اکبر الہ آبادی | Akbar Allahabadi Biography In Urdu

0

اکبر الہ آبادی 16 نومبر 1846ء میں الہ آباد کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے- ان کا پورا نام سید اکبر حسین رضوی اور تخلص اکبر تھا۔ اکبر کی ابتدائی تعلیم گھر اور مدرسہ میں ہوئی اور پھر محکمہ تعمیرات میں ملازمت کرنے لگے- اکبر کو قانونی عہدوں سے بڑا لگاؤ تھا- مختاری کا امتحان پاس کرنے کے بعد یہ نائب تحصیل دار بن گئے- اور اسکے بعد وکالت کا امتحان پاس کیا اور جج کے عہدے پر پہنچ گئے-

اکبر کو جوڈیشری خدمات کے عوض “خان بہادر” کا خطاب 1898ء ملا- اکبر اپنے والد کے ساتھ مجلس اور مشاعروں میں جاتے تھے- اکبر نے گھر پر ہی عربی٬ فارسی٬ اردو٬ ریاضی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی- اس کے بعد اکبر نے اسکول میں داخلہ لے لیا لیکن 1857ء کی لڑائی کی وجہ سے تعلیم چھوڑنی پڑی- انہوں نے گھر ہی پر پڑھ کر “فیوچر اور اسلام” کا سلیس ترجمہ کیا- غدر کی لڑائی کے بعد اکبر اور ان کے گھر والوں کو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا- اور اکبر کو روزی روٹی کی فکر ہونے لگی- اکبر نے نوکری شروع کی لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی سلسلہ جاری تھا- اکبر کی صیحت بگڑنے کی وجہ سے 9 ستمبر 1921ء میں ان کا انتقال ہوگیا-

 اکبر کی شادی 13-14 کی عمر میں ہو گئی تھی- انہیں اپنی بیوی پسند نہ تھی- اکبر کا طوائف خانے میں بھی آنا جانا تھا- طوائف خانے کی ایک طوائف سے ان کو محبت بھی ہو گئی تھی- اس طوائف کے مر جانے کے بعد اکبر کو کافی صدمہ لگ گیا- اکبر کو اپنی بیوی اور بچوں سے ذرا بھی لگاؤ نہ تھا-

اکبر بچپن سے ہی شعر کہنے لگے تھے- ان کو شعر و شاعری میں بڑی دلچسپی تھی- لوگ ان سے راہ چلتے شعر سننے کی فرمائش کرتے تھے-اکبر ایک مزاحیہ شاعر تھے تھے انہیں اپنی شاعری میں انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے کا بہت شوق تھا۔

“تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک (park) میں جھولو لازم ہے فضاؤں میں اڑو عرش کو چھو لو، اس بندے ناچیز کی ایک بات رہے یاد اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو!”

اکبر نے رباعی، نظم، قطعہ، طنزومزاح اور سنجیدہ شاعری کو لکھ کر اپنی بہترین شخصیت کا ثبوت دیا ہے- اکبر نے اپنی شاعری کی شروعات روایتی غزل گوئی سے کی- ان کے کلام میں لفظوں کی رنگینی ملتی ہے- شروع میں طنز و مزاح کا استعمال کرتے کرتے بعد میں  مزاحیہ شاعری بھی کرنے لگے-اکثر کہتے تھے “شاید معنی نے اوڑھا ہے ظرافت کا لحاف”۔

“ابتدا کی جناب سید نے.. جن کے کالج کا اتنا نام ہوا- انتہائی یونیورسٹی پر ہوئی.. قوم کا کام اب تمام ہوا-“

اکبر نے اپنی شاعری میں عورتوں کو بھی نصیحت دی ہے اور کہتے ہیں-

پبلک میں ضرور جاکر ٹھنی رہو۔
تقلید مغربی میں عبث کیوں ٹھنی رہو
مشرق کی چال ڈھال کا معمور اور ہے
مغرب کے نازو رقص کا اسکول اور ہے
حد سے جو بڑھ گیا تو ہے اس کا عمل خراب
آج اس کا خوشنما ہے مگر ہوگا کل خراب

اکبر نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ترقی کے بارے میں بھی ڈرتے ہوئے اس کے نقصانات بیان کئے ہیں-

برق کے لیمپ سے آنکھوں کو بچائے رکھنا
روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے

اکبر نے اس دور میں اس دور کا تذکرہ پہلے ہی کر دیا- آج انسان سائنس کی دی ہوئی ایجاد مشینوں کا عادی بن چکا ہے-

اردو شاعری میں اکبر کا مرتبہ بہت وسیع ہے- اکبر نے بہترین شاعری لکھ کر اردو ادب میں اپنا ایک الگ مقام بنایا ہوا ہے-انہوں نے ہمیشہ اپنے کلام میں مغربی طرزِ حیات کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا۔اکبر الہ آبادی ساری عمر سرسید تحریک (علی گڑھ تحریک) کے مخالف رہے لیکن سرسید کی موت پر اکبر نے کہا تھا “ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا”کلیات اکبر کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ہے۔اکبر کی کچھ مشہور نظموں کے نام درج ذیل ہیں۔

پانی کا بہاؤ، مستقبل، مدرسہ علی گڑھ، نئی اور پرانی روشنی کی مکالمت، تعلیم نسواں، نظم قومی، برق کلیسا، دربار دہلی، گاندھی نامہ، فرضی لطیفہ وغیرہ۔

Quiz On Akbar Allahabadi

اکبر الہ آبادی | Akbar Allahabadi Biography In Urdu 1