Afsana Do Shala By Jeelani Bano | افسانہ دو شالا کا خلاصہ

0

سبق نمبر09:افسانہ
مصنف کا نام: جیلانی بانو
سبق کانام:دو شالہ

افسانہ دو شالا کا خلاصہ

یہ سبق “جیلانی بانو” کا افسانہ ہے۔ افسانے کا عنوان “دوشالہ” ہی اس کی تمام کہانی کو بیان کرتا ہے۔ دو شالہ کے ساتھ ساتھ افسانے کا مرکزی کردار اس کہانی کی دادی اماں ہیں جو اپنی بہو، پوتے،پوتی اور بیٹے سرور کے ساتھ ہندوستان میں رہائش پذیر ہیں۔جبکہ ان کے باقی تین بیٹے اور ان کی اولادیں پاکستان میں مقیم ہیں۔

دادی جو ایک زمانے میں پورے گھر پر راج کرتی تھیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ایک کمرے تک مقیم ہو کر رہ گئیں۔ جہاں اس کمرے میں موجود صندوق میں انھوں نے اپنی تمام زندگی کی یادوں کو مختلف نشانیوں کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ ان کی بہو کے مطابق جو چیز بے فائدہ یا ناکارہ ہوتی اسے وہ ضرورت کی کہہ کر سنبھال لیتی تھیں۔

ان کے صندوق میں پرانے کھلونے،ٹوٹے فانوس کے ٹکڑے،ٹوٹے چینی کے برتن،کپڑوں کی کترنیں غرض ہر شے موجود تھی۔لیکن ان میں سب سے قیمتی ان کے مرحوم دادا کا دو شالہ تھا۔اس کا کپڑا اگرچہ گل چکا تھا مگر اس پر بہت زیادہ چاندی کا کام موجود تھا۔اماں جان دو شالے کی حفاظت کے لیے ہر وقت اپنی جان ہلکان کیے رہتی تھیں۔ خواہ وہ کہیں بھی جاتی تھیں اپنے دادا جان کے دو شالے کی حفاظت ان پر لازم تھی۔

انھوں نے اس کو اپنے صندوق میں بہت حفاظت کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ انھوں نے کبھی اس دو شالہ کو باہر نہ نکالا تھا مگر کبھی کبھار اپنی بہو کو جتا ضرور دیتی کہ ان کے پاس اتنا قیمتی دو شالہ کہ وہ چاہیں تو اپنے بیٹے کی قسمت بدل ڈالیں۔

ایک روز جب اماں جان کسی فوتگی پر گئیں تو ان کی بہو نے ان کا یہ قیمتی دو شالہ نکال کر گھٹری میں پرانی رضائی کو سی دیا اور تمام چیزوں کو واپس سے ایسے جما دیا کہ سوائے گرد کے وہاں سے کچھ غائب نہ ہوا۔ اماں جان کا پاکستان جانے کا ارادہ بنا تو انھوں نے کوٹھری پر ایک بڑا تالا لگایا اور اپنی تمام متاع اپنی بہو اور بیٹے کے حوالے کر کے اپنی یادوں کو سمیٹے چل دی۔

پاسپورٹ کے کسی مسئلے کی وجہ سے انھوں ایک ہفتہ دہلی میں قیام کرنا پڑا۔ جس روز وہ یہاں سے جانے لگی اسی روز ان کے ساتھ سرور کے پیچھے گئے ساتھی کو ان کے پوتے کا پوسٹ کارڈ موصول ہوا جس کا متن یوں تھا کہ دادی جان میں نے اور جمالو نے سارا کمرا چھان مارا مگر دادا کا تاریخی دو شالہ کہیں نہ ملا۔جیسے ہی اماں نے یہ سنا تو وہ اپنی اس قیمتی متاع ،اپنی شان کو ڈھونڈنے فوراً وہاں سے روانہ ہو دیں۔ جو کہ اب وہاں موجود ہی نہ تھی۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر 01:اماں جان کو دو شالے سے لگاؤ کیوں تھا؟

وہ دوشالہ ان کے دادا جان کا تاریخی دو شالہ تھا جس کی وجہ سے ان کو اس سے دلی لگاؤ تھا۔

سوال نمبر02:اماں جان دو شالے کی حفاظت کے لیے کیا کیا تدبیریں کرتی تھیں؟

اماں جان دو شالے کی حفاظت کے لیے ہر وقت اپنی جان ہلکان کیے رہتی تھیں۔ خواہ وہ کہیں بھی جاتی تھیں اپنے دادا جان کے دو شالے کی حفاظت ان پر لازم تھی۔ انھوں نے اس کو اپنے صندوق میں بہت حفاظت کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ انھوں نے کبھی اس دو شالہ کو باہر نہ نکالا تھا مگر کبھی کبھار اپنی بہو کو جتا ضرور دیتی کہ ان کے پاس اتنا قیمتی دو شالہ کہ وہ چاہیں تو اپنے بیٹے کی قسمت بدل ڈالیں۔

سوال نمبر03:”ان کی کوٹھری میں ہزار کینڈل پاور کا بلب تھا جس کی روشنی میں کوئی راہ کھٹن نہ لگتی تھی” اس جملے کی وضاحت کیجئے۔

مصنف نے یہ جملہ دادی اماں کے بارے میں لکھا ہے کہ جن کی کوٹھری میں انھوں نے اپنی زندگی کی تمام یادوں کو سنبھال کر حنوط کر رکھا تھا۔ مگر ان کی کوٹھری میں موجود ہزار کینڈل کا بلب اس کو اتنا روشن کیے ہوئے تھا کہ اس سے ان کی زندگی کی مشکلات اور اندھیرے بھی ان کو نہ دکھائی دیتے۔ ان کی کل کائنات ان کی کوٹھری تھی۔اس وجہ سے انھیں یہ لگتا تھا کہ کوٹھری کی روشنی کی طرح ہی زندگی کے باقی رستے بھی روشن ہیں اور آگے کوئی مشکل رستہ نہیں ہے۔

سوال نمبر04:توقیر کا خط صحیح الفاظ کے ساتھ لکھیے۔

دادی جان
السلام علیکم اور قدم بوسی
یہاں سب خیریت ہے اور آپ کی خیریت نیک متلوب۔ دیگر اہوال یہ ہے کہ جناب لکڑ دادا صاحب کا دو شالہ کہیں نہ ملا۔ میں نے اور جمالو نے سارا کمرا چھان مارا۔ برا کرم بواپسی ڈاک متلے فرمائیے کہ آپ دو شالہ کہاں رکھ گئی ہیں۔۔۔۔۔!
جمالو آپ کو سلام لکھوا رہی ہے۔
فقط
آپکا خادم
توقیر مرزا۔متعلم جماعت پنجم(الف)ٹ
بقلم خود