سبق نمبر 11: احادیث کے نوٹس

0
  • سبق نمبر 11:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ مندرجہ ذیل احادیث میں کسی بھی ایک حدیث کا ترجمہ و تشریح تحریر کریں۔

من دلَّ على خير, فله مثلُ أجرِ فاعلِه

ترجمہ:

جس نے کسی شخص کو اچھائی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو وہی اجر ملے گا جو اس بھلائیکرنے والے کو ملے گا۔

تشریح:

اس حدیث میں بھلائی اور نیکی کرنے ، نیکی اور بھلائی پر ایک دوسرے سے تعاون کرنےکی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم پرہیزگاری اور نیکی کے کام میں ایک دوسرے کے تعاون کا حکم دیتا ہے جبکہ گناہ اور نافرمانی میں مدد کرنے سے روکتا ہے، (سورۃ المائدۃ: ۲) چنانچہ کسی کو اچھا مشورہ،رہنمائی اور تعلیم و تربیت دینےکے ذریعہ جو کوئی بھی ثواب اس کام کرنے والے کو ملے گا۔اس کے برابر اس کے معاون کو بھی ملے گا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بھلائی اور نیکی کی طرف خود بھی بڑھیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔

إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ

ترجمہ:

بدگمانی سے بچو، کیوں کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔

تشریح:

اس حدیث میں بلاضرورت خواہ مخواہ بدگمانی کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ کسی چیز کی تحقیق اور خبر گیری کے سوا کسی کے بارے میں اندازہ سے کچھ کہنا ”ظن“ یا گمان کہلاتا ہے،اگر اس میں اچھائی مقصود ہو تو یہ ”حسن ظن“ ہے، جو ایک پسندیدہ خوبی ہے، اور حدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا عبادت ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: حسن ظن اچھی عبادت ہے۔(مسند احمد، حدیث: ۷۹۵۶) اور اگر کسی کے ساتھ براگمان کیا جائے تو اس کو ”بدگمانی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی کی نیت پر شک کرنا اور بے وجہ اپنے دل میں اچھا خیال نہ رکھنا بدگمانی کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس سے منع فرمایا گیا ہے: ”اے ایمان والو! بدگمانیوں سے بچو، کیوں کہ یہ گناہ کا کام ہے۔“ (سورۃ الحجرات: ۱۲) چنانچہ کسی انسان کے بارے میں تمہارےپاس کتنی ہی بری شکایتیں پہنچتی ہوں، لیکن جب تک اس کی تحقیق نہیں ہوتی، تمہیں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے آپس کا میل میلاپ کم ہو جاتا ہے، آہستہ آہستہ یہ بدگمانی دلوں میں نفرت اور دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔جو کہ گناہ ہے۔

۲۔ ظن/گمان پر نوٹ لکھیں۔

جواب: ۔ کسی چیز کی تحقیق اور خبر گیری کے سوا کسی کے بارے میں اندازہ سے کچھ کہنا ”ظن“ یا گمان کہلاتا ہے،اگر اس میں اچھائی مقصود ہو تو یہ ”حسن ظن“ ہے، جو ایک پسندیدہ خوبی ہے، اور حدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا عبادت ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: حسن ظن اچھی عبادت ہے۔(مسند احمد، حدیث: ۷۹۵۶) اور اگر کسی کے ساتھ براگمان کیا جائے تو اس کو ”بدگمانی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی کی نیت پر شک کرنا اور بے وجہ اپنے دل میں اچھا خیال نہ رکھنا بدگمانی کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس سے منع فرمایا گیا ہے: ”اے ایمان والو! بدگمانیوں سے بچو، کیوں کہ یہ گناہ کا کام ہے۔“ (سورۃ الحجرات: ۱۲) چنانچہ کسی انسان کے بارے میں تمہارےپاس کتنی ہی بری شکایتیں پہنچتی ہوں، لیکن جب تک اس کی تحقیق نہیں ہوتی، تمہیں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے آپس کا میل میلاپ کم ہو جاتا ہے، آہستہ آہستہ یہ بدگمانی دلوں میں نفرت اور دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔جو کہ گناہ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والوں زیادہ گمان (الظن) سے اجتناب کرو بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور تجسس نہ کیا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کی غیبت کیا کرو کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے پس تم اس سے کراہت کرو گے اور اللہ سے تقویٰ اختیار کرو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔

حضور نبی کریم ﷺ نے بدگمانی کرنے کی مذمت اور ممانعت فرمائی ہے۔ حضرت ابوہرہرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا : بدگمانیکرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کو ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔(صحیح مسلم)

۳۔ محتاجوں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت کی وضاحت کریں۔

جواب: کوئی مومن کسی تکلیف، مصیبت یا پریشانی میں ہو تو ایسی صورتحال کے وقت اس کی تکلیف دور کرنا، مدد اور حاجت روائی کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔محتاجوں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت میں ان کی جسمانی اور مالی تکلیف پریشانی دور کرنا بھی، ان کا قرض ادا کرنا بھی شامل ہے۔ اگر کوئی مصیبت زدہ،پریشان یا بیمار کسی وجہ سے گھر کے کام نہ کر سکے تو اس کے گھر کے کام کر دینا، اس کے گھر و مال کا خیال رکھنا اور حفاظت کرنا۔

سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے، ہر گز بھلائی نہیں پاؤ گے۔“
اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا، نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا غرضیکہ انسانیت کے کام آنے والی تمام اشکال کو اللہ تعالیٰ نے قرض حسنہ کہا ہے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں۔

۱۔ پڑوسی کے اقسام بیان کریں۔

جواب: قرآن کریم میں پڑوسی سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی تین قسموں کو پیش کیا ہے۔(سورۃ النساء)
پڑوسی جو رشتہ دار ہے
جو صرف پڑوسی ہے
اور عارضی طور پر کچھ وقت کے لیے جن کا ساتھ یا ٹھہراؤ ہو مثلاً سفر، کلاس یا کسی ملاقات و مجلس وغیرہ کا ساتھی۔

۲۔ اکرام الضیف کی وضاحت کریں۔

جواب:جب کوئی انسان سفر کرکے کسی بھی مقصد کے لیے کسی آدمی کے یہاں پہنچے تو وہ مہمان کہلاتا ہے، اس سے مناسب طریقہ سے آنے کا مقصد پوچھنا،خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ اس کے رہائش،کھانے پینے اور آرام کا انتظام کرنا اور عزت و تکریم کرنا، ”اکرام الضیف یا مہمان کا اکرام“ کہلاتا ہے۔

۳۔ صلہ رحمی سےکیا مراد ہے تحریر کریں۔

جواب: اپنے قرابت داروں اور رشتہ داروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا، بوقت ضرورت ان کے کام آنے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ہمدردی کا رویہ اپنانے کا نام صلہ رحمی ہے۔