Advertisement
Advertisement

اکبر نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ شاعری میں اکبر کے استاد وحید الدین وحید اللہ بادی تھے۔ ان کا سلسلہ بشیر علی بشیر کڑوی سے ہوتے ہوئے آتش اور مصحفی تک پہنچتا ہے۔ اکبر کی ابتدائی دور کی شاعری میں وحید الہ آبادی کا رنگ صاف نظر آتا ہے۔

Advertisement

اکبر کی شاعری کا پہلا دور روایتی شاعری کا دور تھا جس میں عشقیہ مضامین کی کثرت نظر آتی ہے۔ اس دور میں بھی اکبر اپنے انداز اور اعتبار سے منفرد نظر آتے ہیں۔ غزل کی پہچان عشقیہ مضامین میں ضرور ہے لیکن اکبر کی شاعری میں حسن و عشق معاملات کا وہ ذکر نہیں ملتا ہے جو کلاسیکی شاعری میں نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر اکبر کا محبوب خیالی نہیں ہے بلکہ انسانی اور حقیقی ہے۔ اس کی جفا و وفا کا انداز بھی جداگانہ ہے۔ اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

Advertisement
محبت کر کے ان سے پھنس گئے ہیں ہم تو آفت میں
نہ دل قابو میں آتا ہے نہ ان پر زور چلتا ہے
ادھر ہم سے بھی باتیں آپ کرتے ہیں لگاوٹ کی
ادھر غیروں سے بھی کچھ عہدوپیماں ہوتے جاتے ہیں

اس کے علاوہ اس دور میں ہمیں تصوف اور اخلاق سیاسی شعور سے متعلق اشعار بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہوں:

Advertisement
ہم نے مخلوق میں ھلک کی تجلی پائی
دیکھ لی آئینہ میں آئینہ گر کی صورت
خدا کا گھر بنانا ہے تو لے نقشہ کسی دل کا
دیواروں کی کیا تجویز ہے واعظ یہ چھت کیسی
حباب آسا اٹھایا بحر ہستی میں جو سر اپنا
بنایا بس وہی موج فنا نے ہم سفر اپنا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

لیکن رفتہ رفتہ اکبر کا ذہن پختہ ہوتا گیا اور وہ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہے تھے۔ اس دور میں ادب اور سماج میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کے اثرات اکبر پر بھی پڑے لہٰذا انہوں نے ان تبدیلیوں کو تسلیم کیا اور ساتھ ہی اپنی شاعری کا رخ بھی بدل دیا:

غزل ایسی پڑھو مملو جو ہو اعلیٰ مضامیں سے
کرو اب دوسرے کوچے میں اے اکبر گزر اپنا

اکبر کی شاعری کا دوسرا دور زریں دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں ملک کی سیاسی و سماجی حالات کے پیش نظر اکبر کی شاعری کا رنگ نکھر کر سامنے آیا۔ اس دور سے ہی اکبر کی شاعری میں ہمیں طنز و مزاح کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے جو شاعری کے آخری دور تک غالب نظر آتا ہے۔

Advertisement

1877ء میں اودھ پنچ کے اجرا نے اکبر کے اس جذبہ کو بروئے کار لانے کا کام کیا۔ اکبر کے عہد میں ہندوستانی تہذیب و معاشرہ بحرانی تنزلی کے دور سے گزر رہا تھا۔ غیر ملکی تہذیب وطن پر حاوی ہوتی جا رہی تھی لہٰذا انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اس طلسم کو توڑنے کی کوشش کی۔

اس دور میں اکبر کی شاعری کے موضوعات کے بارے میں مغربی تہذیب کے نقائص کی نشاندہی اور اس کے مقلدوں کی تضحیک، غلط طرز فکر، مذہب سے بیگانگی، عقائد میں تبدیلی، آزادی نسواں، تحریک سے سید کی مخالفت اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے برے نتائج سے آگاہ کرنا۔

اس کے لئے سب سے بہترین ذریعہ طنزومزاح تھا۔ لہٰذا انہوں نے یہی رنگ اختیار کیا۔ طنز وہ مرکب جذبہ ہے جس میں محبت کا سوز، ناکام خواہشوں کی تلخی، مایوسی اور غم و غصہ، نفرت اور حقارت یا بے انصافی، بے اعتدالی یا بدنمائی کو دور کرنے کی خواہش یا آرزو ہو۔

مزاح کا سبب وہ احساس جو بے ترتیب یا بے ہنگم، بھونڈے اور غیر متوازن رویے، شخص یا منظر کو دیکھ کر محسوس ہو اور جس کے سبب مزاح نگار ہنستا ہے اور اپنے ساتھ اس خوشی میں دوسروں کو بھی شریک کرتا ہے۔

Advertisement

تبدیلی قدرت کا قانون ہے لیکن ایک وقت کے بعد فطری طور پر چیزوں میں تبدیلی کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ اکبر کا دور بھی تبدیلیوں کا دور تھا۔ اکبر تبدیلی اور ترقی کے مخالف نہیں تھے وہ اس بدلتی ہوئی تہذیب کے مخالف تھے جو اپنی اصل سے دور لے جاتی ہے اور مذہب سے لاتعلقی کا سبب بنتی ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

مذہب چھوڑو، ملت چھوڑو، صورت بدلو عمر گنواؤ
صرف کلرکی کی امید اور اتنی مصیبت توبہ توبہ
شوق لیلائے سول سروس نے اس مجنون کو
اتنا دوڑایا لنگوٹی کر دیا پتلون کو

اکبر نے سر سید تحریک کو خاص طور پر اپنے طنز کا نشانہ بنایا۔ سرسید چونکہ جدت پسند تھے اور ملک و قوم کو مصلحتاً ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ انگریزی تہذیب کو اختیار کریں اور مذہب کا قوم کی صف میں شامل ہوں۔

اکبر اس تبدیلی کے مخالف تھے۔ وہ تہذیب و مذہبی عقائد میں تحریف کے قائل نہ تھے۔ ان کو مشرقی تہذیب اور ہندوستانی روایت سے عشق تھا۔ سرسید کی فکر اور ان کے طرز تعلیم کے مخالف پر مبنی چند اشعار ملاحظہ ہوں:

Advertisement
نظر ان کی رہی کالج کے بس علمی فوائد پر
گرا کیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر

سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
چرچا ہے جا بہ جا تیرے حال تباہ کا

سمجھا ہے تو نے نیچر و تدبیر کو خدا
دل میں ذرا اثر نہ رہا لا الہ کا

میں تجھ سے ترک صوم و صلوۃ زکوۃ حج
کچھ ڈر نہیں جناب رسالت پناہ کا

شیطان نے دکھا کے جمال عروس دہر
بندہ بنا دیا تجھے حب جاہ کا

اس نے دیا جواب کہ مذہب ہو یا رواج
راحت میں جو مخل ہو وہ کانٹا ہے راہ کا

یورپ کا پیش آئے اگر آپ کو سفر
گزرے نظر سے حال رعایا و شاہ کا

دعوت کسی امیر کے گھر میں ہو آپ کی
کم سن مسوں سے ذکر ہو الفت کا چاہ کا

مغربی تہذیب کے غلبے حاکم وقت کی طرز معاشرت کی تقلید اور مذہب بننے کے ساتھ عورتوں کی تعلیم اور آزادی کا مسئلہ بھی اٹھا۔ اکبر اس کے شدید مخالف تھے۔ وہ اس تبدیلی کو قوم کے حق میں مضر خیال کرتے تھے۔ بے پردگی آج بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

اکبر نہیں چاہتے تھے ہمارے ملک کی عورتیں بے پردہ رہیں تعلیم حاصل کرنے کی دوڑ میں اپنی تہذیب کو طاق پر رکھ دے اور آزادی سے کلبوں اور پارٹیوں میں جائیں۔اس سلسلے میں مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

پردہ اٹھ جانے سے اخلاقی ترقی قوم کی
جو سمجھتے ہیں یقیناً عقل سے فارغ ہیں ہو
سن چکا ہوں میں کہ کچھ بوڑھے بھی ہیں اس میں شریک
یہ اگر سچ ہے تو بے شک پیر نابالغ ہیں وہ
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

اکبر کی شاعری فکر و فن کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اکبر کا تعلق چونکہ کلاسیکی شاعری سے تھا۔ جیسا کہ اکبر کی شاعری کا نسب مصحفی سے ملتا ہے۔ لہذا اکبر نے بھی اس شجرہ کی لاج رکھی اور اپنی شاعری میں فن کے اعلیٰ نمونے پیش کیے۔ چند مثالیں پیش ہیں:

Advertisement

تشبیہ

داغ ہائے سینہ گل ہیں آہ سرد اپنی نسیم
گلشن ہستی میں کیا اچھی ہوا کھاتا ہے دل

رعایت لفظی

رسائی زلف نے پائی قدم تک اب وہ کیوں آئیں
بہانہ خوب ہاتھ آیا کہ پابند سلاسل ہوں

روزمرہ محاورہ

تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
جو یہ کہتے ہوئے جاتے ہو دیکھا دیکھا
بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم
ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے باخدا ہونا
Hina Maheenwritten by

Advertisement

Advertisement