ادب اور سماج کا باہمی رشتہ

0

قدیم ادبیات میں ادب کو عموماً علم یا علوم کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا۔بعض کتابوں میں ادب کو فن اور اس کی مختلف شاخوں کو ضنون ادب سے تعبیر کیا گیا۔جس کا اصول تہذیب اس ساستگی کے لیے ضروری تھا۔ موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے ادب کی وصیت کو دیکھتے ہوئے چند جملوں میں اس کی تعریف کرنا مشکل ہے۔ ویرن وبلیک نے ادب کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

“ادب بڑی کتابیں ہیں وہ کتابیں ہیں جو ادبی ہئت اور تجربے سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن اس بات کو کلیہ کی صورت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔”

ڈاکٹر سید عبداللہ نے ادب کی جامع تعریف کی ہے، فرماتے ہیں:
”ادب ایک فن لطیف ہے۔ اس کا موضوع زندگی ہے۔ جس کا مقصد اظہار و ترجمانی و تلقین ہے۔ اس کا سرچشمہ تحریک احساس ہے۔ اس کا معاون اظہار و خیال اور قوت ہیں۔ اس کا خارجی روپ وہ حسین اور خوبصورت پیرائے ہاے اظہار ہے جو لفظوں کی مدد سے تحریک کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اس فن لطیف میں الفاظ مرکزی حیثیت اختیار رکھتے ہے ‌اور وہی چیز اسے باقی فن لطیف سے جدا کرتی ہے ورنہ شدت تاشیر اور یہی اسے باقی فن لطیف سے جدا کرتی ہے۔ورنہ شدت، تاشیر اور تخیل کی معوری واحترام کا عمل کا ذریعہ ہے۔

ادب میں دراصل زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینہ میں پیش کرتاہے۔ یہ انسانی زندگی کی ایسی تصویر ہے۔جس میں جذبات و احساسات کے علاوہ مشاہدات تجربات اور خیالات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اس میں تاریخی ،حقیقت زندگی کی سچائی فن کے صحیح احساس کا ہونا بھی ضروری ہے‌۔