عفو و درگزر کے معنی

0
  • سبق نمبر 24

سوال۱: آپ ﷺ کے عفو و درگزر پر ایک نوٹ تحریر کریں۔

عفو و درگزر ایک بہترین اخلاقی وصف ہے۔ اس سے دشمن دوست ہو جاتے ہیں اور دوستوں میں محبت بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جو صفات پسند فرمائی ہیں۔ ان میں عفو و درگزر بھی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ: ”اور وہ مومن غصہ پی جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں“۔( سورة آل عمران: ۱۳۴)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم مسلمانوں کی غلطیوں کو تو معاف فرما یاہی کرتے تھے۔ دشمنوں سے بھی عفو و درگزر کرتے تھے۔ ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلّم نے وادی طائف کا قصد فرمایا کہ ان لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں۔ طائف کے سرداروں نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کے بجائے نہایت تکلیف دہ سلوک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم پر اتنے پتھر برسائے کہ جسم مبارک لہولہان ہو گیا اور جوتے خون سے بھر گئے۔ اس وقت جبرائیل امین علیہ السّلام تشریف لائے اور اللہ کے حکم سے انھوں نے عرض کیا۔ ” آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم حکم دیں تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملادوں اور یہ لوگ پس کر نیست و نابود ہو جائیں “۔مگر حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم نے نہ صرف یہ کہہ کر انھیں معاف فرما یا بلکہ دعا فرمائی۔” اے اللہ ان کو ہدایت دے“۔

سوال۲: فتح مکہ کے واقع سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے۔ نیز واقعہ بیان کریں۔

جواب: فتح مکہ کے موقع پر صحن کعبہ میں قریش کا اجتماع تھا۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنھوں نے دس سال تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بے انتہا تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ جس کی وجہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی تھی۔ اب یہ لوگ مجبور و بے بس تھے اور ڈر رہے تھے کہ نہ جانے ان سے کس قسم کا انتقام لیا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ان کی طرف توجہ کی اور پوچھا۔ ”اے گروہ قریش !تم جانتے ہو میں تمھارے ساتھ کیا برتاؤ کرنے والا ہوں؟“ انھوں نے جواب دیا۔ ”ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نیک برتاؤ کریں گے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم مہربان ہیں اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی اور سب کو معاف کر دیا:
ترجمہ :” تم پر آج کوئی الزام نہیں۔ اللہ تمھا را قصور معاف کرے۔ وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے“۔ (سورة يوسف :۹۲)