سبق نمبر 4: لمحے۔ مصنف:۔ بلونت سنگھ

0
  • مختصر افسانہ
  • سبق نمبر 4: لمحے۔
  • مصنف:۔ بلونت سنگھ

سوال1۔ افسانہ کی تعریف و تاریخ بیان کیجئے۔

افسانے کا آغاز و ارتقاء⭕

مختصر افسانے کی ابتداء انیسویں صدی کے شروع میں میں واشنگٹن ارون کے ہاتھوں امریکہ میں ہوئی۔ واشنگٹن ارون نے “اسکیچ بک” لکھ کر مختصر افسانے کا پہلا نمونہ پیش کیا۔

اردو میں افسانے کا آغاز منشی پریم چند کے ہاتھوں ہوا۔ پریم چند نے اپنا پہلا افسانہ “دنیا کا سب سے انمول رتن” لکھ کر اردو میں افسانے کی بنیاد رکھی۔ اور اس کے بعد پریم چند نے کم و بیش ڈھائی سو افسانے لکھے، اور اردو میں افسانے کے شہنشاہ کہلائے۔
پریم چند نے اپنے افسانوں میں دیہات کی زندگی، غریبوں، مظلوموں اور عورتوں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ۔

1936ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اردو میں ترقی پسند تحریک نے سب سے زیادہ افسانے کے فن کو متاثر کیا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور قرۃ العین حیدر علی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
حالانکہ ترقی پسند تحریک سے چند برس پہلے ترقی پسند مصنفوں کے افسانوں کا مجموعہ”انگارے” شائع ہوا، جسے بعد میں حکومت نے ضبط کر لیا۔

آزادی کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں قرۃ العین حیدر علی نمایا حیثیت رکھتی ہے۔ آزادی کے ساتھ ہی ملک کی تقسیم کے درد کو افسانہ نگاروں نے اپنے قلم کا موضوع بنایا۔ جن میں کرشن چندر کا افسانہ’ہم وحشی ہیں’ قرۃ العین حیدر کا افسانہ ‘جلا وطن’ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
دور جدید کے افسانہ نگاروں میں قاضی عبدالستار، اقبال مجید، اقبال متین وغیرہ کے نام بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

1960ء کے لگ بھگ اردو میں علامتی افسانوں کا آغاز ہوا۔ جن میں سریندر پرکاش، انور سجاد اور نئی نسل کے کئی افسانہ نگاروں نے “براہِ راست طرزِ بیان” کی بجائے “علامتی طرزِ بیان” کو ترجیح دی ہے۔

⭕ مختصر افسانہ کی تعریف⭕

مختصر افسانہ جدید دور کی ایک نثری صنف ہے۔ جو مغربی ادب (انگریزی ادب) کے زیرِ اثر اردو ادب میں آئی۔ مختصر افسانہ کو انگریزی ادب میں Short Story کہا جاتا ہے۔ اس میں چھوٹا قصہ ہوتا ہے اس لیے اس میں پوری زندگی پیش نہیں کی جاتی بلکہ زندگی کا ایک قصہ، ایک واقعہ، ایک کردار، ایک خیال، ایک پہلو یا زندگی کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے۔
افسانہ وقت کے تقاضوں کے سبب وجود میں آئی۔اس سے پہلے ناول نگاری کا چلن تھا۔

مختصر افسانے میں غیر متعلق باتوں کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی طویل (لمبے) مکالمے ہوتیں ہیں۔ اور نہ ہی منظر نگاری ہوتی ہے۔ بلکہ اختصار کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

▪️افسانے کی تعریفیں ادیبوں نے مختلف انداز میں بیان کی ہے:

(1) ایڈ گر ایلن پو:
ایڈگر ایلن پو نے افسانے کی تعریف اس طرح کی ہے کہ مختصر افسانہ ایک ایسی صنف ہے جو ایک ہی نشست (بیٹھک) میں پڑھیں جا سکیے۔ جو متاثر کن انداز میں لکھی گئی ہو۔ (یعنی: جس کو پڑھنے ہمیں آدھے گھنٹے سے دو گھنٹے تک کا وقت لگتا ہے۔)

(2) ڈاکٹر ابن فرید:
ڈاکٹر ابن فرید کہتے ہیں کہ مختصر افسانہ میں زندگی کے حقائق اور اس کے تقاضوں اور مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

(3) “مختصر افسانہ کسی ایک واقعے کا بیان ہے جس میں ابتداء ہو، درمیان ہو، عروج ہو اور خاتمہ ہو۔”

  • افسانے کی قسمیں:
  • (1) علامتی افسانہ
  • (2) تجریدی افسانہ

تجریدی یا علامتی افسانہ سب کے لئے نہیں ہوتا۔ یہ مصنف کے اپنے دماغ میں ہوتا ہے۔ جسے اس کا ہم مزاج قاری ہی سمجھ سکتا ہے۔ یا ہر قاری اپنی سطح پر اس کا علیہدہ (الگ) مفہوم اخذ کرتا ہے۔ اور یہ مفہوم دوسرے کے مفہوم سے مختلف و متضاد بھی ہو سکتا ہے۔

⭕ افسانے کے اجزائے ترکیبی⭕

(1) پلاٹ:

مختصر افسانے میں جو پیش کیا جاتا ہے، اس میں ترتیب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اسی ترتیب دینے کا نام پلاٹ ہے۔ اسی سے افسانہ آگے بڑھتا ہے۔ افسانے کا پلاٹ مختصر سادہ اور آسان ہوتا ہے۔ ایک اچھا افسانہ نگار وہ ہوتا ہے جو افسانے میں ذرہ برابر بھی غیر ضروری باتیں استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ غیر ضروری باتوں سے افسانے میں جھول پیدا ہوتا ہے۔

(2) کردار:

افسانے کے لئے کردار اسی طرح ضروری ہے، جس طرح ناویل کے لیے ضروری ہے۔ افسانے میں کردار نگاری مقصد نہیں، بلکہ ذریعہ ہوتی ہے۔ اسی لیے کردار کی جھلکیاں نظر آتی ہے۔ افسانہ نگار بڑی محنت کرکے کردار کو اس طرح تراشتا ہے کہ قاری جب افسانہ پڑھے تو قاری کے دل میں گھر کر جائے۔ (نئے افسانہ نگار کردار نگاری کو ضروری نہیں سمجھتے۔)

(3) نقطۂ نظر:

نقطۂ نظر افسانے کا خاص عنصر (اصل بنیاد) ہے۔ جس میں کھل کر کوئی بات نہیں کی جاتی بلکہ اس انداز میں کی جاتی ہے کہ اپنی بات افسانہ پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتی ہے۔ ایک اچھے فنکار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر قاری (پڑھنے والے) پر نہیں تھوپتا، بلکہ اپنی تخلیق کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی بات قاری کے دل میں بیٹھ جاتی ہے۔

(4) ماحول، زماؤں مکاں یا منظر نگاری:

منظر نگاری کی مختصر افسانہ میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے کہانی کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ افسانہ نگار ماحول کی ایسی تصویر کھینچتا ہے کہ قاری کے سامنے وہ تمام منظر گھومنے لگتا ہے، جو افسانہ میں پیش کئے گئے ہیں۔

(5) اسلوب:

ہر افسانے نگار کا اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ کہانی کا اسلوب کہانی کی مقبولیت کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ افسانے کا کینوس (تصویر/نقاشی) بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے۔ بشرطیکہ اسلوب موضوع کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور افسانے کی زبان سادگی کے ساتھ دلکش بھی ہونا لازم ہے۔ یہی اسلوب کا اچھا برا ہونا افسانے کی کامیابی اور ناکامی کی دلیل ہے۔

(6) آغاز و اختتام:

یہ دونوں مرحلے افسانے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ کہانی کا آغاز ایسا ہونا چاہئے کہ پڑھنے والا فوراً متوجہ ہو جائے اور اس کے دل میں یہ خواہش آخر تک رہے کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے۔

اختتام ایسے موڑ پر ہو کہ پڑھنے والا مدتوں تک اس کی گرفت (پکڑ) سے نہ نکل سکے ۔بلکہ قاری کے ذہن پر ایک اثر چھوڑ جائے۔

سوال2۔ بلونت سنگھ کی حالات زندگی تحریر کرتے ہوئے ان کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیجئے۔

  • نام۔ بلونت سنگھ
  • پیدائش۔ ضلع گجر نوالہ
  • وفات۔ 186ء آلہ آباد

بلونت سنگھ کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں ہوئی۔ میٹرک دہرہ دون کے کیمبرج اسکول سے پاس کیا ۔اور کرشچن کالج الہ آباد سے انٹر اور الہ آباد یونیورسٹی سے بی.اے. کرنے کے بعد تلاش و معاش میں لاہور اور کراچی چلے گئے۔ پھر دہلی میں رسالہ”آجکل” کے نائب مدیر کی خدمات بھی انجام دیں۔ اور انتقال تک الہ آباد میں رہے۔ بلونت سنگھ نے الہ آباد سے اردو میں رسالہ “فسانہ” اور ہندی میں”اردو ساہتیہ” جاری کیا۔

ادبی خدمات:

بلونت سنگھ کی ادبی زندگی کا آغاز ان کے پہلے افسانے “سزا” سے ہوتا ہے۔ جو 1937ء میں دہلی سے رسالہ “ساقی” میں شائع ہوا۔ بلونت سنگھ نے کئی ناول بھی لکھیں”رات چور اور چاند” اور “پیرا کا کسا” جو اردو میں شائع ہوے۔ بلونت سنگھ کے ابتدائی افسانوں میں پنجاب کے دیہی زندگی کی جھلک اور پنجاب کے دیہات سکھ کرداروں کی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔

‘جگا’، ‘ہندوستان ہمارا’، ‘پہلا پتھر’، بلونت سنگھ کے افسانے اور’سنہرا دیس’ انکے افسانوی مجموعے ہیں۔ اسی وجہ سے بلونت سنگھ گہرے مشاہدے کے دھنی ہے۔

سوال3۔ مندرجہ ذیل اقتباس کو غور سے پڑھ کر پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیں۔

اقتباس۔

یوں تو میں اپنے دوستوں کی بہت قدر کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ دوستو ں کی صورت تک نہ دکھائی دے اور میں محض اپنے لیے ہو کر رہ جاؤ ں۔میرے دوستوں کی تعداد بہت کم ہے اس لیے مجھے ایسے دن بھی میسر آ جاتے ہیں۔

جس روز کا میں ذکر کر رہا ہوں ہوں، وہ اسی قسم کا دن تھا۔ صبح کا وقت تھا ۔ پیشتر اس کے کوئی دوست میرے مکان پر پہنچ کر “اماکانت! اماکانت!” کے نعرے لگاتا میں چائے سے فارغ ہو کر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔

نہ بیوی، نہ بچے، نہ ملازمت، نہ کاروبار، نہ خوشی نہ غم عجب ویران کیفیت میں زندگی بسر ہو رہی تھی۔ میری بیکاری سے گھر والوں کی ناخوشی کے باعث، دل پر اداسی چھائی رہتی تھی۔کوئی ذمہ داری نہ ہونے کی وجہ سے دماغ ہلکا رہتا تھا۔اپنی بیوی نہ ہونے کے سبب سے، ذہن پر رومانیت کا تسلط تھا۔

بس اسٹینڈ پر پہنچ کر دیکھا کہ کناٹ پلیس جانے والی بس میں سوار ہو گیا جس کے اندر اکا د کا مسافر بیٹھے ہیں۔آٹھ بجے تھے۔بھلا سردی کے موسم میں کسی کو کیا پڑی تھی کہ گھر کے گرم فضا سے نکل کر باہر کو اٹھ بھاگے۔ چنانچہ بس میں ایک عجیب سکوت طاری تھا۔چند لوگ ایک دوسرے سے پرے پرے بیٹھے دھیرے دھیرے باتیں کرنے میں محو تھے۔

سوال1۔ یہ عبارت کس سبق سے لی گئی ہے اس کے مصنف کون ہے؟

جواب۔ یہ عبارت افسانہ “لمحے” سے لی گئی ہے اس کے مصنف کا نام بلونت سنگھ ہے۔

سوال2۔ اماکانت کیسی زندگی بسر کر رہا تھا؟

جواب۔ اماکانت غیر شادی شدہ تھا، نہ بیوی، نہ بچے، نہ کاروبار، نہ خوشی نہ غم، وہ تمام دکھوں اور پریشانیوں سے بیزار ہوکر زندگی بسر کر رہا تھا۔

سوال3۔ اماکانت کو بس کا ماحول کیسا نظر آیا تھا؟

جواب۔ اماکانت کو بس کا ماحول پر سکون نظر آیا۔ چند لوگ ایک دوسرے سے پرے پرے دھیرے دھیرے باتیں کرنے میں محو تھے۔

سوال4۔ اماکانت کس بس میں سوار تھا؟

جواب۔ کناٹ پلیس جانے والی بس میں سوار تھا۔

سوال5۔ اماکانت کے ذہن پر رومانیت کا تسلط کیوں تھا؟

جواب۔ اماکانت غیر شادی شدہ تھا۔ اپنی بیوی نہ ہونے کی وجہ سے ذہن پر رومانیت کا تسلط تھا۔

سوال4۔ معروضی سوالات کے جوابات:۔

سوال1۔ مختصر افسانہ کس دور کی نثری صنف ہے؟

قدیمی دور۔ جدید دور۔ وسطی دور۔ درمیانی دور
جواب۔ جدید دور

سوال2۔ اردو میں مختصر افسانہ کا آغاز کس صدی میں ہوا؟

جواب۔ انیسویں صدی۔ سولہویں صدی۔ اکیسویں صدی۔ بیسویں صدی
جواب۔ بیسویں صدی

سوال3۔ افسانے کے موجد کا نام کیا ہے؟

سجاد حیدر۔ نیاز فتح پوری۔ پریم چند۔ امتیاز علی
جواب۔ پریم چند

سوال 4۔ ترقی پسند تحریک کا آغاز کس سن میں ہوا؟

سن1936ء۔ سن1937ء۔ سن1935ء۔ سن1938ء
جواب۔ سن1936ء

سوال5۔ باغیانہ کہانیوں کا ایک مجموعہ جو ترقی پسند تحریک سے قبل شائع ہوا کا نام لکھیں۔

یادیں۔ انگارے۔ چوٹیں۔ نظاریں۔
جواب۔ انگارے

سوال6۔ بلونت سنگھ کی پیدائش کب کہاں ہوئی؟

گجرانوالہ 1920ء لکھنؤ 1086ء۔
لاہور 1928ء۔ دہلی 1988ء
جواب۔ گجرانوالہ 1920ء

سوال5۔ مختصر سوالات کے جوابات:۔

سوال1۔ افسانہ لمحے کا مرکزی خیال بیان کیجئے؟

جواب۔ اس افسانے میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو بغیر کسی فرقہ پرستی اور فائدے کے ایک دوسرے کی پریشانیوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے یہی انسانیت کا تقاضا بھی ہے۔

سوال2۔ افسانے لمحے کا عنوان لمحے کیوں رکھا گیا ہے؟

جواب۔ اس افسانے میں مختصر سفر کا واقعہ پیش کیا گیا ہے۔ افسانے کا اہم کردار اُماکانت ہے۔ بس میں سفر کرنے والی عورت سلطانہ کے ساتھ سفر میں گزرے ہوئے چند لمحے اسے زندگی کے مختلف تجربات سے آشنا کراتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان لمحات کی بنا پر مصنف نے اس افسانے کا نام لمحے رکھا ہے۔

سوال3۔ افسانہ لمحے میں عورت کی ٹانگ کس وجہ سے خراب ہوئی ہے؟

جواب۔ اس عورت کی ٹانگ پر 1947ء کے فسادات کے وقت ایک فسادی نے لاٹھی ماری تھی اس وجہ سے وہ لنگڑا کر چل رہی تھی۔

سوال6۔ مختصر ترین سوالات کے جوابات لکھیں:۔

سوال1۔ اردو میں رسالہ”فسانہ” اور ہندی میں”اردو ساہتیہ” کس نے جاری کیا؟

جواب۔ بلونت سنگھ نے جاری کیا۔

سوال2۔ رات چور اور چاند، اور چک پیدا کا جسا، کس مصنف کے افسانے ہیں؟

جواب۔ بلونت سنگھ کے افسانے ہیں۔

سوال3۔ بلونت کا پہلا افسانہ”سزا” کب اور کہاں شائع ہوا؟

جواب۔دہلی میں 1937ء میں شائع ہوا۔

سوال4۔ سنہری دیس کس کا افسانوی مجموعہ ہے؟

جواب۔ بلونت سنگھ کا افسانوی مجموعہ ہے۔

سوال5۔ آپ کے نصاب میں شامل بلونت سنگھ کے افسانے کا نام کیا ہے؟

جواب۔ لمحے

سوال6۔افسانہ لمحے کے کردار کا نام بتائیے؟

جواب۔افسانہ لمحے کے کردار کا نام اُماکانت ہے۔

سوال7۔ افسانہ لمحے کس احساس پر مبنی ہے؟

جواب۔ دکھ بھرے احساس پر مبنی ہے۔

سوال8۔ افسانہ کے اجزائے ترکیبی بتائیے۔

جواب۔ کہانی۔ پلاٹ۔ کردار۔ مکالمہ۔ پش منظر۔ اسلوب۔ نقطۂ نظر

سوال9۔ افسانے کا بنیادی حصہ کیا ہے؟

جواب۔ پلاٹ

سوال10۔ مکالمہ کے کیا معنی ہیں؟

جواب۔ کرداروں کی آپسی گفتگو کو کہتے ہیں۔

سوال11۔ اردو میں مختصر افسانہ کس ادب سے آیا؟

جواب۔ مغربی ادب سے آیا۔

سوال12۔ مختصر افسانہ کو انگریزی میں کس نام سے جانا جاتا ہے؟

جواب۔ مختصر افسانہ کو انگریزی Short story کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سوال13۔ وہ کونسی صنف ہے جس میں ایک واقعہ ایک کردار یا زندگی کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے؟

جواب۔ افسانہ

سوال14۔ لفظ ‘تارا سی آنکھیں’ میں کونسی صنعت استعمال ہوئی ہے؟

جواب۔ تشبیہ استعمال ہوئی ہے۔

سوال15۔ ہاتھ پاؤں پھولنا۔ محاورہ کا مطلب لکھے؟

جواب۔ گھبرا جانا

سوال16۔ پریم چند کا پہلا افسانہ کون سا ہے، کب اور کہاں شائع ہوا؟

جواب۔ دنیا کے سب سے انمول رتن ہے، یہ 1908ء میں رسالہ ‘زمانہ’ میں شائع ہوا۔

سوال17۔ منشی پریم چند کے افسانوی مجموعے کا نام بتاؤ؟

جواب۔ سوز وطن

تحریر طیب عزیز خان محمودی