افسانہ یقین

0

آج عابد بہت زیادہ بیمار تھا۔ زکام و بخار نے ناک و سر میں دم و درد کر رکھا تھا۔ موسمِ سرما کا دَور تھا، ماحول نہایت ہی سرد اور خاموش کن تھا، چاروں جانب سرد ہَوائیں رقصاں تھیں، اور رات کی گود میں کوچہ کوچہ چپہ چپہ سنسان تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ سبھی جانداروں کا صفایا ہو گیا ہے۔ یہ رات کا آخری پہر تھا اِس لئے کائنات کا ذرہ ذرہ عالمِ سرشاری میں سویا ہوا تھا مگر عابد کو چَین نہ تھا۔

عابد حقیقی عابد تھا، جب سے ہوش سنبھالا تھا آخرت کی فکر میں دل و جان سے لگ گیا تھا۔ اٹھارہ سال کا خوش رنگ و حسین اور کھاتے پیتے گھر کا لڑکا تھا مگر چار سال بیت گئے تھے کبھی رات کا قیام نہیں چھوڑا۔ ہر رات اپنے گھر کے قریب موجود “رمضانی مسجد” میں جا کر ایک متعین مدت تک اللّٰه کی عبادت کِیا کرتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ شدید علالت کے باوجود اُس کا دل تہجد کی عبادت چھوڑنے پر راضی نہیں ہو رہا تھا۔

اِس سے پہلے بھی وہ شدید بیماری کی حالت میں کئی بار رات کا قیام کر چکا تھا، لیکن اِس مرتبہ طبیعت زیادہ ہی خراب تھی، بدن قابو میں نا آتا تھا، بندہ چار سال سے روز رات جاگ جاگ کر بہت کمزور ہو گیا تھا۔ عابد کے والدین ایک الگ کمرے میں عابد کی حالت سے بے خبر لیٹے ہوئے تھے، اُنھیں یہ تو معلوم تھا کہ وہ بیمار ہے، مگر شدید بیمار ہے، یہ نہیں جانتے تھے، عابد رضائی اوڑھ کر لیٹا تھا اور اُس نے والدین کو اپنی کیفیت کی شدت ظاہر نا ہونے دی تھی۔

عابد کے کمرے میں بتیاں بجھی ہوئی تھیں، مگر ماں باپ کے کمرے سے ذری روشنی آ رہی تھی۔ عابد نے رضائی سے سر نکال کر لیٹے لیٹے ہی دھیان سے سامنے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا۔ سَوا بارہ بج رہے تھے۔ ایک آہ کے ساتھ وہ فوراً اُٹھ کھڑا ہوا، بدن کانپتا جاتا تھا مگر کسی طور خود کو قابو کرتے ہوئے والدین کو آواز دی “مسجد جا رہا ہوں”۔ ماں باپ اپنے لڑکے کے معمول سے خوب واقف اور علالت کی شدت سے بے خبر تھے تو اندر سے دونوں نے ایک آواز میں کہا “جاؤ بیٹا! اللّٰه تمہیں بہترین اجر دے! ہم بھی ابھی ذری دیر عبادت کریں گے”۔ والدین بڑے ہی مخلص و پارسا تھے، خود بھی بڑے عبادت گزار تھے، اِسی لئے تو عابد کا یہ رنگ تھا۔

عابد نے گرم لباس پہنے، ٹوپی لگائی، دروازے کے قریب پہنچ کر سلام کِیا اور در مفتوح کر کے باہر نکلا۔ جیوں ہی باہر قدم رکھا اِک نہایت سرد ہَوا کا جھونکا وجود کو ہلا دینے والی کپکپی اُسے عطا کر گیا۔ بدن کو جھنجھوڑ کر اُس نے چلنا شروع کِیا کہ تبھی ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی، اُس نے ہمت بنائے رکھی اور رمضانی مسجد کی جانب چلتا رہا۔ بارش کی برفیلی بوندیں عابد کے تپتے وجود پر تیزاب کا سا کام کر رہی تھیں۔ گلیاں تاریک و سنسان تھیں، رمضانی مسجد دو گلیوں کے پار تھی۔ علالت بڑھتی جا رہی تھی، وہ کبھی اِتنی دشواری سے دو چار نہ ہوا تھا۔ بارہا گرنے کو ہوتا تھا مگر اُس کی زبان کہے جا رہی تھی “اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا” (یقینن مشکل کے ساتھ آسانی ہے)۔ وہ مکانوں کی دیواروں کا سہارا لے لے کر گڈھوں والی، کیچڑ سے بھری اور ٹیڑھی میڑھی گلیوں کو پار کرتا گیا حتیٰ کہ مسجد پہنچ گیا۔

مسجد میں بہت ذرا سا اجالا تھا، وضو خانے میں جا کر اُس نے اپنے کپڑوں پر سے کیچڑ کے اثرات کو مٹایا اور برفیلے پانی سے کانپتے کانپتے وضو بنایا۔ عابد نے دیکھا کہ نیچے کی منزل پر ایک دو سن رسیدہ عبادت میں مشغول ہیں، وہ اوپر کی منزل پر چلا گیا جو خالی تھی۔ اب عابد اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوا اور خلوصِ قلب و روح کے ساتھ عبادت میں لگ گیا۔ پورا وجود بری طرح تھرتھرا رہا تھا مگر وہ قابو کئے جا رہا تھا۔ وہ علم کا بھوکا تھا، دو دو رکعت نماز پڑھتا جاتا اور بیچ بیچ میں قرآن مجید کی تلاوت کرتا اور تفسیر پر بھی غور کئے جاتا۔ بدن قابو کے باہر ہوتا جاتا تھا، کپکپاہٹ رکنے کا نام نہ لیتی تھی، لگ رہا تھا کہ ناک سے خون آ جائے گا، سر گھومے جا رہا تھا مگر عبادت میں کسر نہ ہوتی تھی۔ یوں ہی دو گھنٹے گزر گئے۔

عابد نے پھر دو رکعت کی نیت باندھی، رکوع سے اُٹھتے وقت کمر میں وہ شدید درد ہوا کہ عابد اُس کا تحمل نہ کر سکا اور پیچھے کی جانب چٹائی پر گر گیا۔ موسم طوفانی ہونے لگا، ندائے صائقہ بلند ہونے لگی۔ ذری دیر درد کو سمجھایا اور پھر نماز کی نیت باندھی، پہلی ہی رکعت میں پھر تڑپ کر نیچے گر گیا۔ بدن درد کے مارے ٹوٹا جاتا تھا، اور عشقِ الٰہی کی تاب کم نہ ہوتی تھی۔ پھر تڑپتے وجود کو گھسیٹ کر اُٹھایا اور تیسری مرتبہ نماز کی نیت باندھی۔ جان قابو میں نہ تھی، کبھی دائیں گرنے کو ہوتا تو کبھی بائیں، ہاتھ پاؤں برف ہوتے جا رہے تھے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اپنے وجود میں ایک بڑا بم وسفوٹ روکنے کی پرزور کاوش کر رہا ہے۔ عابد نے ہار نہ مانی، اور اپنے رب کی عبادت میں کسر نہ ہونے دی۔ کسی طرح تڑپتے وجود نے نماز مکمل کر لی۔ جیوں ہی تھرکتی ہوئی گردن نے سلام پھیرا، ایک تڑاک!!! کی سی آواز آئی اور عابد کا وجود چٹائی پر لمبا لمبا بکھر گیا۔ سانس لینا محال ہونے لگا، بدن بے جان سا ہو گیا۔

یہ عابد کا معمول تھا کہ وہ روز اِس وقت تک خود سے ایک ایسا سوال کِیا کرتا تھا جس سے اُس کے ایمان کو خوب تقویت ملے، اور ہمیشہ اُس کے ہر سوال کا جواب آپ سے آپ اُس کے ذہن میں آ جایا کرتا تھا، مانو الہام ہوتا ہو۔ اب، اِس عالمِ تاریک میں، عابد کے ذہن میں اُس کا آج کا سوال آیا۔ اُس نے من ہی من خود سے پوچھا:
“کیا مَیں پاگل ہوں، جو اِس طوفانی و سرد موسم میں، بقیہ لوگوں کی طرح گرم بستر اور رنگین خیالوں میں مگن رہنے کے بجائے شدید علیل ہونے کے باوجود، بارش میں بھیگتا اور سرد ہَواؤں کو خود میں جذب کرتا ہوا یہاں مسجد میں نفلی عبادت کے لئے آیا ہوں؟”۔

عابد کے سینے میں اِس سوال کا اُٹھنا تھا کہ بارش تیز ہو گئی، شدید بھیانک طوفان برپا ہو گیا۔ مسجد کی ویرانی میں آفاتِ قدرت کی یہ آوازیں دوگنا شور مچاتی تھیں اور باہر سے مسلسل کچھ ٹوٹنے اور چُور ہونے کی آوازیں آنے لگیں۔ دلِ عابد سے آہ نکلی “جواب!”،،، “جواب!”،،، “جواب!!!!!!!”۔ یکدم ایک روحانی ندا عابد کے اُذن میں آنے لگی: عابد!

تجھے رحیم کے وجود پر یقین ہے
تجھے یقین ہے یہ عارضی زمین ہے
تُو جانتا ہے یہ کہ قبر میں اندھیرا ہے
ہزار زہر ناک جیووں کا بسیرا ہے
تجھے یقین ہے تُو پاس میرے آئے گا
تِرے ہر ایک کرم کا بدل تُو پائے گا
یہی سبب ہے تیرے زخمی دل کی آہ کا
ہمیں ہے علم تیری ایک ایک چاہ کا
جو سو رہے ہیں جانتے نہیں عذاب کو
ذلیل کر رہے ہیں نور کی کتاب کو
ہم ایک دن اُنھیں دکھائیں گے تباہیاں
وہ بھول جائیں گے کباب اور مٹھائیاں
زکوم کھائیں گے پئیں گے تلچھٹوں کا آب
کباب کھا رہے ہیں بَن بھی جائیں گے کباب
اُنہیں اُس امتحان کا ہے خوف جو ہے دُور
نہیں خبر کہ کب دبوچ لیں اُنھیں قبور
تجھے یقیں ہے میری دَین زندگانی ہے
تُو جانتا ہے جان کس جگہ لگانی ہے
ملال چھوڑ دے! تِری جزا عظیم ہے
اے عابدِ احد! تِرا خدا کریم ہے

یہ سننا تھا کہ عابد کے نیلے پڑ گئے دہن پہ شادمانی نمود ہوئی۔ موسم بالکل خاموش ہونے لگا تھا۔ عابد بے حرکت پڑا تھا، آنکھیں بند ہونے کو ہوتی تھیں۔ یکایک عابد کی زبان حرکت کرنے لگی، مانو کچھ کہنا چاہتی ہو۔ زبانِ عابد سے بے ساختہ نکلا:

لا اله الا اللّٰه
محمد الرسول اللّٰه

اِس کلمہ کے بعد مسجد بالکل خاموش ہو گئی، اِتنی خاموش کہ اگر وہاں کوئی سانس لے رہا ہوتا تو اُس کے سانس بھرنے کی بھی آواز صاف سنائی دیتی۔

تحریر عزیؔز اختر