جفا یا وفا

0

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا مشہور شعر ہے۔

آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

ہم لوگ جس طرح تقسیم ہورہے ہیں یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہم خود کو نہ تو ایک قوم کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ایک مذہب۔ ہم پہلے زبان کی وجہ سے تقسیم ہؤے پھر صوبائیت نے ہمیں تقسیم کیا۔ اس کے بعد انگلیش میڈم اور اردو میڈیم نے اپنے اثرات چھوڑے ۔ رہی سہی کسر سیاسی جماعتوں نے پوری کردی۔

ایک ہی گھر میں شدید تقسیم اور اختلاف لیکن یہاں بھی بس نہیں ہوئی تو ہم نے خود کو امت کہنا ہی چھوڑ دیا۔ کوئی سنی ہے کوئی شعیہ اور کوئی وہابی ہے تو کوئی کچھ۔

آپ جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی ہے۔ اپنی مرضی کرنے والے افراد اپنے کام میں مگن کوئی زندگی کو قریب سے دیکھ رہا ہے تو کوئی زندگی کو دور کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کوئی زندگی میں رنگ بھر رہا ہے تو کوئی زندگی سے جنگ لڑ رہا ہے۔ کوئی ماضی کو یادوں میں رکھتا ہے تو کوئی مستقبل بنانے میں لگا ہے۔ کوئی روزگار کی تلاش میں ہے اور کسی سے روزگار چھینا جارہا ہے۔
بس زندگی گزر رہی ہے کسی کی شوق سے کسی کی مجبوری سے،کسی نے محنت کرکے زندگی کو دیکھا تو کسی نے پیدا ہوتے ہی زندگی کی رنگینیاں دیکھ لی۔

ہر انسان کا مزاج مختلف ہے کوئی تجر بہ کرکے سیکھتا ہے، تو کوئی دوسروں کی طرف دیکھ کر سیکھ لیتا ہے ۔ ایک جیسی سوچ رکھنے والے، ایک جیسا مزاج رکھنے والے لوگ جب معاشرہ بناتے ہیں تو مسائل کا سامنا ان لوگوں کو ہوتا ہے جو اس معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں مگر اپنی سوچ اور مزاج ان لوگوں کی طرح نہیں رکھتے۔ اور یہاں سے معاشرے میں بد نظمی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ایسا فرد اس معاشرے میں پیدا ہوگیا جو سچ کو حق کہتا ہے،جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے ، کوئی کام چھپ کر نہیں کرتا اور لوگوں کے مسئلے بات چیت کے ذریعے حل کرتا ہے۔ تو لوگ اس کو قبول نہیں کرتے؟ اس کی نسبت ایسے افراد جو صرف باتیں کرنا جانتے ہیں علمی طور پر کچھ نہیں کرتے ان کو ہمارے معاشروں نے خود قبول کیا۔ ایک فرد کی وجہ سے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے مگر کیوں؟؟

کیوں اس معاشرے کو بنائیں ؟ کیوں متحد ہو کر رہیں؟ دھوکے بازی نہیں کریں گے تو مزہ کیسے آئے گا؟ چوری نہیں کریں گے تو بہادر کیسے بنے گے؟ گالیاں نہیں دے گے تو جذبات کیسے آئیں گے؟ پیٹھ پیچھے برائیاں نہیں کریں گے تو لڑائی نہیں ہوگی، لڑائی نہیں ہوگی تو سکون کیسے آئے گا ؟ چالبازی، فتنہ، فساد نہیں کریں گے تو ذہانت کا پتہ کیسے چلے گا؟
“یہ معاشرے کے ساتھ جفا ہے یا وفا”
کہتے ہیں کہ جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی جائے گی ویسے ویسے بڑائی عام ہوتی جائے گی۔ تمام لوگ جو پہلے ہی عقل پر زور کم دیتے ہیں وہ بالکل ہی سوچنا چھوڈ دے گے۔

معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے۔ لہزا معاشرے کو برا کہنا غلط ہے۔ ہاں جو معاشرے میں شامل لوگ ہیں۔ اور وہ معاشرے کو خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کی پکڑ لازم ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی پکڑ کریں گا کون؟؟

ہمارے پاس %96 لوگ اس بات کو بالکل نظر انداز کرتے ہیں اور اس بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہمارے ہاں صحیح چیزوں کی جگہ ہمیشہ غلط کو دی جاتی ہے۔ انصاف کی جگہ چوری نے لے لی، خوشبوں کی جگہ بدبو نے لے لی، حسن کی جگہ ہوس نے لے لی اور سوچ کی جگہ بند عقل نے لے لی۔

ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی معاشرے کے لوگوں کی پہچان کرنے سے قاصر ہیں، زبان رکھتے ہوئے بھی بولنے سے ڈرتے ہیں، دماغ رکھتے ہوئے بھی سوچتے نہیں اور ہاتھ پاؤں ہوتے ہوئے بھی سیدھی راہ پر نہیں چلتے ہیں۔ ایک مکمل انسان ہو کر بھی ادھورے ہیں۔ اندرونی ساخت کو کالا کرتے جا رہے ہیں۔ اندر سے خالی ہیں ہم۔

صورت اچھی رکھ کر بھی ہم سیرت کو خالی کر رہے ہیں۔ یہ ہیں ہم اور ہمارے معاشرے کے افراد ۔۔۔ جو جیسا کر رہا ہے کرنے دوں، مت بولو کہ بولنے والے کی زبان کاٹ دی جائے گی، مت ہمت کرو کہ لوگ تھکا دے گے، مت سوچو کہ لوگ پاگل کر دے دیتے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھوں، جو دیکھا ہے اسے بھول جاؤ، اپنا کام کرتے جاؤ۔

مگر ایمانداری، انصاف، سچ، محنت، حوصلہ اور جذبہ لگن اپنے اندر ہی رکھو۔ سب کے ساتھ اچھے رہو اور اچھا کرو مگر اپنے لیے۔
کیا معاشرے کے ساتھ یہ نا انصافی نہیں؟
کیا یہ معاشرے کے ساتھ جفا ہے یا وفا؟؟
“ہمارا المیہ یہ ہے کہ پہلے معاشرے پر ڈرامے بنائے جاتے تھے۔ آج ڈراموں سے معاشرہ بنایا جا رہا ہے”

تحریر عدن شہزادی