وہ ادھورا پیار

0

دسمبر کی ٹھنڈی چھارہی تھی۔ ہر ایک مہینہ اپنے ساتھ اک بدلاو سا لاتا ہے، سرد ہواہیں، بارش کی جھرنے اور تھوڑی تھوڑی چنبیلی جیسی سفید برف ساتھ لاۓ ہوۓ دسمبر بھی آگیا تھا۔ میں سرخ کنمبل اوڑھے ہوئے گھر کے اپنے چھوٹے سے کمرے میں سمٹ کر بیٹھا تھا۔ اس کمرے میں پڑے صوفے کی کرسییاں، ڈریسنگ ٹیبل(dressing table) اور آسمانی رنگ کا ایک چھوٹا سا آہینہ بھی تھا، جو میرے اکیلےپن کو، میرے چہرے پہ چھائی اداسی کو روز روز دیکھتے، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھسے کچھ کہنا چاہ رہے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ اس کمرے سے میرے دل کا ہر حصہ متاثر تھا اور گھر میں کسی جگہ سکوں نہیں پاتا۔ میں دن بر یہی پڑا ہوتا ہوں، اپنے ہاتھ میں لیۓ قلم کے ساتھ اپنی رنگبہ رنگی ڈائری پہ روز غالب کا ایک شعر لکھنا، میری عادت بن چکی تھی اور اس کمرے کی ہر شے کو میری عادت۔

روز کی طرح آج بھی میں ایک شعر لکھ رہا تھا، یہ وہ شعر ہے جس سے ہر وقت میں متاثر اور مطمئن رہتا ہوں۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

میری ذندگی کیوں اتنی مختلف ہے اوروں سے؟ کیوں میں ایسے اکیلے کمرے میں بیٹھا ہوں، اور کب تک رہونگا میں ایسے“؟ ایسے کہی سوال تھے میرے ذہن میں جنکا جواب میں کبھی دے نہ سکا۔ اسی سوچ میں گم تھا، میرے سامنے رکھی ”دیوان غالب“پہ میرے موبائل فون کی رنگ بجی، موبائل کی سکرین (screen) غالب کی تصویر کو چومتے ہوۓ دوسری طرف تھی۔ کون ہوسکتا ہے؟ میں نے کہتے ہوئے فون ہاتھ میں لیا، سکرین کی اور جب میری نم ہوی آنکھیں پڑی دیکھا تو اک دوست کا فون تھا۔
”ہلو(hello) مہرو“وہ مجھے پیار سے اسی نام سے پکارتا تھا”مہرو“
”کیسے ہو اور گھر میں سب کیسے ہیں’ جی ابرار “میں ٹھیک ہوں اور گھر والے بھی خیریت سے ہیں، آپ اپنا حال بتاو ابرار آج کس جرم میں یاد کیا، میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا“, بس ٹھیک ہی ہوں اور میں روز یاد کرتا ہوں آپ ہی ہو جو کبھی دھیان ہی نہیں دیتے ہماری طرف۔ اسکی آواز میں کچھ شرارتپن سا تھا، میں خاموش ہوگیا وہ شکایت کرتا گیا، آخر میں نرم لہجے سے وہ بولا ”ہمیں گومنے جانا ہے اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی ساتھ چلو، آوگےناآپ ہمارے ساتھ مہران“۔ یہ سنکر پہلے تو میں چپ سا رہ گیا پھر اسکا وہ بار بار کہنا مجھے اچھا نہیں لگا اور”ہاں“میں نے جواب دے کر کہا اچھا ابرار (i will call u back, ok bye)
میں نے جونہی فون کاٹا تو موبائل پہ مسج (mssg) آئ ابرار نے کی تھی میں نے انبکس(inbox) کھولا اور پڑھنے لگا۔

”میں جانتا ہوں مہران آپ بہت اداس تھے، آپکی اداسی دور کرنے کیلئے ہی میں نے ایک ایسی جگہ جانے کا ارادہ کیا ہے جہاں آپ ساری بکھری ہوئی خوشیاں اپنے پاس پاوگے “اپکا دوست ابرار، ﴾
دوستوں سے کہاں کچھ چھپتا ہے وہ چھوٹی سی چھوٹی باتیں پل میں سمجھ لیتے ہیں، میں اپنا درد انسے کتنا بھی چھپاتا وہ ایک دن جان ہی لیتے کہ میرے اندر کیا ہے۔

کل ٹرپ(trip) پہ جانا تھا تو میں سامان باندھنے میں مصروف ہوگیا ایسے میں پتا ہی نہ چلا کہ دن کیسے اور کہاں سے گزر گیا۔ صبح کے سات بجے تھے میرے موبائل پے ابرار کی کال آئی”مہرو اٹھو ہم گاڑی لے کر آرہے ہیں گیٹ کے پاس،وہ جلدی جلدی بولا اور میں نے نیند کی آغوش میں جواب دیا”ہاں اٹھ ہی رہا ہوں ( for 5 min wait )“. اب جانے کا وقت ہورہا تھا میں اپنا باندھا ہوا سامان لے کر چل پڑا، ارے مہران میز پر کوئی کتاب رہ گئ ہے امی نے آواز دی“میں دوڑتا ہوا واپس گھر کے اندر آیا دیکھا تو دیوان غالب رہ گئ تھی جلدی کی وجہ سے بھول گیا تھا۔ میں نے جلدی سے کتاب اپنے بستے کے اوپری والے جیب کو سپرد کردی اور روانہ ہوا۔ اچھا امی چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا“باہر آیا تو دوست انتظار کررہے تھے،

گلابی رنگ کی گاڑی چاروں طرف اڈیداس adidas) کے لگے ٹیگس tags) میرا انتظار کررہی تھی۔ گاڑی میں بہت شور تھا میں گاڑی کے آخری حصہ میں اکیلا بیٹھا تھا۔ دسمبر کی سرد ہواہیں میرے لال ہوے چہرے کو تیزی سے چھورہے تھے اور پرندوں کا چہکنا میرے کانوں میں گونج رہا تھا گاڑی ایک سبز باغ سے گزر ری تھی جہاں الگ الگ قسم کے پیڑ اور پرندے تھے، میری آنکھیں وہ نظارہ دیکھنے کو جھانک رہی تھیں، وہ یادیں وہ باتیں جو کسے کے ساتھ کبھی ارمان لیئے بیٹھے تھے میرا پیچھا ہی نہیں چھوڈ رہی تھیں، اسکی یادیں مجھے گیر رہی تھیں اور میں کچھ نہیں کرپاتا ان یادوں سے دوری نہیں بنا سکتا شاید وہ میرے جینے کا آسرا تھیں میں انکو نہیں بھولنا چاہتا۔ میں انہی یادوں میں کھویا تھا میری اگلے والی سیٹ پہ بیٹھا میرا بچپن کا دوست ابرار کہنے لگا”ارے بھائیو چلو چل کر چاۓ پیتے ہیں سفر لمبا ہے پھر رستے میں بھوک لگے گی“میں جہاں بیٹھا تھا اسکے ٹھیک سیدھ میں ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا جسکے بورڑ پہ لکھا تھا ”گرما گرم چاۓ، گاڑی سے سب اترے تھے صرف میں تھا”معلوم ہی نہیں پڑا کہ کب اترے بڑے عجیب دوست ہی میرے تو“ میں نے الجھن میں خد سے کہا ”جناب اس علاقے میں یہاں جیسی چاۓ اور کہیں نہیں ملے گی جاکے چاۓ کا لطف اٹھالو پھر ایسا نہ ہو کہ پچھتانا پڑے“ ہوٹل سے نکلتے ہوے درمیانی قد کا ایک خوبصورت لڑکا بولتے بولتے آگے بڑھ گیا۔ میں ہوٹل کے اندر آیا بہت شور تھا، میرے دھایئں طرف بیٹھے ہوۓ کپلز couples ایک دوسرے سے پیار محبت کی باتیں کررہے تھے اور بھایئں طرف بیٹھے ہوۓ میرے دوستوں کا وہی پرانا چاۓ کا جگڑا چل رہا تھا۔ مہران میں نے چاۓ رکھوادی ہے وہاں جایں پی لیں آرام سے “ابرار نے دروازے کے سیدھ میں ہی ایک خالی ٹیبل پے چاۓ کا ایک گلاس رکھ دیا تھا، میں جاکے بیٹھ گیا تو میری نظر کارنر corner میں کھڑے ہوٹل کے کونٹر counter پر پڑھی وہاں دو ویٹر waiter چاۓ بنانے میں مشغول تھے اور ایک رسپشنسٹ receptionist پیسے گننے میں مصروف تھا، وہاں ایک ٹیپ رکاڈر Tape Recorderبھی تھا ہاں!کالے رنگ کا دو سپیکر والا ٹیپ رکاڈر، جس سے مشہور گایک “محمد رفیع“کی آواز میں” سلطان مجروحی“کا لکھا ہوا گیت زوروں سے گونج رہا تھا وہ گونج میرے کانوں تک بھی پہنچی تو سنا گانا وہی تھا جو وہ مجھے اس دن اس ہوٹل میں چاۓ لیتے لیتے سنارہی تھی اسکا پسندیدہ گانا تھا۔

کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ
بھولے گا دل جس دن تمہیں
وہ دن ذندگی کا آخری دن ہوگا۔)

اس گیت سے میرا دل وہی پہنچا جہاں وہ میرے ساتھ تھی۔
کیسا لگا میرا گانا، مجھے معلوم ہے میری آواز اچھی نہیں پر دل سے گا رہی ہوں آپکے لیۓ اور آپ ہو کہ چپ بیٹھے ہو کچھ تو کہو ”مہران، ”پھر کیا خبر میرے بعد کون سناۓ گا آپ کو یہ سب“, ایسا مت کہو فریحا Fariha مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب تم گاتی ہو میرے لیے اور میں آخری وقت تک تم سے ہی سنوں گا تم مجھے چھوڈکر نہیں جاسکتی ہو میں تمہیں جانے نہیں دونگا“میں نے بہت حساس ہوکے اسکی بات کا جواب دیا، ”سوری بابا مجھے نہیں پتا تھا آپ روٹھ جاوگے معاف کردو پلیز please، اپنی آنکھوں میں مسکان لاکے وہ بولی“میں بھلا کیوں روٹھنے لگا تم سے میری جان جاتی ہے جب تم یہ باتیں کرتی ہو، چھوڈو اب چلو گھر چلتے ہیں“۔ اسنے اپنے خوشبودار ہاتھوں سے میرے گرتے ہوۓ آنسوؤں سنبھالے اور وہ ہاتھ میرے ٹھنڈے ہوتے ہوے ہاتھوں میں رکھ دیئے ”میں آپ سے دور نہیں ہونا چاہتی مہران“وہ اداس ہوکے بولی، فریحا سب جلد ٹھیک ہوگا تم گبھراومت، میں ہونا تمہارے ساتھ“ میں نے دلاسہ دیا اور پوچھا ”اچھا یہ بتاو ڈاکٹر نے کیا کہا اپریشن کے بارے میں، کب ہے؟ کچھ نہیں بس کہا ایک دو ہفتے میں ہوجاے گا دل کا معاملہ ہے جلدی نہیں کرسکتے“وہ مسکراتے ہوے بڑے سلیقہ سے میرے سوالوں کا جواب دے رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ میں اسکے مسکرانے سے اسکا چھپا ہوا درد محسوس نہیں کرسکتا۔ میں نے اسکی طرف دیکھا اورمن ہی من کہنے لگا۔
( ” ہاے تیرے درد سے ہی میرا حال جڈا ہے فریحا۔۔۔ “)

باتوں باتوں میں اسکا گھر آگیا “اچھا چلتی ہوں میرے دیوداس اپنا خیال رکھنا اور شام کو کال کرنا مت بھولنا، وہ ہستے ہوے رخصتی لی گئ اور میں روٹھتے ہوے بولا” اچھا ٹھیک ہے تم بھی اپنا خیال رکھنا اور دوائی ٹایم پہ لینا وہ کالے رنگ کا کیپشول capsule کھانے کے بعد اور لال رنگ کا ٹیبلٹ سونے سے پہلے“اچھا میرے ڈاکٹر صاحب لے لوں گی اب جاو پھر دیر ہوجاے گی Bye وہ جھوٹی مسکان لے کر اندر چلی گی اور میں اترا ہوا سا منہ لے کے چلتا بنا۔

جس راستے میں میرا گھر تھا اسی راستے کے کنارے ایک خوبصورت سی پارک تھی جہاں محبوب اپنے محبوبہ، سے ملتے جلتے تھے اس کا نام بھی The Lovers park رکھا گیا تھا۔ میں گھر کی اور جا ہی رہا تھا میری آنکھوں کے سامنے محبت کے دو پرندے ایک دوسرے سے اظہارِ محبت بار بار کررہے تھے۔
”کیا ہم بھی اسطرح ہمیشہ ساتھ رہنگے ؟“مانا کہ یہ بیساختہ سوال تھا خد سے لیکن کسی حد تک سچ بھی تھا فریحا دل کی مریض تھی اور ڈاکٹر نے کہا تھا اپریشن کے بعد بھی یہ دو تین مہینے ہی ذندہ رہ سکتی ہے۔۔ میں ایسے ہی پریشان ہوکے گھر آیا”کیا ہوا بیٹا رنگ کیوں اترا اترا سا ہے کسی نے کچھ کہا کیا میرے لاڈلے کو“, امی نے پوچھا۔ میں نے لاپرواہی سے جواب دیا جی نہیں امی طبیعت تھوڑی خراب ہےاور میں کھانا بعد میں کھاونگا ابھی مجھے سونا ہے۔ طبیعت خراب اور سونے کے بہانے سے اپنے کمرے میں تو آیا تھا لیکن آنکھوں میں نیند کہاں تھی اور طبیعت کیسی خراب تھی یہ تو فریحا کی پرواہ تھی جو اندر ہی اندر کھا رہی تھی مجھے۔

میری عادت تھی کہ میں میرے بڈروم Bedroom میں اپنے پسندیدہ بڈ پہ انکا دیا ہوا گلابی رنگ کا اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا رمال رکھا کرتا تھا۔ وہ گلابی رنگ کا رمال اسکی اور میری محبت کی نشانی تھی جس میں اسنے اپنا سارا وقت اور سارا پیار دیا تھا تب ہی وہ رمال بنی تھی، وہ بھی مخمل جیسی۔ میں میرے بڈ پے بیٹھا وہ رمال اپنے ہاتھوں میں لیے”فریحا, اب تو مجھے بھی یقین ہونے لگا کہ تم مجھے چھوڑ کے جاوگے، تمہارے بعد یہ رمال ہی میری محبت، میرا انتظار، میری ہر بات اور تمہاری وہ غصہ والی ڈانٹ ہوگی۔ اس رمال کے ساتھ میرا اہم وقت جڑا ہوا تھا، یہ رمال اسنے تب دی تھی جب اسنے پہلی بار اپنے محبت کا اظہار کیا تھا۔ اس دن وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی، پیروں میں باندھے ہوے پایئل، ہاتھوں میں گلابی رنگ کی چوڈیاں، آنکھوں میں لگایا ہوا سرمہ اور کھلے ہوے چہرے پہ مسکراہٹ، یہ سب اسکو پسند تھا۔ پائیل باندھنا گلابی رنگ کی چوڈیاں اور آنکھوں میں سرمہ لگانا، اور مسکرانا، وہ یہ سب پسند کرتی تھی بیشک اسپے یہ بہت زیادہ جچ رہا تھا۔ اتھوار کا دن تھا وہ، جب اسکے ہونٹوں سے میں نے وہ الفاظ سنے، اسکا وہ گھبرا کے میرا نام اپنے مدھم ہونٹوں سے لینا”مہران اپکو بہت چاہتی ہوں میں، I Love You, Do u Love Me“نہ جانے یہ سب باتیں مجھے آج کیوں یاد آرہی تھیں، اسکا یہ گلابی رنگ کا رمال مجھے ان یادوں میں کھینچا جا رہا تھا، تب ہی فون کا کالر ٹون سنائی دیا”vida is calling you“میں نے اسکا نمبر اسی نام سے سیو save رکھا تھا vida یعنی “ذندگی “۔ ”کیا کررہے ہو میرے دیوداس کھانا کھایا کہ نہیں مجھے ہی یاد کرتے رہے“اسنے مسکراتے ہوے پوچھا، ہاں ہاں کھایا میں نے اور اپنے دوائی لی وقت پے یا کھانے کی شرارت کرکے پھینک دی“ نہیں بابا کھائی میں نے “تھاری قسم“ یوں باتوں باتوں میں خبر ہی نہ ہوی یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی۔ اب سونے کا ارادہ ہے کہ نہیں مجھے نیند آرہی ہے میں تھکی بھی ہوں دنبر کے کاموں سے“وہ بولی، جی تم سوجاو مجھے ابھی نیند نہیں میں بعد میں سو جاوں گا ٹھیک ہے“ میں نے جب یہ کہا تو کہنے لگی ”ہاں پتا ہے مجھے کون سا سوتے ہو دن رات تو میری ہی فکر میں لگے رہتے ہو ابھی ذندہ ہوں میں مری نہیں ہوں جو آپ اتنا یاد رکھتے ہو مجھے، آپنے اپنا کوئی کام نہیں ہوتا کیا“؟ اسی ڈانٹ سے فون کاٹ دیا۔ میں نے پریشان ہوکے بڑی بیتہاشہ سے اسے اک مسج لکھی۔

(”کیسے کہوں کہ تجھسے بھی ہے واسطہ کوئی
تم نے تو آج تک کوئی گلہ نہیں کیا“)

اسکی فکر اور یاد دھیرے دھیرے میری آنکھیں بند کئے جا رہی تھی اور میں نیند کی آغوش میں لپٹ گیا۔ میں جب صبح اٹھا دیکھا تو بہت دیر ہوگئی تھی وقت کا پتہ چلے تو پاس میں رکھا فون ہاتھ میں لیا وقت کے ساتھ ساتھ اک مسج بھی تھا،Vida کے نام سے”میں انتظار کرونگی دس بجے پارک میں ملنے آجانا، اسی The lovers park میں، ضرور آنا“ اسنے آٹھ بجے مسج کی تھی، وقت دیکھا تو ساڈھے نو کے قریب تھا۔ میں جلدی سے اٹھا کھائے پئے بغیر ہی وہاں کی طرف دوڈ پڑا، وہاں پہنچا دیکھا تو وہ اکیلے ایک خوبصورت پھولوں سے سجے درخت کے نیچے بینچ Bench پہ بیٹھے میرا انتظار کررہی تھی، اسکے نزدیک آیا تو حال چال پوچھے بغیر کہنے لگی”آج ڈاکٹر سے اپاینٹمنٹ Appointment ہے میرا، شاید سرجری بھی آج ہی ہو، کیا پتا آج آخری دن ہو میری ذندگی کا“ارے مت روو پاگل کچھ نہیں ہوگا تمہیں میں نے ڈاکٹر سے بات کی ہے انہوں نے کہا تم بلکل ٹھیک ہوجاوگے اپریشن کے بعد، اور تم مجھے چھوڑ کر کیسے جاسکتے ہو ہمیں ابھی لندن London جانا ہے ساتھ میں یاد ہے نا تمہیں، وہاں گومنا ہے، رہنا ہے اپنا اک خوبصورت سا گھر بنانا ہے، ابھی بہت سے خواب باقی ہے فریحا“، اسے سہلاتے سہلاتے میری خد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ذندگی کیسے اتنی بیرحم ہوسکتی ہے اور بیونا بھی، ابھی دیکھا ہی کیا ہے میری ”vida“نے، میں خد سے یہ سوچ رہا تھا اور وہ پاگل چپ کرنے کا نام ہی نہ لیتی تھی اور کرتی بھی کیوں، اسکی ذندگی اب کہاں باقی رہی تھی۔ ”بارہ بجے ڈاکٹر سے ملنا ہے، مجھے جانا ہوگا مہران، گھر والے انتظار کررہے ہونگے انسے کہا تھا مجھے اپنی سہیلی سے ملنے جانا ہے“ ”مجھے فون کروگے نا تم فریحا، میں نے سہمتے ہوے پوچھا“ ہاں ضرور کرونگی تمہیں تو ساتھ رہنا ہوگا جب آخری وقت ہو میرا“کہتے کہتے وہ چلی گئی۔

میری آنکھوں سے ایسے آنسو آرہے تھے جیسے میرے اندر اک دریا ہو اور وہ نکلنے کیلئے رستہ بنا رہا ہو۔ اس بینچ پہ اسکی خوشبو ہی رہ گئی تھی جسم تو دور جاچکا تھا، اس خوشبو کے ساتھ میں کچھ دیر بیٹھا رہا اسکے فون کا انتظار کررہا تھا، تب ہی میرے موبائل پے رنگ بجی”مہران بھائی، دی Dii بلا رہی ہے آپ کو جلدی سے اسپتال آجایں “نمبر تو اسی کا تھا لیکن آواز کسی دوسرے کی تھی شاید اسکی بہن عائشہ تھی۔ خیر! میں دوڑتا ہوا اسپتال پہنچا، رسپشنسٹ سے پوچھا، جی فریحا نام کی لڑکی یہاں اڈمٹ Admit ہیں، چک check کرکے روم نمبر بتادیں پلیز، اسنے اپنے کمپوٹر میں جھانک کر جواب دیا ”جی، Block b2 209 icu میں ہیں“۔ اسنے جب icu کہا تو دل پہ اک عجب سا دباو آگیا لگ رہا تھا کہ میں نے فریحا کو کھودیا۔ وہاں پہنچا تو باہر امی کھڑی رو رہی تھی، میں سیدھا icu میں آیا تو وہاں بڈ bed پہ، پیروں سے سینے تک آسمانی رنگ کا کپڑا پہنے ہوے فریحا لیٹی ہوئی تھی، اسکے بگل میں اسکی چھوٹی بہن عائشہ بھی تھی، جس نے فون کیا تھا مجھے۔ میں فریحا کے پاس جاکے بیٹھ گیا اسنے میرے ہاتھ قسقے اپنے دونوں ہاتھوں میں لئےاور بولی” ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ذیادہ دیر تک میری سانس نہیں چلے گی، بس پانچ دس منٹ ہے بات کر سکتی ہوں آپ سے, اب بولو بھی کچھ ”بدھو“وہ اسوقت بھی مسکرارہی تھی، جس وقت اسے معلوم تھا کہ مجھے اب رخصت ہونا ہے، اسوقت بھی وہی مسکان، وہ دبے دبے سے کھلے ہوے گالوں پے شرم کی بوندیں۔ ”اب تمہیں بیوفا کہوں یا کچھ اور! میں کیسے رہونگا تیرے بغیر, فریحا“ یہ بھی نہیں سوچا کیا،؟ ویسے بھی میں تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکا،رب سے میری شکایت کروگے نا؟ میں نے بیساختہ سوال پوچھا اسنے با ساختہ جواب دیا

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہے
روئے زار زار کیا کیجیے ہاۓ ہاۓ کیوں

نہیں، میں انسے اتنا کہوں گی کہ ہمارے خواب پورے کریں، وہ خواب جو ہم نے ساتھ ملکر دیکھے تھے، لندن کی سڑکوں پے باہوں میں باہیں ڈال کر چلنا، وہاں اپنا ایک خوبصورت سا گھر جس کی ایک بڑی سی پارک ہو اور اسکے سامنے سمندر کا بیچ beach جہاں کھبی کبار ہم ایک دوسرے سے کھیلا کریں گے“یہ سب کہتے کہتے وہ خاموش ہوگئی، فریحا تم چپ کیوں ہوگئی کچھ بولتی کیوں نہیں، میں نے پوچھا تو کوئی جواب نہیں ملا، اسکی سانسیں رک گئی تھیں، اسکے دل کی ڈھڑکن تھم گئی تھی، اسکی آنکھوں کے بہتے ہوئے آنسو خشک ہوگۓ، اک پل کے لئے لگا کہ وقت تھم سا گیا ہو، فضا خاموش تھی اور میرے دل کی ڈھڑکن تیز۔ اسکے ہاتھ میرے ہاتھوں میں اب بھی قید تھے۔ آخری وقت اور آخری بار وہ نیڈل needle لگے ہوے ہاتھ کو چوما تو لگا، اسکی سانسیں چل رہی ہوں، اور وہ اب بھی میرے ساتھ ساتھ ہے۔۔۔بس اتنی سی تھی یہ کہانی۔