پنچایت

0

سوال ۷ : اس سبق کا خلاصہ لکھیں۔

تعارفِ سبق :

سبق ”پنچایت“ کے مصنف کا نام ”منشی پریم چند“ ہے۔

تعارفِ مصنف :

منشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ آپ ضلع بنارس کے ایک گاؤں میں ۱۸۸۰ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد منشی عجائب لال ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند نے ایک مولوی صاحب سے فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی، جبکہ انگریزی تعلیم بنارس میں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر منشی پریم چند ایک پرائمری اسکول میں استاد ہو گئے۔

1908ء میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس ہوگئے۔ پریم چند کے ادبی زندگی کا آغاز 1901ء سے ہوا۔ آپ نے منشی دیا نرائن نگم کے رسالے ”زمانہ“ میں مضامین لکھے۔ پھر افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی طرف توجہ دی۔ پریم چند نے غریبوں کے حالات و واقعات کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا۔ ان کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ”بازارِ حسن، نرملا، میدانِ عمل، پریم بتیسی، پریم پچیسی، پریم چالیسی اور سوزِ وطن“ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ انہوں نے کُل ۲۹ ناول لکھے ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۶ء میں ہوا۔

افسانہ پنچائیت کا خلاصہ :

جمن اور الگو بچپن کے دوست تھے۔ دونوں میں بڑا یارانہ تھا اور دونوں ہی ایک ساتھ بڑے ہوئے تھے۔ جمن کی خالہ نے اپنی جائیداد جمن کے نام کر دی تھی۔ جائیداد اپنے نام ہونے کے کچھ عرصہ تک تو جمن اور اس کی بیوی اپنی خالہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہے لیکن پھر اس کی بیوی نے اپنے گھر کے ساتھ برا برتاؤ کرنا شروع کردیا اور روٹی اور سالن کی مقدار بھی کم کر دی۔ جمن کی خالہ کچھ عرصے تک تو یہ سب برداشت کرتی رہی لیکن جب یہ سب اس کی برداشت سے باہر ہوا تو اس نے جمن سے کہا کہ یا تو تم میرا کھانے پینے کا الگ انتظام کر دو ورنہ میں یہ معاملہ پنچایت میں لے کر جاؤں گی۔

اس کے بعد خالہ گھر گھر جا کر اپنا دکھ سب کو سنانے لگیں اور پھر کچھ دن بعد ان کے معاملے کا فیصلہ ہونے کے لیے پنچایت لگی۔ خالہ نے وہاں مجمع میں اپنا موقع سنایا اور پھر الگو کو پنچ مقرر کیا۔ جمن کو لگا کے الگو اس کے حق میں فیصلہ دے گا لیکن الگو نے انصاف پر مبنی فیصلہ کیا اور جمن کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے خالہ کے لئے الگ بندوبست کرے۔

اس فیصلے کے بعد سے جمن الگو کا دشمن ہو گیا اور اس سے بدلہ لینے کا انتظار کرنے لگا۔ الگو کے پاس دو بہت اچھے بیل تھ،ے کچھ دن بعد ان میں سے ایک بیل مر گیا اور بہت ڈھونڈنے کے باوجود دوسرے بیل کا جوڑا نہ مل سکا اس لئے الگو نے وہ بیل بیچ دیا۔ الگو نے جس شخص کو وہ بیل بیچا تھا اس نے ایک ماہ بعد مقررہ رقم دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس شخص نے ایک ماہ میں بیل پر اتنا ظلم کیا کہ وہ مر گیا اور اس شخص نے الگو کو پیسے دینے سے انکار کردیا۔

اس معاملے کی پنچایت کا فیصلہ کرنے کے لیے جمن کو پنچ مقرر کیا گیا۔ جمن چاہتا تھا کہ وہ الگو سے اپنا پرانا بدلہ لے لے لیکن جب وہ پنچ کی مسند پر بیٹھا تو اس نے انصاف پر مبنی فیصلہ کیا اور الگو کو اس کا حق دلوایا۔ پنچایت ختم ہونے کے بعد جمن منے الگو کو مخاطب کیا اور کہا کہ میں تم سے اپنا بدلہ لینا چاہتا تھا لیکن جب میں اس مسند پر بیٹھا تو مجھے پتا چلا کہ جب کسی شخص پر فیصلہ کرنے کی ذمہ داری آتی ہے تو اسے انصاف پر مبنی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ میں چاہنے کے باوجود بھی تم سے اپنا بدلہ نہیں لے سکا کیوں کہ اس وقت میرے دماغ میں صرف سچائی پر مبنی فیصلہ کرنے کی بات گھوم رہی تھی۔ اس طرح ان کی دوستی میں پڑی دراڑ ختم ہوگئی اور وہ پھر سے اچھے دوست بن گئے۔

سوال ۱ : مختصر جواب دیں۔

(الف) جمن شیخ اور الگو چودھری میں دوستی کا آغاز کب ہوا؟

جواب : جمن شیخ اور الگو چودھری میں دوستی کا آغاز بچین میں ہوا تھا، جب دونوں لڑکے جمن کے پدرِ برزگوار شیخ جمراتی کے پاس تعلیم کے حصول کے لیے جایا کرتے تھے۔

(ب) شیخ جمن کی بیوی کا خالہ کی ملکیت کے ہبہ نامے کی رجسٹری کے بعد خالہ سے کیسا سلوک تھا؟

جواب : شیخ چمن کی بیوی کا خالہ کی ملکیت کے ہبہ نامے کی رجسٹری کے بعد خالہ سے سلوک بدل گیا تھا اور جمن کی اہلیہ نے رفتہ رفتہ سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کر دی۔

(ج) الگو چودھری کے پنچ مقرر ہونے پر شیخ جمن کیوں خوش تھا؟

جواب : الگو چودھری کے پنچ مقرر ہونے پر شیخ جمن اس لیے خوش تھا کیونکہ جمن کو لگتا تھا الگو اس کا پرانا دوست ہے وہ اسی کے حق میں ہی فیصلہ کرے گا۔

(د) الگو چودھری نے کیا فیصلہ سنایا؟

جواب : الگو چودھری نے فیصلہ سنایا کہ زیادتی سراسر شیخ جمن کی طرف سے ہوئی ہے۔ کھیتوں سے معقول نفع ہوتا ہے۔ اس لیے جمن کو چاہیے کہ وہ خالہ جی کے ماہوار گزارے کا بندوست کرے اگر اسے یہ منظور نہیں ہوا تو ہبہ نامہ منسوخ ہو جائے گا۔

(ہ) الگو چودھری کا فیصلہ سن کر شیخ جمن کا رد عمل کیا تھا؟

جواب : الگو چودھری کا فیصلہ سن کر شیخ جمن سناٹے میں آگیا اور احباب سے کہنے لگا :
” اس زمانے میں یہی دوستی رہ گئی ہے کہ جو اپنے اوپر بھروسا کرے ان کی گردن پر چھری پھیری جائے۔ “
اس فیصلے نے الگو اور جمن کی دوستی کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں اور جمن الگو سے انتقام لینے کا سوچنے لگا۔

(و) الگو چودھری نے سمجھو سیٹھ کو بیل کیوں فروخت کیا؟

جواب : الگو چودھری کے پاس دو بیلوں کا ایک جوڑا تھا، جس میں سے ایک بیل مرگیا تھا اور بہت تلاش کے بعد جب اس کا جوڑی دار نہیں مل پایا تو الگو چودھری نے دوسرا بیل سمجھو سیٹھ کو فروخت کردیا۔

(ز) سمجھو سیٹھ نے الگو چودھری سے خریدے ہوئے بیل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

جواب : سمجھو سیٹھ الگو چودھری سے خریدے ہوئے بیل کو دن میں کئی کئی چکر منڈی کے لگواتا۔ اس کے چارے اور آرام کا خیال نہ رکھتا تھا۔ اس پر ڈھیروں بوجھ لاد کر اسے مارتا ہوا لاتا تھا۔

(ح) الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ نے کون سا تنازع پنچایت کے سامنے پیش کیا؟

جواب : الگو چودھری نے اپنا ایک بیل سمجھو سیٹھ کو فروخت کیا جس کی قمیت کے لیے ایک ماہ کا وعدہ ہوا تھا۔ مگر سمجھو سیٹھ کے ظلم سے بیل مرگیا تھا اور اب سمجھو سیٹھ بیل کی قیمت دینے کو تیار نہ تھا۔ اس لیے یہ تنازع پنچایت کے سامنے پیش کیا گیا۔

(ط) شیخ جمن نے فیصلہ سناتے ہوئے انصاف کے اصولوں کو کہاں تک پورا کیا؟

جواب : شیخ جمن نے فیصلہ سناتے ہوئے انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھا اور اپنے اور الگو چودھری کی دشمنی کو پسِ پشت ڈال دیا۔

سوال ۲ : سبق کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالی جگہ پر کریں۔

  • (الف) جمن شیخ اور الگو چودھری میں بڑا (یارانہ) تھا۔
  • (ب) جمن جب حج کرنے گئےتھے تو (گھر) الگو کو سونپ گئے تھے۔
  • (ج) ان کے باپ (پرانی وضع ) کے آدمی تھے۔
  • (د) شیخ جمعراتی خود دعا اور فیض کے مقابلے میں (تازیانے) کے زیادہ قائل تھے۔
  • (ر) جمن نے وعدے وعید کے (سبز باغ) دکھا کر خالہ اماں سے وہ ملکیت اپنے نام کرالی تھی۔
  • (ہ) خالہ جان اپنے (موت) کی بات نہیں سن سکتی تھیں۔
  • (و) بوڑھی خالہ نے اپنی دانست میں تو (گریہ و زاری) کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
  • (ز) شیخ جمن کو بھی (پنچ بن کر) اپنی ذمے داری کا احساس ہوا۔
  • (ح) دوستی کا (مرجھایا) درخت پھر سے ہرا ہو گیا۔

سوال ۳ : سبق کو مدنظر رکھ کر، درست بیان کے آگے (درست) اور غلط بیان کے آگے (غلط) کا نشان لگائیں۔

  • (الف) الگو جب کبھی باہر جاتےتو جمن پر اپنا گھر چھوڑ جاتے۔ (✓)
  • (ب) الگو کے باپ نئے انداز کے آدمی تھے۔ (×)
  • (ج) الگو کی ایک بوڑھی، بیوہ خالہ تھی۔ (×)
  • (د) کئی دن تک بوڑھی خالہ لکڑی لیے آپ پاس کے گاؤں کے چکر لگاتی رہیں۔ (✓)
  • (ہ) جمن نے بڑھیا کو پیار بھری نظروں سے دیکھا۔ (×)
  • (و) شیخ جمن اپنی خالہ کو ماں کے برابر سمجھتے تھے۔ (✓)
  • (ز) الگو قانونی آدمی نہیں تھے۔ (×)
  • (ح) ایک ایک سوال جمن کے دل پر ہتھوڑے کی طرح لگتا تھا۔ (✓)
  • (ط) پنچایت کے ایک ہفتے بعد ایک بیل مرگیا۔ (×)
  • (ی) سمجھو سیٹھ منڈی سے تیل نمک لاد کر لاتے اور گاؤں میں بیچتے تھے۔ (✓)
  • (س) رام دھن نے پہلا نام جمن کا سنا تو کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ (×)
  • (ص) شیخ جمن کو پنچ بن کر اپنی ذمے داری کا احساس نہ ہوا۔ (×)

سوال ۴ : مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی لکھیے۔

ساجھا : کسی چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کی شرکت۔
زانوئے ادب تہ کرنا : تعلیم حاصل کرنا۔
وضع : چال چلن۔
رفتہ رفتہ : آہستہ آہستہ۔
صلح : اتحاد۔
پسند : دل کو بھانے والا۔
تاحینِ حیات : آب بیتی۔
پنچ : پانچ آدمیوں کی مجلس۔

سوال ۵ : مندرجہ ذیل الفاظ کی مؤنث لکھیں۔

استاد : استانی
شیخ : شیخانی
چودھری : چودھرائن
سیٹھ : سیٹھانی
بیل : گائے

سوال ٦ : اعراب کی مدد سے تلفظ واضح کریں۔

زانوئے ادب۔
مباحثہ۔
تحکمانہ۔
منطق۔
رسوخ۔
تصفیہ۔
پرش۔
فروگزاشت۔
تَحْصِیْلِ علم۔
وَضع۔

سوال ۸ : عبارت کی تشریح کریں۔ سبق کا عنوان اور مصنف کا نام بھی لکھیں۔

اقتباس :

“بھیا! جب سے تم نے۔۔۔۔۔۔حق اور انصاف کی زمین پر کھڑا تھا۔”
حوالہ : حوالہ : یہ اقتباس سبق پنچائیت سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام منشی پریم چند ہے۔

تشریح:

اس اقتباس میں مصنف نے جمن کے جذبات تحریر کیے ہیں۔ جمن اپنی خالہ والے معاملہ میں الگو کی اس کی طرفداری نہ کرنے اور اس کے خالہ کے حق میں فیصلہ دینے کے بعد سے اس کا دشمن بنا ہوا تھا۔ وہ الگو سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔

لیکن جب الگو کے تنازع میں اس کو پنج مقرر کیا گیا تو وہ چاہتے ہوۓ بھی الگو سے بدلہ نہ لے سکا، بلکہ جمن نے اس کے حق میں فیصلہ کیا اور تب جمن کو الگو کا احساس ہوا ، وہ سمجھ گیا کہ پنچائیت کی مسند پر نہ کوئی کسی کا بھائی ہے، نہ دوست۔ وہاں صرف انصاف دیکھا جاتا ہے۔ دل صاف ہوتے ہی ان کی دوستی بھی پہلے جیسی ہوگئی اور اب کی بار ان کی دوستی کا درخت انصاف کی زمین پر لگا تھا۔

سوال ۹ : ذیل کے مختلف محاوروں کو دو دو جملوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ درست استعمال کے آگے (درست) اور غلط بیان کے آگے (غلط) کا نشان لگائیں۔

(1) سبز باغ دکھانا :

(الف) اکرم نے مجھے ملتان میں اپنے سبز باغ دکھائے۔ (×)
(ب) سیاسی لوگ سبز باغ دکھا کر عوام کو لوٹتے ہیں۔(✓)

(2) زخم پر نمک چھڑکنا :

(الف) سعد نے میرے بازو کے زخم پر نمک چھڑکا تو میری چیخیں نکل گئیں۔ (×)
(ب) آپ میرے زخم پر نمک چھڑکنے کے بجائے میری مدد کریں۔ (✓)

(3) بغلیں جھانکنا :

(الف) وہ سب میرے سوال پر بغلیں جھانکنے لگے۔(✓)
(ب)کسی کی بغلیں جھانکنا بری بات ہے۔ (×)