انشائیہ (1)

0

اردو زبان میں نصاب ناگزیر ہے۔ سلیبس اگر قومی زبان میں نا ہو تو ملک و قوم خاص طور پہ طلبہ کو کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں۔
1: سب سے پہلے خود کی سوچ بوریا بستر سمیٹ کر دماغ کے ان حصوں میں جا کر سو جاتی ہے جہاں سے اس کو کم از کم انگریزی زبان میں جگا لانا ناممکنات میں سے ہے۔
2: ذہنی قوتوں یعنی خود سے کوئی ایجادات کرنے کی صلاحیتیں ٹھپ ہو کر رہی جاتی ہیں اور ڈگری مکمل کرنے خواہشات زور و شور سے کھلباتی پھرتی ہیں۔

3: تعلیم صرف ذریعۂ آمدن بن کر رہ جاتی ہے۔
4: ایک تعلیمی ادارہ کے کم از کم پانچ سو طلبہ میں سے ایک بھی مؤجد، سائنس دان ، محقق ، یا خود سے خود بنانے والا نہیں نکلتا ، سارے گندے انڈوں کی طرح سرکاری نوکریوں پر پھوٹتے رہتے ہیں۔
5: دماغ قوتیں اور قیمتی وقت انگریزی جملوں کو رٹنے میں ضائع ہو جاتیں۔

6: 16 سالہ تعلیم کے بعد بھی کوئی بھی طالب علم اپنے پڑھے گئے مضمون میں ایک حرف بھی اضافہ نہیں کر پاتا، صرف رٹو طوطا بنا نوکری کے رسے سے لٹکتا رہتا ہے۔
7: سارے سمندر علم کے رٹ کر ایک بھی ایجاد دور کی بات ایک بھی دریافت ان کے بس کا روگ نہیں بن پاتی بلکہ وبالِ جان بن جاتی ہے۔
8: صرف انسان ہی نہیں بالغ ہوتا سوچ بھی بلوغت کی عمر میں پہنچتی ہے۔ اور میں نے 20 سکیل کے سرکاری عہدے دار کو غیر سرکاری زبان پہ فخر سے گردن اکڑاتے دیکھا ہے۔ طلبہ و طالبات تو سر عام ملکی زبان کو باعثِ توہین اور انگریزی زبان کو باعثِ فخر گردانتے پھرتے ہیں۔

9: اس انگریزی اردو کے فرق نے ملکی تعلیم کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے اعلی تعلیم یافتہ
اور اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے گھٹیا تعلیم یافتہ۔
تعلیم میں بھی برہمنی اور شودری نظام راسخ ہو چکا ہے۔
9: ملک کا نصاب انگریزی میں دینے والے ماہرین تعلیم کم از کم ملک سے تعلق نہیں رکھتے ہیں، اگر رکھتے ہیں تو ملک کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔

10: قومی زبان کی اس قدر ذلالت کے بعد پوری قوم ایک مفلوج دماغ قوم بن چکی ہے، 16 سال تعلیم کے بعد بھی نا وہ تسلسل انگریزی زبان بول سکتے ہیں اور ان اس میں سوچ سکتے ہیں، نا اس میں تحقیق یعنی ریسرچ کر سکتے ہیں نا ہی کوئی بال برابر ایجاد یا دریافت کرسکتے ہیں۔

اگر ملک کی تعلیمی زبان پہلے قدم سے لیکر پی ایچ ڈی یا اعلی تعلیم تک اردو ہوتی تو کم از کم ہر دوسرے ادارے سے ابن سینا، فیثا غورث ، جابر بن حیان ، ،شیخ سعدی وغیرہ جیسے افراد ضرور نکل رہے ہوتے اب تو صرف نوکریوں کے ضرورت مند باہر نکل رہے ہیں

از تحریر عائشہ اقبال