لہروں کی بیٹی

0

لیاقت علی کا گھر بہت ہی خوش حال اور پر سکون تھا ۔ ان کے گھر میں ایک بیٹی ، ایک بیٹا اور وفا شعار بیوی تھی ۔ لیاقت علی پیشے سے درزی تھا اور اپنے گھر کا خرچہ اُٹھاتا تھا۔ لیاقت علی نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دی اور اچھی تربیت بھی کی ہے۔ دین اور دنیا کی تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ بچے تعلیم یافتہ ہے اور بیوی سلیقہ مند جس نے بچوں کی اعلیٰ تربیت میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی۔ لیاقت علی کی بیٹی عائشہ نے ماسٹرز مکمل کیا تھا اور اب وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی اپنے باپ سے اِس بارے میں مشورہ کرتی تھی۔

عائشہ: پاپا میں نے ماسٹرز مکمل کیا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ میں آگے بڑھوں اور آپ کا نام روشن کروں۔ میں پی-ایچ-ڈی کرنا چاہتی ہوں پاپا۔ میں چاہتی ہوں کہ میں کچھ الگ کروں، کچھ ایسا کہ دنیا کو آپکی دی یوئی تربیت پر فخر ہو۔ میں آپ دونوں کا نام پوری دنیا میں روشن کرنا چاہتی ہوں۔

لیاقت علی: بیٹا تمہاری بات بلکل صحیح ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری بیٹی کچھ بھی کر سکتی ہے اور بیٹا مجھے ناز ہے کہ تم ہماری بیٹی ہو۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب میں تمہاری شادی کروں۔
عائشہ: لیکن پاپا میں پہلے پڑھائی مکمل کرنا چاہتی ہوں۔ اتنی جلدی کیا ہے شادی کی۔
لیاقت علی: مجھے کوئی جلدی نہیں ہے بیٹا لیکن یہ معاشرہ اس سماج کو جلدی ہوتی ہے۔ باپ بیٹی کی شادی وقت پر نہ کریں تو یہ سماج اُس کو چھوڑ دیتا ہے۔ میں نہیں چاہتا میری بیٹی کے ساتھ کچھ ایسا ہو۔
عائشہ: لیکن پاپا سماج کا میری شادی سے کیا واسطہ جب ہوگی تب۔
لیاقت علی: سماج کو ہی تو واسطہ ہوتا ہے بیٹا، ہر چیز سے، بیٹی آباد ہو یا غیر آباد ، میکے میں ہو یا سُسرال میں، خوش ہویا غمگین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر چیز میں سماج کی مداخلت لازمی ہوتی ہے۔ اور بیٹا میری خواہش ہے کہ اب تمہاری شادی کروں۔ مجھے یقین ہے میری بیٹی مجھے نا امید نہیں کریں گی۔

عائشہ: جی پاپا آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر، لیکن میری پڑھائی۔۔۔۔۔۔
لیاقت علی: پڑھائی سُسرال جاکر مکمل کر لینا۔
عائشہ: کیا وہ مجھے پڑھنے دیں گے۔
لیاقت علی: کیوں نہیں بیٹا تم اتنی ذہین اور پیاری بچی ہو کیوں نہیں پڑھنے دیں گے کوئی نہیں روکے گا ۔ مجھے یقین ہے تم اپنی اچھائیوں کی وجہ سے سب کو اپنا بنا لو گی۔
عائشہ: جی پاپا میں آپ کی تربیت پر آنچ بھی نہیں آنے دوں گی۔ مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور یے۔ میں جانتی ہوں آپ میرے لئے جو فیصلہ لیں گے وہ بہتر ہی ہوگا۔

اِس کے بعد لیاقت علی نے اپنی بیٹی کے لئے رشتہ ڈھونڈنا شروع کیا اور ایک بہت ہی اچھے گھر میں اپنی بیٹی کی شادی طے کر دی۔ لیاقت علی سے اپنی بساط کے مطابق جو بھی ہو سکا وہ اُس نے اپنی بیٹی کے لئے کیا۔ زمین آسمان ایک کر کے اپنی بیٹی کا سامان جوڑا اور بڑی دھوم دھام سے اپنی بیٹی کو رخصت کر دیا۔

عائشہ کی شادی عارف سے ہوگئی اور اُس نے اپنا سب کچھ اپنے شوہر کے نام کردیا۔ اپنی ہر امید اپنے شوہر سے وابسطہ کر لی۔
شادی کے بعد عائشہ اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش تھی۔ اُن کی زندگی بہت اچھے سے بسر ہو رہی تھی، وہ دونوں اپنی زندگی خوب مزے سے گزار رہے تھے، سیر سپاٹے کرتے تھے، ہنستے کھیلتے تھے غرض دونوں بہت خوش تھے۔ لیکن شادی کے کچھ عرصے بعد ہی عائشہ کے سُسرال والوں کا نقاب اُترا اور وہ لوگ عائشہ کو ستانے لگے۔ بات بات پر جہیز نہ لانے کے طعنے دینے لگے۔ اُس کو تنگ کرنے لگے کہ وہ جاکر اپنے باپ سے جہیز لے آئیں۔

عائشہ نے تنگ آکر اپنی ماں آمنہ سے شکوہ کیا تو وہ عائشہ کو دلاسے دینے لگی۔
عائشہ: امی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا جب عارف، پاپا کے خلاف کچھ بولتا ہے تو۔ میں اتنا کچھ تو لے گئی تھی پھر بھی عارف اور اُس کی امی مجھے طعنے دیتے ہیں کہ میں خالی ہاتھ آگئی تھیں۔
آمنہ: بیٹا کوئی بات نہیں صبر کرو سب ٹھیک ہو جائیں گا۔ میں تمہارے پاپا سے بات کرتی ہوں اور اُن سے کہتی ہوں کہ تمہارے لئے کچھ اور سامان لیں لے۔ تاکہ تمہارے سُسرال والوں کا منھ بند ہو جائیں۔
عائشہ: لیکن امی جان پاپا اب تک شادی کا قرضہ نہیں اُتار پائیں مزید سامان کا انتظام کہاں سے کریں گے اور میں جہیز تو لے گئی تھی جتنا ہوسکتا تھا اور کیوں دوں۔

آمنہ: کیونکہ بیٹا یہ اُن کی مانگ ہے اور اگر کچھ اور سامان دینے سے ہماری بیٹی کی زندگی میں سکون آسکتا ہے تو کیوں نہ دے۔ یہ تمہاری زندگی کا سوال یے بیٹا اور یہ ننھی سی جان جو تمہاری کوکھ میں پل رہی ہے اِس کو بھی تو باپ کی محبت ملنی چاہیے نا۔
عائشہ: امی میں پاپا کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔
آمنہ: نہیں بیٹا اِس میں کیسی پریشانی تم خوش تو ہم خوش تم خوشی سے اپنے گھر جاؤ۔ میں اور تمہارے پاپا کچھ دنوں میں آتے ہیں۔
اس کے بعد لیاقت علی وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ اپنی بیٹی کے ہاں دے آتا تھا۔ لیکن عائشہ کے سُسرال والے باز نہیں آئے وہ مسلسل عائشہ کو تنگ کرتے رہے، مارتے ، پیٹتے اور مسلسل اذیت دیتے رہے۔ ایک دن عائشہ تنگ آکر اپنے شوہر سے مخاطب ہوتی ہے۔
عائشہ: عارف آپ کی امی نے آج بھی مجھے بہت مارا آپ اُنہیں کچھ کہتے کیوں نہیں۔

عارف: وہ امی ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں، وہ جو چاہے کر سکتی ہیں، مجاز ہے وہ۔
عائشہ: اور میں عارف، میں بھی تو آپ کی بیوی ہوں، بیاہ کر کے لائے ہیں آپ مجھے، خود نہیں آئی ہوں۔
عارف: بات تو تم صحیح کر رہی ہو لایا تو تمہیں میں ہی تھا لیکن کیا پتہ تھا کہ خالی ہاتھ آجاؤ گی، پتہ ہوتا تو نہ لاتا۔
عائشہ: خالی ہاتھ! جو جہیز کا اتنا سارا سامان ساتھ لائی ہوں وہ کیا ہے، وہ ہضم نہیں ہوا۔
عارف: جہیز کا سامان لانے سے کچھ نہیں ہوتا پیسے چاہیے ہوتے ہیں پیسے بلکہ میں ایک کام کرتا ہوں تمہیں آج میکے لے جاتا ہوں وہاں اپنے باپ سے پیسے مانگ لو ورنہ طلاق کے لئے تیار رہنا۔
عائشہ: کیا طلاق! عارف میں ماں بننے والی ہوں اور تم مجھے طلاق کی دھمکی دے رہے ہو۔

عارف: ماں بننے والی ہو اسی لئے تو کہہ رہا ہوں اپنے باپ سے پیسے مانگ لاؤ خرچہ بڑھنے والا ہے تو پیسے کام آئیں گے۔
۔عائشہ: نہیں عارف میں کہیں نہیں جا رہی ہوں اور نہ ہی کسی سے کچھ مانگ رہی ہوں۔ میرے پاپا جو کچھ کر سکتے تھے انہوں نے کیا اور میرے لئے اتنا سارا جہیز جوڑا اب میں اُن سے کچھ نہیں کہوں گی۔ تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔
عارف: اپنے باپ سے کچھ نہیں کہہ سکتی تو ٹھیک ہے پڑی رہو اسی کمرے میں۔ آج سے تمہارا کھانا پینا بند۔
عارف عائشہ کو کمرے میں تالا لگا کر چلا گیا، عائشہ دروازہ پیٹتی رہی، اپنے ساس کو آوازیں دیتی رہی پانی مانگتی رہی، لیکن کسی نے اُس کی مدد نہیں کی اور عائشہ بھوک پیاس سے نڈھال ہوکر گر پڑی۔ چار دن تک کسی نے اُس کو پانی تک نہیں پلایا اور چار دن بعد عارف کمرے میں داخل ہوتا ہے اور عائشہ سے کہتا ہے۔

کیوں بیگم آگئے ہوش ٹھکانے، دیکھ لیا میں کیا کر سکتا ہوں، اب تو میری بات ماننے سے انکار نہیں کرو گی نا اپنے باپ سے جاکر بات کرو گی نا۔
عائشہ: نڈھال ہوکر ، نہیں بلکل بھی نہیں، میں کہیں نہیں جاؤں گی، چاہے تم مجھے مار ڈالو۔
عائشہ کی بات سُن کر عارف کو غصّہ آگیا اور اُس نے عائشہ کے بال کھینچ کر اُس کو دیوار سے دے مارا اور اُس کو اتنا پیٹا کہ اُس کا بچہ تک ضائع ہوگیا، اُس کو ہسپتال لے جانا پڑا اور بڑی مشکل سے جان بچ گئی لیکن اِس کے باوجود بھی عارف باز نہیں آیا اور وہ عائشہ کو میکے چھوڑ آیا اور واپس لے جانے کی شرط ڈیڑھ لاکھ روپے رکھ لی اور اپنے سُسرال والوں کو دھمکی دی کہ اگر اُنہوں نے پیسے نہیں دیے تو اپنی بیٹی کے طلاق کے لئے تیار ہو جائیں۔ عائشہ کے والدین نے زمین آسمان ایک کر کے پیسے جمع کئے اور اپنی بیٹی کو طلاق سے بچا لیا۔

پیسے مل جانے کے بعد عائشہ کے سُسرال والوں کا لالچ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا اور وہ آئیں روز عائشہ کو جہیز کے نام پر مذید تنگ کرتے گئے اور اُس کو لوٹتے گئے۔
عارف: عائشہ اپنے باپ سے جا کہہ دو مجھے پیسے چاہیے، مجھے پیسے لاکر دو۔
عائشہ: پیسے! کیسے پیسے عارف؟
عارف: پیسے اور کیسے۔
عائشہ: کچھ وقت پہلے ہی تو ڈیڑھ لاکھ دئے تھے انہوں نے، اب اور پیسے کہاں سے لائے گے۔
عارف: میں نہیں جانتا کہ کہاں سے لائے گئے اور ڈیڑھ لاکھ تو تھوڑی سی رقم ہوتی ہے۔ لوگ تو جہیز میں لاکھوں لے آتے ہیں لاکھوں، اور میں بھیک تو نہیں مانگ رہا ہوں جہیز کے پیسے مانگ رہا ہوں یہ میرا حق ہے۔

عائشہ: عارف اتنا کچھ تو دے چکے ہیں پاپا تمہیں، کیا اتنا کچھ ادا کرنے کے بعد بھی جہیز کی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی۔
عارف: جی نہیں۔ آج جاکر اپنے باپ سے بات کرلو۔ بلکہ تیار ہو میں تمہیں خود چھوڑ کر آتا ہوں۔
عارف عائشہ کو اُس کے میکے چھوڑ آیا اور اُس کے گھر والوں سے مزید لاکھ روپیوں کا مطالبہ کیا۔
لیاقت علی: لیکن بیٹا میں نے پیسے تو دے دئے تھے اب اور پیسے کہاں سے لاؤں گا۔
عارف: میں نہیں جانتا۔ اگر پیسوں کا انتظام نہیں کر سکتے تو رکھے اپنی بیٹی کو اپنے پاس۔ مجھے نہیں چاہیے یہ بوجھ اور یہ کہتے ہی وہاں سے چلا گیا۔
عائشہ اور اُس کے گھر والے عارف کی بات سُن کر ٹوٹ گئے۔ ماں باپ اپنی بیٹی کو دلاسے دیتے رہے اور پیسوں کا انتظام نہیں ہو پایا تو اُن لوگوں نے عارف کے خلاف کیس دائر کر لیا۔
عائشہ نے عارف سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اُس نے رابطہ نہیں کیا۔ آج بھی وہ صبح سے ہی عارف کو لگاتار فون ملا رہی تھی اور بڑی مشکل سے عارف نے کال اٹھا لی۔
عائشہ: عارف آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہے۔ مجھے یہاں کیوں رکھا ہے مجھے آکر لے جائیں مجھے نہیں رہنا ہے یہاں، میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔

عارف: میرے بغیر نہیں رہ سکتی تو ٹھیک ہے کہہ دو اپنے باپ سے مجھے پیسے دیں دے میں آکر لے جاؤں گا۔
عائشہ: لیکن عارف وہ اتنی ساری رقم کہاں سے لائیں گے۔
عارف: تو ٹھیک ہیں کر دو مجھے آزاد، چھوڑ دو میرا پیچھا۔
عائشہ: عارف آپ نہیں آئیں تو میں جان دے دوں گی۔
عارف: تو ٹھیک ہے جا کے کہیں مر جاؤ کہیں ڈوب جاؤ مرنے کا شوق ہے مرو اور ہاں مرنے سے پہلے مجھے ویڈیو بنا کے دینا تاکہ مجھ پر کوئی بات نہ آئیں ۔عائشہ عارف کی بات سُن کر سابرمتی ندی پر چلی گئی اور وہاں جاکر ویڈیو بنا لی۔

” ہیلو اسلام علیکم میرا نام ہے عائشہ عارف خان۔ میں جو کچھ بھی کرنا چاہتی ہوں اُس میں کسی کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اب بس کیا کہیں! سمجھ لیجئے خدا کی دی ہوئی زندگی بس اتنی ہی تھی اور مجھے اتنی زندگی بہت سکون والی ملی اور ڈیر ڈیڈ کب تک لڑیں گے اپنوں سے کیس واپس لے لو۔ عائشہ لڑائیوں کے لئے نہیں بنی۔ پیار کرتے ہیں عارف سے اُس سے پریشان تھوڑی کریں گے۔ اگر اُس سے آزادی چاہیے تو ٹھیک ہے وہ آزاد رہے۔ چلو اپنی زندگی تو یہی تک ہے میں خوش ہوں کہ میں اب اللّٰہ سے ملوں گی، اُنہیں کہوں گی میرے سے غلطی کہاں رہ گئی، ماں باپ بہت اچھے ملے، دوست بھی بہت اچھے ملے پر شاید کہیں کمی رہ گئی، مجھ میں یا پھر شاید تقدیر میں، میں خوش ہوں سکون سے جانا چاہتی ہوں۔ اللّٰہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔

ایک چیز ضرور سیکھ لی محبت کرنی ہے تو دو طرفہ کرو ایک طرفہ میں کچھ حاصل نہیں ہوتا، چلو کچھ محبتیں تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے۔ دعا کرتی ہوں یہ پیاری سی ندی مجھے اپنے اندر سما لے۔ میں ہواؤں کی طرح ہوں بس بہنا چاہتی ہوں اور بہتے رہنا چاہتی ہوں، کسی کے لئے نہیں رُکنا، میں خوش ہوں آج کے دن مجھے جن سوالوں کا جواب چاہیے تھا مل گیا۔ بس مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا کیا پتہ جنت ملے نہ ملے۔ خدا حافظ۔

ویڈیو بنا کر عائشہ اپنے ماں باپ کو فون کرتی ہے اور اُنہیں آگاہ کرتی ہے کہ وہ مر جانا چاہتی ہے۔ اب وہ مزید برداشت نہیں کر سکتی، اب اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، اب اُس کو جانا ہی پڑے گا کیونکہ اُس کے شوہر کو آزادی چاہیے، طلاق کا داغ اپنے ماتھے پر لگا کر سماج میں بدنام ہونے سے اچھا ہے کہ وہ خود کو موت کے حوالے کر دے۔ عائشہ کے ماں باپ اُس سے منتیں کرتے ہیں، قسمیں دیتے ہے، دلاسے دیتے ہیں لیکن وہ کسی صورت نہیں مانتی اور اپنی جان لہروں کے حوالے کر دیتی ہے۔
؁ ختم شد ؁