بوجھ

0

ریاض کام سے لوٹ رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر ایک بوڑھےآدمی پر پڑی جو دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور کچھ بڑبڑا رہا تھا جس کی وجہ سے ریاض اُس کی طرف متوجہ ہوا۔ قریب جاکر پتہ چلا کہ وہ غریب رحیم خان ہے۔

رحیم خان محنت مزدوری کرتا تھا اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ وہ ہمیشہ خوش رہتا تھا۔ اُس کے چہرے پر کبھی اُداسی نہیں آتی تھی۔ چاہے کم ملتا تھا یا زیادہ وہ ہمیشہ خوش ہوتا تھا اور پوری ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرتا تھا۔ وہ جس سے بھی ملتا تھا خوش اسلوبی کے ساتھ ملتا تھا لیکن آج اُس کے چہرے پر بہت اداسی چھائی ہوئی تھی۔ رات کی چاندنی میں دو موٹے موٹے آنسو اُس کے چہرے پر ہیرے کی طرح چمک رہے تھے۔ ریاض کی آواز پر وہ اچانک چونک پڑا اور اپنی حالت درست کرنے لگا۔

ارے رحیم کاکا آپ ! آپ یہاں اِس وقت کیا کر رہے ہیں اور ایسے بیٹھے ہیں سب خیریت ، ریاض نے رحیم کو پہچانتے ہوئے پوچھا ۔
رحیم خان: ریاض بابو آپ، آپ یہاں کوئی کام تھا کیا ؟ رحیم خان اپنی حالت درست کرتے ہوئے بولا؛
ریاض: نہیں کاکا میں یہاں سے گزر رہا تھا تو میری نظر آپ پر پڑی اسلئے دیکھنے آگیا کہ اس وقت کون یہاں پر ایسی حالت میں بیٹھا ہے کہیں کوئی ضرورت مند تو نہیں لیکن یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ یہ آپ ہے۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہے کاکا آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔
ریاض کے منھ سے بس ایسے الفاظ کا ادا ہونا تھا کہ رحیم خان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہی رحیم خان تھا جس کے چہرے پر آج تک کبھی کوئی شکن نہیں آئی تھی لیکن آج وہ اتنا رو رہا تھا کہ اُس کی ہچکی بندھ گئی۔
ریاض: ارے رحیم کاکا کیا بات ہے؟ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ کے بیوی بچے تو ٹھیک ہے نا؟ کسی نے آپ سے کچھ کہا کیا؟ ریاض نے ایک ساتھ کئی سوال پوچھ لئے۔۔۔۔۔ لیکن رحیم خان بس روئے جا رہا تھا۔ آخر ریاض کے بار بار پوچھنے پر رحیم خان بول ہی پڑا۔ (افسانہ : بوجھ)
بیٹا ہوا تو کچھ بھی نہیں اور نہ ہی کسی نے کچھ کہا ہے بس اپنی بے بسی سے بھاگ کر یہاں آکر بیٹھا ہوں تاکہ اس مجبور باپ کے آنسؤ کوئی دیکھ نہ لے۔

ریاض: مطلب، کاکا میں کچھ سمجھا نہیں ایسی کون سی بے بسی ہے جو آپ خود سے بھاگ رہے ہیں؟
رحیم خان: بے بسی ہی تو ہے بیٹا، اب آپ سے کیا چھپاؤں دراصل اِس بوڑھے باپ کے کاندھوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ کمزور پڑھ گیا اور اپنے آپ سے ہی بھاگنے لگا۔
ریاض: کاکا صاف صاف بتائیں نا کیا بات ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کاکا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔

رحیم خان ایک لمبی آہ کھینچتے ہوئے بول پڑا بیٹا آج تمہارے سامنے رحیم خان نہیں بلکہ ایک مجبور باپ کھڑا ہے وہ باپ جو اپنی بیٹیوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا آج اپنی بیٹیوں سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا کیونکہ اِس سماج نے مجھے اِس لائق نہیں چھوڑا کہ اپنی بیٹیوں سے نظر ملا سکوں ، اُن کو وہ خوشی دے سکوں جس کی وہ حقدار ہے۔ اُن کا گھر آباد کر سکوں۔ رحیم خان بڑے سلیقے سے ریاض سے مخاطب ہوا؛ ریاض بابو میں نے آج تک اپنی بیٹیوں کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ، میں محنت کرتا رہا اور اُن کی ہر ضرورت کو پوری کرتا گیا اُنہیں پڑھایا، لکھایا ،اچھی تربیت کی اُن کی لیکن اِس سب کے باوجود بھی، زندگی کی سب سے بڑی ضرورت (جیون ساتھی) کو پوری کرنے میں ناکام رہا۔

ریاض بابو میری بیٹیاں جوان ہوچکی ہے اور شادی کی عمر کو پہنچی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں لاچار باپ اپنی بیٹیوں کے لئے کچھ بھی نہیں کر پا رہا ہوں کیونکہ یہ جو سماج ہے نا یہاں اب شرافت کا کوئی مول نہیں رہا ہے، یہاں انسان کے پاس بیٹی بیاہنے کے لئے کچھ ہو یا نہ ہو لیکن جہیز کا بہت سارا سامان ہونا بہت ضروری ہے۔ یہاں لوگ بیٹیوں کی شرافت اور تربیت نہیں دیکھا کرتے بلکہ یہ دیکھتے ہے کہ لڑکی کو جہیز میں کتنا سامان مل رہا ہے۔

رحیم خان کی آنکھیں بھیگ رہی تھی اور وہ مسلسل کہے جا رہا تھا۔ میں نے کئی دفعہ اپنی بیٹیوں کی بات چلائی لیکن ہر بار جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ پائی۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر دفعہ بات بنتے بنتے رہ گئی۔ ریاض بابو میں نے اپنی زندگی بھر پائی پائی جوڑ کر اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے کچھ ضروری سامان جوڑا تھا لیکن بھاری جہیز نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنی بیٹیوں کو بیاہنے میں ناکام رہا۔۔۔۔۔ میں ناکام رہا ریاض بابو میں ناکام رہا، بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی ہیں لیکن! لیکن یہ جو سماج ہے نا یہ انہیں بوجھ بنا دیتا ہیں۔ اللّہ کی رحمت کو زحمت بنانے میں یہ سماج کوئی کثر باقی نہیں چھوڑتا ہے۔ میری بیٹیاں تو میرا مان ہے میرا غرور ہے لیکن صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے وہ آج تک باپ کی دہلیز پر ہی پڑی ہے۔ رحیم خان اسی گفتگو میں محو تھا کہ وہ اچانک غش کھاکر بے ہوش ہوگیا۔

ریاض: رحیم کاکا، رحیم کاکا، کاکا اُٹھیں کیا ہوگیا آپ کو۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن رحیم خان کے نہ اٹھنے پر وہ اُس کو ہسپتال لے گیا۔
ریاض: ڈاکٹر صاحب ذرا دیکھیں تو اِنہیں کیا ہوگیا ؟
آپ اِنہیں لے جائیںI’m sorry he is no more ڈاکٹر: رحیم خان کا معائنہ کرتے ہوئے
ریاض: لیکن ڈاکٹر صاحب یہ تو ابھی تک مجھ سے باتیں کر رہے تھے اچانک سے انہیں کیا ہوگیا۔
ڈاکٹر: کسی گہرے صدمے کی وجہ سے اِن کی موت واقع ہوگئی۔