Advertisement
Advertisement

نظم ایک گائے اور بکری کی تشریح

کسی ندی کے پاس اک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

یہ شعر علامہ اقبال کی نظم ” ایک گائے اور بکری” سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ کسی ندی کے پاس ایک بکری کہیں دور سے چرتی چرتی وہاں آ نکلی تھی۔

Advertisement
جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ بکری جو کہیں دور سے چرتی چرتی ندی کے پاس آ پہنچی تھی اس نے جب ندی کے پاس ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا تو اپنے پاس ہی اس نے ایک گائے کو کھڑا دیکھا۔

پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا

شاعر کہتا ہے کہ بکری نے جب گائے کو ندی کے کنارے اپنے قریب پایا تو پہلے اس نے جھک کر گائے کو سلام کیا اور پھر نہایت ادب اور سلیقے سے کچھ اس طرح اس سے بات کرنے لگی۔

Advertisement
کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بکری نے نہایت سلیقے سے گائے کو بڑی بی کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے گائے سے اس کا مزاج دریافت کیا۔

Advertisement
کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی

شاعر کہتا ہے کہ بکری کے پوچھنے پر گائے بکری سے یوں گویا ہوئی کہ چاہے اچھی ہو یا بری میری زندگی کٹ رہی ہے۔ اصل میں میری زندگی مصیبت کا شکار ہوئی ہے۔

آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے

شاعر کہتا ہے کہ گائے اپنے شکوے شکایت کے دفتر کھولتے ہوئے بکری کو بتانے لگی کہ آدمی یعنی انسان سے بھلائی کا کوئی زمانہ نہیں ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کسی جانور کا پالا کبھی انسان جیسی مخلوق سے پڑے۔

Advertisement
دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ گائے بکری کو اپنی شکایات بتاتی ہے کہ اگر میں دودھ کم دوں تو میرا مالک بڑبڑاتا ہے اور اگر میں ذرا سی کمزور ہو جاؤں تو وہ فوراً مجھے بیچنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں انسان پر اتنے احسانات کر رہی ہو ں کہ اس کے بچے میں پالتی ہوں کیونکہ میرے دودھ کی بدولت اس کے بچوں کے جسموں میں جان آتی ہے۔

سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی ایسا گلہ نہیں اچھا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب بکری نے گائے کی تمام بات سن لی تو وہ اس سے کہنے لگی کہ ایسے گلہ کرنا اچھی بات نہیں ہوتی ہے۔

یہ چراگہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایہ

شاعر کہتا ہے کہ بکری گائے کو بتانے لگی کہ یہ جو تمھیں تروتازہ چارے کے چراگاہ میسر ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوائیں اور اور ہری بھری گھاس اور سایہ وغیرہ یہ سب انسان کی بدولت ہی ممکن ہو سکا۔

Advertisement
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں

بکری گائے کو تمام نعمتوں کا احساس دلاتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ سارے مزے جو ہمیں میسر ہیں یہ سب کے سب انسان کے دم سے ہی ممکن ہیں۔ ہم اسی کی بدولت سب چیزوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بکری گائے کو کہنے لگی کہ ہمیں موجود آرام انسان کی بدولت میسر ہے تو کبھی بھی اس آرام کی قدر کو کم مت جانو اور اس وجہ سے کبھی بھی کسی انسان کا گلہ مت کرو۔

گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب گائے نے بکری کی تمام باتیں سنی توں گائے یہ سب سن کر شرما گئی۔ یوں گائے اس قدر انسان کا گلہ کرنے پر شرمندہ بھی ہوئی۔

Advertisement
دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے

شاعر کہتا ہے کہ گائے نے بی بکری کی تمام باتیں سننے کے بعد جب دل ہی دل میں تمام باتوں کو سمجھا تو اس پر اصل حقیقت کھلی پھر اس نے کچھ سوچ سمجھ کر یہ کہا ہے۔اور یہی حقیقت ہے۔

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی

بکری کی باتوں کو سمجھنے کے بعد گائے سوچ سمجھ کر یہ کہنے لگی کہ بے شک دیکھنے میں تو بکری کی ذات بالکل چھوٹی سی ہے۔مگر اس نے بات بہت عقل مندی کی کی ہے اور بکری کی بات میرے دل کو اچھی لگی ہے۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے۔

بکری چرتے چرتے کہاں نکل آئی؟

بکری چرتے چرتے ندی کنارے نکل آئی۔

Advertisement

بکری نے گائے سے کیا سوال کیا؟

بکری نے گائے سے پوچھا کہ بڑی بی آپ کے مزاج کیسے ہیں؟

Advertisement

گائے نے انسان کی کن برائیوں کا ذکر کیا ہے؟

گائے نے انسان کی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں دودھ کم دوں تو برا بھلا کہتا ہے اور اگر میں کمزور ہو جاؤں تو مجھے بیچ دیتا ہے۔

بکری نے گائے کو کس طرح تسلی دی؟

بکری نے گائے کو سمجھایا کہ اس طرح سے انسان کا گلہ کرنا ٹھیک نہیں کیوں کہ ہمیں سایہ،چراگاہیں اور جو ہرے بھرے کھیت تازہ ہوا میسر ہے یہ سب انسنا ہی کی بدولت تو ہے۔

آخر میں گائے نے کیا کہا؟

آخر میں گائے نے بکری کی بات پرکھنے کے بعد یہ سوچا کہ اگرچہ بکری کی ذات چھوٹی ہے مگر بکری کی بات دل کو لگتی ہے۔

ان مصرعوں کو اشارے کے مطابق صحیح ترتیب سے خالی جگہ میں لکھیے۔

دودھ کم دوں تو بڑ بڑا تا ہے۔
ہوں جو ڈبلی، تو بیچ کھاتا ہے
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
یہ لطف سارے اسی کے دم ہیں
گاۓ سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پر کھا برا بھلا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی

نیچے چند حروف لکھے ہوئے ہیں جن کے بیچ کا حرف غائب ہے وہاں کوئی ایسا موزوں حرف لکھیے جس سے دونوں طرف سے پڑھنے میں دو مختلف بامعنی لفظ بن جائیں۔

مثال: ن + ا + ک ناک کان
ت+ا+ر = سیدھی ترتیب: تارالٹی ترتیب: رات
ب+ا+ت= سیدھی ترتیب: باتالٹی ترتیب: تاب
ل+و+گ= سیدھی ترتیب: لوگ الٹی ترتیب: گول
پ+ا+ن= سیدھی ترتیب:پان الٹی ترتیب: ناپ
ش+ا+ل= سیدھی ترتیب: شال الٹی ترتیب: لاش
ز+ا+ر= سیدھی ترتیب: زار الٹی ترتیب: راز

دیے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے۔

ندیہم ندی کنارے سیر کو گئے تھے۔
گائےگائے دودھ دیتی ہے۔
آدمیآدمی محںت کرے تو کیا نہیں کر سکتا ہے۔
بکریبکری پالتو جانور ہے۔
زندگیزندگی گلزار ہے۔

ان لفظوں میں سے مذکر اور مؤنث الگ الگ لکھیے۔

مذکر:آ رام ، دل ، کلام ، مزاج ، بچہ ، ماجرا، گلہ ، دم ، چراگہ۔
مؤنث:بکری ، گائے ، مصیبت ، زندگی ، جان ، گھاس ، دبلی۔

یہ الفاظ جن مصرعوں میں استعمال ہونے ہیں ان مصرعوں کو لکھیے۔

شرمائی ، قدر ، پرکھا ، لطف

  • گاۓ سن کر یہ بات شرمائی
  • دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
  • لطف سارے اسی کے دم سے ہیں
  • قدر آرام کی اگر سمجھو

ان مصرعوں کے لفظوں کو صحیح ترتیب سے لکھیے۔

  • پایا گاۓ اک کو کھڑے پاس
  • پاس اک گائے کو کھڑے پایا
  • کوئی بھلا آدمی سے کرے نہ
  • آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
  • اس کو پالتی کے ہوں بچوں میں
  • اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
  • اور یہ ہری گھاس میں سا یا
  • یہ ہری گھاس اور یہ سایہ

بلند آواز سے پڑھیے اور خوش خط لکھیے۔

ندی ، جھک کر ، سلیقہ ، ٹھنڈی ، پچھتائی۔

Advertisement

Advertisement