعنی پیغام پہنچانے والا۔ دین کی اصطلاح میں رسول وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے منتخب فرمایا ہو۔

رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی زندگی اپنی قوم میں بہترین زندگی ہوتی ہے۔وہ پاکباز، نرم،خو، نیک طبیعت، سچا اور امنت دار ہوتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتے وقت کوئی اس کو بے اعتباریا جھوٹا نہ کہہ سکے۔ اور وہ دعویٰ سے کہے:
ترجمہ: میں نے اس سے پہلے تمہارے درمیان کافی زندگی گزاری ہے۔ (سورۃ یونس: ۱۶)

سوال۴: منکرینِ آخرت کے شہبات اور ان کے قرآنی جواب کو ڈسکس کریں۔

جواب: قرآن مجید میں عقیدہ آخرت کا بیان کرتے ہوئے منکرین کے شبہات کا بڑے عمدہ انداز میں جواب دیا گیا ہے۔
مشرکین مکہ عقیدہ آخرت کے منکر تھے۔ اس سلسلے میں ان کے شہبات یہ تھے:
ترجمہ: اور کہتے ہیں کیا جب ہم زمین میں نیست ونابود ہوں گے۔ تو کیا کہیں پھر ہم نئے جنم میں آئیں گے۔ (سورۃ السجدہ:۱۰)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
ترجمہ: کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو، جب کہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں۔ (سورۃ یٰسن: ۷۸)
لہٰذا
ترجمہ: زندگی جو کچھ بھی ہے، بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ اور ہم مرنے کے بعدہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے۔ (سورۃ الانعام: ۲۹)

اللہ تعالیٰ نے ان کے شبہات کے دور کرتے ہوئے فرمایا۔ تم پہلے موجود نہ تھے تمہیں اللہ نے موجود کیا، جو ذات تمہیں پہلے وجود تمہیں پہلے وجود میں لانے پر قادر ہے۔ وہ تمہارے مرجانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی بخشنے پر بھی قادر ہے۔
ترجمہ: اور وہی ہے جوتخلیق کی ابتداء کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا۔اور یہ اس کے لیے بہت ہی آسان ہے۔(سورۃ الروم: ۲۷)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
ترجمہ: (اس سے) کہو، انھیں وہی زندہ کرے گا۔ جس نے انھیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے۔ (سورۃ یٰسن: ۷۹)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمہاری جان طلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا۔ پھر اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۸)
انسان کی صحیح سوچ اس سے عقیدہ آخرت پر ایمان لانے کا تقاضا کرتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ نیک عمل کا اچھا صلہ اور برے عمل کا برابدلہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا انسان کے تمام اعمال کے نتایج اس دنیاوی زندگی میں سامنے آجاتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات ایک ایسا شخص جس نے پوری زندگی گناہوں میں گزاری ہو، اس جہاں میں سزا سے بچارہتا ہے۔ اس طرح بعض بے حد نیک لوگ جو عمر بھر نیکیاں کرتے رہےانھیں یہاں نیکی کا پورا بدلہ نہ ملا بلکہ بعض کو توبے حد اذیتیں دے کر شہید کردیا گیا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ”کیا مجرموں کو ان کے جرائم کی سزا کبھی ملے گی؟ کیانیک کاراچھے اجرسے محروم رہیں گے؟ کیا اللہ تعالیٰ کا نظام عدل ان کے بارے میں ہمیشہ کے لیے خاموش رہے گا؟ کیا اشرف المخلوقات انسان کو عبث پیدا کیا گیا اور اس کے اعمال کی کوئی قدروقیمت نہیں۔“

ترجمہ: سوکیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے۔ (سورۃالمومنون: ۱۱۵)
جب عقل اس پہلو پر سوچتی ہے تو یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ آخرت کی زندگی برحق ہے، جس میں سب لوگوں کو ان کے اعمال کی جزاو سزا ملے گی۔ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ ملے گا اورمجرموں کو سخت سزا ملے گی، سوائے ان کے جن کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے۔