ابو عبیدہ بن جرح کے حالات و واقعات

0

اسم مبارک:☜

آپ ہیں نبی کریم حضرت محمدﷺ کی امت کے امین حضرت عامر بن عبد اللہ بن جرح الفہری القرشی جنکی کنیت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے۔

حلیہ مبارک:☜

خوش شکل،ہنس مکھ ،اکہرے جسم  دراز قد اور ایسے تیکھے خدو خال والے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو سرور حاصل ہو۔آپ سے ملاقات کرنے والے کی طبیعت مانوس ہو۔اور اسے دلی سکون میسر آۓ۔اسکے ساتھ ساتھ آپ خوشحال، منکسر المزاج اور بہت شرمیلے تھے۔لیکن جب کبھی کوئی مشکل وقت آجاتا تو شیر کی مانند چاک و چوبند ہو جاتے۔علاوہ ازیں آپ جلال و جمال طبیعت کی تیزی اور اثر و نفوذ میں تیز چمک دار تلوار کی مانند تھے۔

حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کے تاثرات:☜

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ قریش میں تین شخصیات ایسی ہیں کہ جنکے چہرے تمام لوگوں سے زیادہ بڑھ کر حسین، جنکا اخلاق سب سے زیادہ عمدہ اور جن میں حیا سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔اگر وہ آپ سے گفتگو کریں تو قطعًا جھوٹ نہ بولیں۔اور اگر آپ ان سے کوئی بات کریں تو آپ انکو جھٹلائیں نہیں میری نظر میں وہ تین شخصیات یہ ہیں۔۔۔
1۔حضرت صدیق اکبرؓ
2۔حضرت عثمان بن عفانؓ
3۔حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ

آپ کا مشرف با اسلام ہونا :☜

حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ کا شمار ان صحابہ اکرام میں سے ہوتا ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی۔آپ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اسلام لانے کے دوسرے دن ہی مشرف بااسلام ہوئے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ ،حضرت عبدالرحمٰن بن اوفؓ، حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت ارقم بن ابی الارقم اور  حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ نے  نبی کریم ﷺ کے روبرو کلمہ حق “لا الہ الا محمد الرسول اللہ” پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ حقیقیت میں یہ شخصیات وہ پہلی بنیادیں ہیں جس پر اسلام کا محل تعمیر کیا گیا۔

ابو عبیدہؓ کے حالات زندگی:☜

حضرت ابو عبیدہؓ  نے مکہ معظمہ میں شروع سے آخر تک مسلمانوں کو پیش آنے والے تلخ حالات میں زندگی بسر کی۔ایسی شدید تکالیف اور رنج و الم میں انکا ساتھ دیا کہ جن شدائد اور تکالیف کا روئے زمین پر بسنے والےکسی بھی دین کے پیروکاروں کو کبھی بھی سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔آپ اس دور ابتلاۓ میں قدم رکھ رہے اور ہر صورت میں اللہ تعالٰی اور رسول مقبول کو صمیم قلب سے سچا مانا۔

جنگ بدر میں شرکت:☜

میدان جنگ میں حضرت ابو عبیدہؓ کو پیش آنے والی آزمائش اس قدر نازک تھی کہ انسانی تخیل میں بھی نہ آسکیں۔ہوا یوں کہ غزوۂ بدر میں  ابو عبیدہ بن جرحؓ دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے بے خوف و خطر اس طرح آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ آپ کے اس جرأت مندانہ اقدام سے دشمنوں میں بھگدڑ مچ گئی۔

آپ میدان جنگ  میں اس طرح چکر لگا رہے تھے کہ موت کا کوئی ڈر ہی نہ ہو۔آپکا یہ انداز دیکھ کر قریش کے شہسوار گھبرا گئے۔جونہی آپ انکے سامنے آتے تو وہ خوفذدہ ہوکر گھبرا جاتے۔لیکن ان میں صرف ایک شخص ایسا  تھا جو آپکے سامنے اکڑ کر کھڑا ہو جاتا۔ لیکن آپ اس سے پہلو تہی اختیار کر جاتے اور اسکے ساتھ مقابلہ کرنے سے اجتناب کر جاتے۔وہ شخص بھی آپ سے مقابلہ کرنے کے لئے بار بار سامنے آتا رہا۔لیکن آپ نے بھی اس سے پہلو تہی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔بہر حال اس شخص نے ابو عبیدہؓ کے لیے تمام راستے بند کر دیے۔حتٰی کہ وہ آپکے اور دشمنان اسلام کے مابین حائل ہو گیا۔لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا تو اسکے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا جس سے اسکی کھوپڑی کے دوٹکڑے ہو گئے اور وہ آپکے قدموں میں ڈھیر ہو گیا۔

کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ قتل ہونے والا شخص کون تھا؟ بلاشبہ میدان بدر میں ابو عبیدہؓ کو پیش آنے والی یہ آزمائیش بلاشبہ حساب دانوں کے حساب سے بھی ماورا تھی اور ایسی نازک کہ انسانی قوت و ادراک میں بھی نہ آسکے۔ جب آپکو یہ معلوم ہوگا کہ یہ لاش ابو عبیدہؓ کے والد عبد اللہ بن جرح کی تھی تو آپ انگشت بدندان رہ گئے۔

دراصل حضرت ابو عبیدہؓ نے جنگ بدر میں اپنے باپ کو قتل نہیں کیا بلکہ انہوں نے میدان بدر اپنے باپ کے ہولیہ کی شکل میں شرک کو نیست و نابود کر دیا۔آپکا یہ عمل اللہ رب العزت کو اتنا پسند آیا کہ اللہ رب العزت نے آپکی شان میں درج ذیل آیت نازل کر فرما دی۔۔۔☜

”لاتجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوآدون من حآد اللہ و رسولہ ولو کانوا آبآءھم او اخوانھم او عشیرتھم اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدھم بروح منہ و یدخلھم جنة تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا رضی اللہ عنھم  ورضوا عنہ اولئک حزب اللہ الا ان حزب اللہ ھم المفلحون۞

ترجمہ:☜ تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت رکھتے ہیں۔جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کی ہے خواہ وہ انکے باپ ہو یا بیٹے ، یا انکے بھائی ، یا انکے اہل خانہ، یہ وہ لوگ ہیں جنکے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے انکو قوت بخشی ہے۔وہ انکو ایسی جنتوں میں داخل کریگا۔جنکے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہ اسی میں ہمیشہ رہیگے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں۔خبردار اللہ کا گروہ فلاح پانے والا ہے۔(سورة المجادلہ 22)

حضرت ابو عبیدہؓ کے لیے یہ کوئی انوکھا کارنامہ نہیں تھا۔وہ تو اپنی قوت ایمانی اور جذبہ دینی اور امت محمدﷺ میں امانت و دیانت کے اس اعلی مقام پر فائز تھے جسکے لئے بڑی بڑی ہستیاں اللہ سبحانہ تعالی کے یہاں آرزو مند رہتی ہیں۔

غزوۂ احد میں شرکت:☜

غزوۂ احد میں جب عارضی طور پر مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ایک مشرک بڑے غضب ناک انداز میں چلا رہا تھا کہ مجھے بتاؤ مسلمانوں کا محمدﷺ کہاں ہے؟ اس نازک وقت میں حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ ان دس جانثار صحابہؓ میں سے تھے جنہوں نے نبی کریمﷺ  کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے سینوں پر دشمنوں کے تیر کھا کر نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی جانب سے دفع کا فریضہ سر انجام  دیا۔

جب جنگ کا زور ختم ہوا تو صورت حال یہ تھی کہ “آپ نبی کریم ﷺ کے داندان مبارک شہید ہو چکے تھے۔ آپ ﷺکی پیشانی مبارک زخمی ہو چکی تھی اور آپﷺ کے رخسار مبارک میں دو خود کے حلقے پیوست ہو چکے تھے۔آپﷺ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیقؓ تیزی سے آگے بڑھے تاکہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک میں دھنسے خود کے حلقہ کو نکال دیں۔ اتنے میں حضرت ابو عبیدہؓ نے آگے بڑھ کر یہ عرض کیا کہ خدارا اس خدمت کا موقعہ مجھے عطا کریں۔ آپ کا شوق دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیقؓ ایک جانب ہو گئے۔

حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر ہاتھ سے یہ حلقہ نکالے گئے تو اس سے رسول اللہﷺ کو بہت تکلیف ہوگی۔ تو آپ نے اس طرح کیا کہ اپنا ایک دانت مضبوطی سے ایک حلقہ میں پیوست کر دیا۔اور پورے زور اسے دانت سے دبا کر رخسارے مبارک سے باہر نکال دیا۔لیکن اس جستجو میں آپ کا وہ دانت ٹوٹ گیا۔ پھر دوسرے حلقہ میں اپنا دوسرا دانت پیوست کر دیا اور اسی طرح دوسرا حلقہ بھی نکال دیا اور اس کوشش میں آپ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ ان دونوں دانتوں کے ٹوٹ جانے کے باوجود ابو عبیدہ بن جرح نہایت خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ تمام غزوات میں نبی کریمﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کو محبوب ہوگئے۔ فرمان رسولﷺ “ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جرحؓ ہیں”  :☜

سقیفہ بنی سعدہ میں بیعت خلافت کے دن حضرت عمر بن خطابؓ نے جناب ابو عبیدہ بن جرحؓ سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھایئں! تاکہ میں آپکی بیعت کروں۔ کیونکہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ “ہر امت کا امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جرحؓ ہیں۔” لیکن ابوعبیدہ بن جرحؓ نے فرمایا کہ میں اس عظیم ہستی سے بھلا کیسے سبقت لے سکتا ہوں  جسے رسولﷺ نے  اپنی زندگی میں ہمارا امام مقرر کر دیا ہو۔

اسکے بعد تمام صحابہ اکرامؓ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بالاتفاق بیعت کی۔ حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ آپکے دور خلافت میں آپ کے معاون اور خیر خواہ رہے۔جب صدیق اکبرؓ نے اپنی وفات سے پہلے امیر المؤمنین فاروق اعظمؓ کو خلیفة المسلمین نامزد فرما دیا تو حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ آپ فاروق اعظمؓ کے پورے دور خلافت میں آپ کے معاون و مددگار اور اطاعت شعار رہے اور صرف ایک حکم کے علاوہ کبھی کسی حکم میں حکم عدولی نہیں کی۔

کیا آپکو معلوم ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ نے خلیفة المسلمین کے کس حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا؟؟؟ واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ ملک شام میں لشکر اسلام کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور بڑی تیزی سے شہر در شہر فاتح ہوتے جا رہے تھے۔پورا ملک شام بھی فتح ہو گیا اور اسلامی حکومت کی سرحدیں مشرق سے لیکر دریائے فرات تک اور شمال میں ایشیائے کوچک تک پہنچ گئی تھی۔جب فتوحات کا سلسلہ پورے نکتہ عروج پر تھا۔عین اس موقع پر شام میں طاعون کی ایسی خطرناک وباء پھیلی جسکی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔لوگ بڑی تیزی سے اس بیماری کا شکار ہو رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو فوراً ایک قاصد کو خط دیکر  حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ کی جانب روانہ کیا۔

خط میں لکھا تھا کہ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری کام ہے کہ ” خط ملتے ہی فوراََ میری طرف چل پڑیں۔ رات کو خط  ملے تو آپ دن کا انتظار نہ کرنا اور دن کو ملے تو رات کا انتظار نہ کرنا۔ جب حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ نے فاروق اعظمؓ کا خط پڑھا تو فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ امیرالمؤمنین کو مجھ سے کیا ضروری کام ہے۔دراصل وہ ایک ایسے شخص کو باقی رکھنا چاہتے ہیں جو ہمیشہ باقی رہنے والا نہیں ہے۔پھر امیرالمؤمنین کو اس خط کا یہ جواب تحریر کیا؛

“امیرالمؤمنین ! بعد از تسلیمات عرض ہے کہ مجھے یہ علم ہے کہ آپکو میرے ساتھ کیا ضروری کام ہے۔میں اس وقت لشکر اسلام میں ہوں۔آج مسلمان جس مصیبت میں مبتلاء ہیں میں اس نازک حال میں انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ نہ ہی میں ان سے جدا ہونا چاہتا ہوں۔یہاں تک کہ رب ذوالجلال میرے انکے متعلق اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔مجھے آپ اس سلسلہ میں معذور سمجھتے ہوئے ان مجاہدین  اسلام میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔          
                 والسلام

                                   جب یہ خط امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کو پہنچا اسے پڑھ کر آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسوں جاری ہو گئے۔آپکے پاس بیٹھے ہوۓ صحابہ اکرامؓ نے آپ کو زار و قطار روتے ہوئے دیکھ کر دریافت کیا کہ کیا حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ فوت ہو گئے؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن موت اب انکے بہت زیادہ نزدیک ہے۔اس سلسلہ میں حضرت فاروق اعظمؓ کا اندازہ غلط نہ تھا۔

کچھ عرصہ بعد ہی حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ طاعون کی بیماری میں مبتلاء ہو گئے۔جب موت کا وقت قریب آیا تو لشکر اسلام کو آپ نے وصیت فرمائی۔

وصیت و وفات :☜

  • حضرت ابو وبیدہ بن جرحؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں اگر تم نے اسے تسلیم کیا تو ہمیشہ خیریت سے رہوگے۔۔۔۔۔سنو!☜
  • نماز قائم کرنا۔
  • رمضان مبارک کے روزے رکھنا۔
  • صدقہ خیرات کرتے رہنا۔
  • حج بیت اللہ کرنا۔
  • عمرہ اداء کرنا۔
  • آپس میں ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے رہنا۔
  • اپنے حکمرانوں سے خیر خواہی کے ساتھ پیش آنا۔
  • اور انہیں کبھی دھوکہ نہ دینا۔
  • دیکھنا کہ دنیا تمہیں کہیں غافل نہ کردے۔

میری بات غور سنو! اگر کسی شخص کو ایک ہزار سال کی عمر  بھی مل جائے تو اسکا ایک دن یہی حال ہوگا جو آج میرا دیکھ رہے ہو۔موت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔سب کو میری طرف سلام اور تم پر خدائے ذوالجلال والاکرام کی رحمت ہو۔ پھر حضرت معاذ بن جبلؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ معاذؓ لوگوں کو نماز پڑھایا کرے۔۔۔۔۔اچھا خدا حافظ۔
یہ کہا اور آپکی پاکیزہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ پھر اس موقعہ پر حضرت معاذ بن جبلؓ اٹھے اور ارشاد فرمایا۔۔۔۔

لوگوں! آج تم ایک ایسی شخصیت کے غم میں مبتلا ہو خدا کی قسم میں نے ان سے بڑھ کر نیک دل، حسد و بغض سے پاک سینہ، آخرت سے بہت زیادہ محبت کرنے والا  اور عوام الناس کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنے والا کسی اور کو نہ پایا۔سب مل کر اللہﷻ سے دعا کرو کہ اللہﷻ ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔