اخلاق حیدر آبادی | Akhlaq Haider Abadi Biography

0

ممتاز دانشور ،ماہر لسانیات ،مایہ ناز استاد ، منفرد افسانہ نگار، زیرک مترجم ، عمرانیات ،تاریخ ، نفسیات ، ہندی اور فلسفہ کے یگانہ روزگار فاضل اخلاق حیدرآبادی 11/ مئی 1958 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع لائل پور (فیصل آباد) میں ڈاکٹر عبدالحمید خان کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کا پورا نام محمد اخلاق خان ہے۔ادبی دنیا میں اپنے قلمی نام اخلاق حیدرآبادی سے پہچان کرائی ۔۔اخلاق تخلص استعمال کرتے ہیں۔ اخلاق حیدر آبادی کے آباؤ اجداد کا تعلق ہندوستان کے شہر ہوشیارپور سے ہے اور تقسیم ہند کے وقت ان کا خاندان شیخوپورہ آ کر آباد ہو گیا ۔۔ان کا خاندانی نسب شیروانی ہے جس کا سلسلہ شیروانی قبیلہ سے جا ملتا ہے۔ان کے دادا امام الدین خان جو پیشے کے لحاظ سے زراعت سے منسلک تھے۔ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے جن کی پہلی ملازمت ریڈ کراس میں ہوئی۔جس کے باعث شیخوپورہ سے پٹھان دی کوٹھی تحصیل ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں ان کے والد منتقل ہوگئے۔موجودہ ننکانہ صاحب جو کہ اب ضلع کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ان کا خاندان یہاں آکر رہائش پذیر ہو گیا اور بعد ازاں ڈاکٹر عبدالحمید خان اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں فیصل آباد شہر میں منتقل ہوگئے۔


اخلاق حیدرآبادی نے ابتدائی تعلیم پٹھان دی کوٹھی ضلع ننکانہ صاحب سے حاصل کی اور وہیں پٹھان دی کوٹھی کے پرائمری سکول سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد چونکہ ان کا خاندان فیصل آباد میں منتقل ہو گیا تھا ۔جہاں آ کر انھوں نے اپنی تعلیم جاری کی اور گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول سمن آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔گورنمنٹ کالج لائلپور ( فیصل آباد)سےبتدریج 1973 میں انٹرمیڈیٹ اور 1975 میں گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔1978 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے نفسیات کا امتحان پاس کیا۔ہندی زبان میں باقاعدہ طور پر کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ پہلے پہل گھر میں اپنی دادی سے ہندی میں خط لکھنا سیکھا ۔۔پھر ان کو ملازمت کے سلسلے میں کویت جانا پڑ گیا ، وہاں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی ذاتی دلچسپی کوشش اور محنت سے ہندی زبان کو خوب سیکھا۔دوست احباب اور اہلخانہ اور بیرون ممالک کے سفر سے ہندی زبان میں مہارت حاصل ہوئی۔مزید برآں اس سلسلے کو آگے بھی جاری و ساری رکھا۔ انھوں نے اس علم کو محض ذاتی دلچسپی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ بہت سے لوگ اس زبان و علم سے مستفید ہوئے اور باقاعدہ ہندی کی تعلیم دینے کا سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔


اخلاق حیدر آبادی نے رسمی تعلیم باقاعدہ طور پر اپنی والدہ محترمہ رحمت جان سے حاصل کی جو کہ ایک دیندار خاتون تھیں ۔اخلاق حیدر آبادی اور ان کے والد عبد الحمید خان نے اکٹھے ان سے تعلیم حاصل کی۔اس کی بنیادی وجہ ہندوستان میں اسلام کی تعلیم کی طرف کم رجحان تھا جو کہ تقسیم ہند کے بعد پھر سے مذہب کی طرف رہنمائی کی ایک روشن مثال ہے ۔۔ان کی والدہ کی وجہ سے ان کے گھر کے افراد کا رجحان دین کی طرف زیادہ راغب رہا۔اخلاق اپنے بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ان کی بڑی بہن شمیم اختر جو کہ قرآن پاک کی حافظہ ہیں اور ان کا زیادہ وقت مدینہ منورہ میں گزرا کیونکہ ان کے خاوند حافظ شبیر احمد مدنی مدینہ منورہ کی مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور وہیں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔اسی وجہ سے یہ بھی وہی قیام پذیر رہیں۔ان کے منجھلے بھائی محمد شفیق خان ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں اور ساتھ زراعت کا پیشہ اپنائے ہوئے ہیں۔ان کے سب سے چھوٹے بھائی محمد جاوید اقبال خان حافظ قرآن ہیں اور اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے والد کے پیشے ڈاکٹری کو اپنائے ہوئے ہیں اور اپنے آبائی گاؤں میں اپنا مطب چلا رہے ہیں۔


اخلاق حیدرآبادی کو شاعری کا شغف تو بچپن سے ہی تھا لیکن باقاعدہ طور پر شعر گوئی کی طرف میلان گورنمنٹ کالج فیصل آباد کی ادبی فضا میں پیدا ہوا اور پھر مشاعروں کی طرف رغبت بڑھنے لگی۔ادبی دوستوں اور معروف ادیبوں سے راہ و رسم پیدا ہوئی۔جس نے اس ذوق کو مزید جلا بخشی۔کیوں کہ شعر گوئی اور ادب کی طرف رجحان کی بنیادی وجہ ادبی سنگت ہی ہوتی ہے۔انھوں نے ابتدا میں نثری نظم کی طرف توجہ دی کہ جس میں مدعا بیان کرنے میں دقت درپیش نہ ہو پھر آہستہ آہستہ دیگر اصناف سخن پر بھی توجہ مرکوز کی۔ان کی سب سے پہلی نظم” زندگی” تھی جو کہ انھوں نے کالج کے ایک مشاعرے میں پڑھی تھی۔اس وقت یہ گورنمنٹ کالج لائلپور میں سالہ دوم کے طالب علم تھے۔اس مشاعرے میں ان کی اس نظم کو کافی سراہا گیا اور پھر مزید مشاعروں میں بھی اپنی حاضری کو یقینی بنانا شروع کر دیا جس سے ان کے فن کو مزید جلا ملی۔


اخلاق حیدرآبادی نے بسلسلہ روزگار مختلف ممالک کے سفر کیے ۔جن میں کویت ، عراق ،سعودی عرب اور مصر شامل ہیں۔انھوں نے وہاں نجار ،حداد اور معلم ایلومونیم کے طور پر کام کیا۔تقریبا عرصہ دس سال سے سلسلہ روزگار یہ ان ممالک میں مقیم رہے۔وہاں رہتے ہوئے انہوں نے مختلف ممالک کی تہذیبی ،سماجی ،ثقافتی اور معاشی زندگی کا بھرپور مشاہدہ کیا جس سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مختلف ممالک کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ معاشی و سماجی حالات کا بھی بغور مشاہدہ کیا۔


1985 کو پاکستان واپس آکر انھوں نے بنیان کی اپنی “مسلم ھوزری فیکٹری ” قائم کر لی اور ساتھ ہی درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔اگرچہ وہ درس و تدریس کو پیشہ کہنے کے سخت خلاف ہیں اور اسے نیکی اور صدقہ جاریہ سمجھ کے کرنے کے قائل ہیں اور اکثر اوقات اپنے شاگردوں کو اسی بات کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔1989 میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں تدریس کا موقع میسر آیا۔جس میں ہندی اور گرمکھی کی اسٹاف کلاسز DRL( Department of Region Languages)
کے تحت پڑھائی۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں DRL کے تحت اسٹاف کلاسز 1998 سے 2002 تک پڑھاتے رہے اور باقاعدہ طور پر پہلی کلاس 2001 میں پڑھائی۔1982 میں انھوں نے ادبی ، علمی دستاویز پر مشتمل ایک پنجابی رسالہ “سنگت” کا اجرا کیا جن کے متعدد شمارے اب تک شائع ہو چکے ہیں۔جن میں سے 18 شماروں کی ببلیوگرافی پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحقیقی مجلہ “کھوج “میں چھپ چکی ہے۔جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبہ اردو میں بطور وزٹنگ پروفیسر ایم – اے اور ایم فل میں گورمکھی اور ہندی کلاسز 2008 سے 2016 تک پڑھاتے رہے اور آج کل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس میں بطور وزٹنگ پروفیسر کلاسز لے رہے ہیں۔


انسان کی شخصیت اس کے اعمال و افعال کی آئینہ دار ہوتی ہے جیسا کہ ایک مشہور انگریزی مقولہ ہے
” Personality is a welcome guest” اخلاق حیدرآبادی جو کہ پٹھان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا پٹھانوں جیسا کھلتا ہوا چہرہ ،سرخ و سپید رنگت کی وجہ سے جاذب نظر شخصیت کے حامل ہیں۔خوش اخلاق، خوش اخلاص، خوش شکل، خوش مزاج انسان ہیں ۔۔انتہائی سادہ مزاج اور شگفتہ طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے شگفتگی اور مسکراہٹ ان کا خاصہ ہے۔


اخلاق حیدرآبادی کے خاندان میں باقاعدہ طور پر کوئی لکھاری یا ادیب نہیں ملتا،جس کا قاعدہ طور پر مطبوعہ کلام موجود ہو لیکن ان کے نانا حکیم محمّد اسحاق جالندھری شعر وادب سے شغف رکھتے تھے۔اس طرح یہ کہنا بجا ہوگا کہ شعر و سخن کا شوق انہیں اپنے نانا ہی سے حاصل ہوا ۔۔ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ اپنے نانا کے کلام میں ہی ترمیم و اضافہ کرکے انہیں سنا دیتے تھے اور بعض اوقات تو وہ خوش ہو کر شاباش دے دیتے اور کبھی کبھار ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی ۔۔اس طرح شعر و ادب کا شوق انھیں بچپن ہی سے تھا۔جس نے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے فن میں پختگی پیدا کر دی۔اخلاق حیدرآبادی خوش پوش، خوش اخلاق اور خوش مزاج انسان ہیں اور دوسروں کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں محنت اور جدوجہد کی ایک درخشندہ مثال ہیں ۔۔پروفیسر انوار الحق (ڈائریکٹر اکیڈمکس رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس )لکھتے ہیں۔”باکردار اور متوازن مزاج شخصیت کے حامل اور اپنے نام کی طرح با اخلاق انسان ہیں “۔۔ اخلاق حیدرآبادی کے مطابق سماج سے تعلق کے بغیر زندگی مکمل نہیں ہوسکتی انسان معاشرتی حیوان ہے اور سماج زندگی کے ساتھ ایسے ہی لازم و ملزوم ہے جیسے سانس کا رشتہ زندگی کے ساتھ ہے ۔۔زیادہ روابط بڑھانے کے قائل نہیں ہیں۔ مخلص دوستی کے قائل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ دوست تھوڑے ہوں اور اچھے ہوں۔طوطا چشم دوستوں کی فوج ظفر موج سے چند مخلص اور بے لوث دوست کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔

اخلاق حیدرآبادی پاکستان رائٹرز گلڈ کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب کے ایگزیکٹو ممبر بھی ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان رائٹرز گلڈ فیصل آباد کے سیکریٹری بھی ہیں جس کے تحت وہ مختلف مشاعرے اور تقریبات بھی منعقد کرواتے رہتے ہیں۔ اخلاق حیدرآبادی کے شعری موضوعات انسانی زندگی کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں کرپ ، درد مندی ، شہر ہوس ،فراق و ہجر اور زندگی سے بھر پور موضوعات ملتے ہیں۔اس ترقی یافتہ دور میں لوگوں کے بدلتے ہوئے رویے کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ان کے اردو میں دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔جس میں پہلا شعری مجموعہ “ان کہی باتیں”1984 میں سنگت پبلی کیشنز فیصل آباد سے شائع ہوا اور دوسرا شعری مجموعہ ” اکھ دے حاشیے”1988 میں شائع ہوا دو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے یہ بھی سنگت پبلیکیشنز فیصل آباد کے زیر اہتمام ارشاد کے مراحل تک پہنچا۔

” ان کہی باتیں “

اخلاق حیدرآبادی کا پہلا شعری مجموعہ ” ان کہی باتیں ” میں 41 نظمیں ،11 قطعات اور 33 غزلیات شامل ہیں۔طلاق حیدر آبادی کے شعری مجموعہ” ان کہی باتیں” میں غزلوں کے موضوعات ہلکے پھلکے اور سماجی ہیں۔معاشرتی سماجی اور عالمی مسائل کے موضوعات کو برتا گیا ہے جیسا کہ نادر جاجوی لکھتے ہیں۔
“غزلیں جو اس مجموعہ میں شامل ہیں ہلکے پھلکے رخ کی غزلیں ہیں جس میں کوئی علامت نہیں ہے سیدھے سادھے مضامین کو معاشرتی ،سماجی اور عالمی مسائل کے ہجوم کا ترجمان ٹھہرایا گیا ہے “
جب کہ اخلاق کی نظموں میں جا بجا شہر ہوس کا ذکر ملتا ہے ۔معاشرتی قدروں کی پامالی کرب و درد کی ٹیس اور زندگی کے تلخ واقعات کا ذکر نمایاں ہے۔اس کی بنیادی وجہ بیرون ممالک روزگار کے سلسلے میں ان کا عرصہ دراز تک قیام ہے ۔۔جس میں انھوں نے زندگی کے واقعات اور تلخیوں کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا اور انھیں محسوسات کو اپنے شعری اسلوب میں ڈال لیا ۔رتجگوں کا منظر ، وفا کا دامن ، جاگتے خواب اور واپس آ جا ، جیسی نظمیں خوبصورت تراکیب اور موضوع کی عمدگی کی خوبصورت مثال ہے۔


اسی سلسلے میں نادر جاجوی مزید لکھتے ہیں۔
“اخلاق حیدرآبادی گزشتہ کئی برسوں سے شعر کے تخلیق عمل میں مصروف ہیں اور ان کا کلام اخبارات و رسائل میں چھپتا آ رہا ہے۔ان کا مطالعہ فطرت کافی گہرا ہے۔ وہ اپنے ماحول کی کمال آگاہی رکھتے ہیں ان کی وسعت نگاہ ہمیشہ ان کے احساس کو اجلے اجلے شعر عطا کرتی رہی ہے۔وہ آزاد اور نسلی نظموں میں کہیں کہیں تکنیک کے تجربے کرتے نظر آتے ہیں۔غزل کا اآہنگ بھی کھٹکا ہوا محسوس ہوتا ہے اور یہ کیفیت روانی غزل سے بھی اپنی وابستگی منقطع نہیں کرتی”۔
شاعری شعور ذات ہے اور اس کے ساتھ متصادم ہونے والے لاتعداد عناصر جو ذہن کو دعوت اکتساب دیتے ہیں جس سے خوبصورت تصورات اشعار کی صورت میں جنم لیتے ہیں۔۔ اعلی درجہ کا فن کار اور شاعر اپنے وجدان سے کام لیتا ہے جو شاعری میں نئی روح پھونک دیتا ہے۔

” سائے کی دھوپ “

اخلاق حیدر آبادی کا دوسرا شعری مجموعہ “سائے کی دھوپ “2010 میں شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام منصہ شہود پر آیا۔اس میں نعت کے بعد 69 غزلیات اور 15 آزاد نظمیں ہیں۔ان کا دوسرا شعری مجموعہ “سائے کی دھوپ” پہلے مجموعہ کی نسبت عمیق معنی رکھتا ہے۔اس مجموعہ میں انھوں نے اپنی غزلوں میں محبت دوستی اور تعلق کے دکھ کو بیان کیا ہے ۔ان کی غزلوں میں داخلی کیفیات کی ترجمانی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ان کی غزلوں میں نسائیت نمایاں ہے۔عورت سے منسلک حنا ، کاجل اور پائل کا ذکر ملتا ہے۔انھوں نے نازک احساسات اور جذبات کو الفاظ کے روپ میں عمدگی سے پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ارشد کمال” سائے کی دھوپ” کے بارے میں لکھتے ہیں۔
” اخلاق حیدرآبادی محبت کا ایک معتبر حوالہ ہے ۔وہ محبت کرنا ہی نہیں جانتے بلکہ محبت کا بھرم رکھنے کے فن سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ان کی شخصیت اور شاعری میں محبت اور رفاقتوں کے معتبر موسموں کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔ان کی شاعری محبت کے چراغوں سے روشنی کشید کر کے دل و نظر کے دیاروں کو منور کرتی چلی جاتی ہے ان کے نزدیک خیال کی آغوش سے شعر کا نکلنا ایک ایسا ہی تجربہ ہے جیسا کہ زمین کی کوکھ سے پھول کا پھوٹنا اور آتش فشاں پہاڑوں کے سینوں سے لاوے کا نکلنا۔ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی رنجشوں، یاروں سے ملنا روٹھنا اور ماننا ، بچپن کے یادگار لمحوں اور نشاط و غم شگفتہ چہروں کے پیچھے چھپی ہوئی مایوسییوں ، بے نورکھڑکیوں کی طرف بڑھی ہوئی ضیاءوں ،خوبصورت اور لذت آفرین سپنوں کی عکاسی ملتی ہے””
اخلاق حیدر آبادی کے شعری مجموعے” سائے کی دھوپ” کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اردو کے ساتھ ساتھ دیو ناگری میں بھی شائع ہوا ہے۔


اس بارے میں ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں۔
” اس مجموعے کی خصوصیت یہ ہے کہ اردو کے ساتھ دیوناگری میں بھی شائع ہوتا رہا ہے جو ان کے اس اختصاص کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہندی زبان کے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے استاد ہیں اور ان کی محنت اور محبت کی بدولت نوجوان طالب علموں میں ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط بہت مقبول ہوا “”۔
اس مجموعے میں پانچ آزاد نظمیں بھی شامل ہیں جو آزاد ہونے کے باوجود وزن ،معنی اور مفہوم رکھتی ہیں۔ان کی شاعری میں معاشرے کا کردار نمایاں ہے۔ان کی شاعری زندہ معاشرے کی عکاس ہے جیسا کے اخلاق حیدرآبادی اپنی شاعری کے متعلق خود لکھتے ہیں۔
“”میری شاعری میرے ذہن اور جذبات کی عکاسی کرتی ہے یہ میری آپ بیتی ہے اور جگ بیتی بھی اس میں در آئی ہے۔میں ایک معاشرے میں زندہ ہوں اور معاشرہ خود بھی مجھ میں سانسیں لے رہا ہے میری شاعری میری زندگی کا منظر نامہ ہے اور میری شعری کائنات میری زندگی سے عبارت ہے۔””
اخلاق حیدر آبادی کی زبان و بیان صاف و دلنشیں اور دلآویز ہے تخلیق میں لزت اور دل میں سوز و گداز کی نعمت بھی ہے ان کی شاعری قلبی احساس اور خیالات کی جدت و سلاست سے مالا مال ہے۔یہ آزاد نظم میں بھی احد اور موسیقیت ہے ۔۔جس میں خوبصورت الفاظ و تشبیہات کی مدد سے مدعا کو بیان کیا گیا ہے۔شاعری وہی کام رہے جس میں پڑھنے والے کو یوں معلوم ہو کے یہ اس کی ذات پر لکھا گیا ہے۔


بقول سرور بجنوری کے۔
“” جو شاعر اپنے دل کی واردات اور احساسات بیان کرتا ہے اور اپنے کلام میں اپنے ماحول کی عکاسی کرتا ہے وہ شاعری کے میدان میں کامیاب رہتا ہے اور اس کی بات سننے والے کو متاثر کرتی ہے۔یہ صفات و کمالات جناب اخلاق حیدر آبادی کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان کی ادبی خدمت اور ادب پروری کا بین ثبوت ہیں۔”
ان کے اشعار میں محبت اور رسم دنیا کے ہشت پہلو اور جذبوں کے اکثر ملتے ہیں جو شاعری کی روایت کا حصہ ہے ان کی شاعری میں درد ،کرب ،ہجر و فراق ،سماج وغیرہ کا ذکر خصوصاً ملتا ہے۔اپنے تیز مشاہدات اور حسیات کی بدولت ان موضوعات کو شاعری کے خوبصورت سانچے میں ڈھال دیا ہے۔


اسی سلسلے میں ڈاکٹر انوار احمد اپنے دیباچے میں اخلاق حیدر آبادی کی شخصیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“”حالاں کہ اخلاق کے تخلص کے ساتھ غزل کہنا اور اچھی غزل کہنا بہت مشکل کام ہے مگر اخلاق حیدر آبادی کو بہت مشکل کام کرنے اور انہیں آسان کرنے کا شوق سا ہ۔زندگی انہوں نے اس طرح بسر کی کہ سائے نے بھی انہیں عزت عطا کی ۔مگر ان کی ریاضت اور تحمل نے ان کی شخصیت میں توازن اور کشش پیدا کردی ہے۔”” اور اخلاق حیدر آبادی کا ہی اس ضمن میں ایک شعر ہے۔


مجھے سائے کی کڑی دھوپ بھلی لگتی ہے
تو نہ ہو ساتھ تو یہ دھوپ جلاتی ہے بہت

افسانوی مجموعہ (ادھوری رات)


“ادھوری تحریر” اخلاق حیدر آبادی کا افسانوی مجموعہ ہے۔جس کی اشاعت جنوری 2010 میں عابد پرنٹنگ پریس سمن آباد فیصل آباد کے تحت ہوئی۔اس مجموعے میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں اور ان افسانوں کے اور ان کی شخصیت کے بارے میں ان کے ہم عصر ادیبوں کے خیالات یوں ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد “ادھوری تحریر ” کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔
“”خانقاہوں کے للٹھوں کو دیکھ کر جس پاکیزگی اور معصومیت کا تاثر ابھرتا ہے وہ اخلاق حیدرآبادی کی شخصیت کی دلپذیری کا بنیادی سبب ہے ،وہ تخلیق کار ہے، ایک محنتی کارکن ہے، مخلص دوست ہے اور ایثار پیشہ استاد ہے۔اس گونجتے اور چند اڑتے ہجوم میں اس کا انتظار اور اخلاق سچ مچ دل موہ لیتا ہے ۔۔اخلاق حیدر آبادی کی معصومیت ،انسان دوستی اور بخیہ گری کا میں دل سے قائل ہوں۔اس لیے انہیں بہت اچھے انسانوں میں شمار کرتا ہوں ،بلکہ وہ کسی خانقاہ کے کبوتر کی طرح پاکیزہ اور جان لیوا شکل کے روبرو خود سپردگی کے عالم میں دکھائی دیتے ہیں ،مگر ایسا معصوم اور اجلا رہنے پر مصر شخص افسانہ بھی لکھ سکتا ہے،چاہے اس نے پردیس کا کشٹ کاٹا ہو ،مختلف مزاج کے لوگ دیکھے ہیں اور اپنے تخیل کے روزن کو مشاہدہ خیال کیا ہو ،یہ میرے لئے کس قدر تعجب آمیز تھا ،جب تک میں نے ان کے یہ افسانے پڑھے اور ان میں سے زیادہ تر تخلیقات کے تجربے اور تاثیر نے اس کتاب کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔فیصل آباد میں کے عمل کے دوران ایک اور “ہوشیار پوری” کی خوبیاں دیکھ کرذات پات کے اعتبار سے میری وہابیت لرز اٹھی کہ آخر میرے دادا اپنے وطن پر کیوں گھمنڈ کرتے تھے ان کا ظاہر و باطن جتنا اجلا ہے اتنی ہی انہیں گردو پیش کے ساتھیوں، شاگردوں اور اولاد کی فکر رہتی ہے کہ وہ بھی تکبر ،حسد اور کینہ سے پاک ہوجائیں۔””

ہر افسانا موضوع میں انفرادیت اور جامعیت و اختصار کی بنا پر معنوی گہرائی رکھتا ہے ۔اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں قاری کو مرکزی حیثیت دی ہے اور اسی کو افسانے کا سب سے بڑا جزو خیال کیا ہے ۔کردار کی نفسیات اور ذہنی کشمکش اور تجسس بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
اخلاق حیدرآبادی “ادھوری تحریر “کے اختتامیہ میں لکھتے ہیں۔
“”میں نے اپنے کرداروں کو اجنبی بن کر دور سے نہیں دیکھا ان کے غموں اور خوشیوں میں برابر کا شریک رہا ہوں میرے نزدیک اس انداز تخاطب سے تحریر میں تاثیر اور افادیت زیادہ پیدا ہوئی ہے۔”
ان کی ہر افسانے میں تکنیک کی تازگی اور جدت کا احساس نمایاں ہے۔


اسی سلسلے میں ڈاکٹر انوار احمد ادوری تحریر کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔”جب تک میں نے ان کے یہ افسانے پڑھے اور ان میں سے زیادہ تر تخلیقات کے تجربے اور تاثیر نے اس کتاب کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔”
انہوں نے اخلاق کے معیار و معاشرتی الجھنوں ،اقتصادی ناہمواری و نفسیاتی کیفیتوں اور تہذیبی اقدار کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو کہیں بھی اپنی خود احتسابی کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا اور یعنی جنس زندگی اور بے جا لذت اندوزی سے بڑی کاوش سے دامن کو بچایا ہے ۔۔یہاں تک کہ ترفیع جنس کے حربے کو بھی استعمال نہیں کیا گیا لیکن باوجود اس کے افسانے کی دلکشی میں ذرا فرق نہیں آیا۔

اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں اکیسویں صدی کے سیاسی، تہذیبی اور سماجی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھے ہیں۔ کیوں کہ اکیسویں صدی کا آغاز ہی دہشت ، بربریت اور جنگ و جدل سے ہوا ہے۔ تاہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاتا کہ افراد کی طرح ادوار یا زمانے بھی Isolationمیں ظہور نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں آناً فاناً یا شب آفریدہ ہوتی ہیں۔ افراد کے رویّوں کی طرح زمانے کا مزاج بھی مختلف عوامل کے زیرِ اثر تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اخلاق حیدرآبادی نے ان تمام صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے افسانوں میں زندگی کی بھرپور عکاسی دکھائی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعہ کا نام ’’ادھوری تحریر‘‘ ہے۔ان کے بیشترافسانوں کا موضوع ’’عورت‘‘ ہے۔ عورت اور اس سے جڑے معاشی مسائل اور ضروریات اس کی کمزوریاں اور ہمت بھی اُن کے افسانوں کا موضوع ہے۔


اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں کرداروں کی نفسیات اور واقعات کے معاشرتی پس منظر کو ایک لمحے کے لیے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ایک پرمقصد سوچ کے ساتھ زندگی کو بامعنی بنانے اور اُسے سہل بنانے کی خواہش بھی رکھی۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے افسانوں میں معاشرتی اُلجھن، تضاد اور معاشرتی مسائل نمایاں ہیں۔ اُن کو زندگی کا افسانہ نگار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کے افسانے زندگی کے ترجمان ہیں ۔ ان تمام افسانوں میں معاشرتی مسائل اور معاشرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔


اخلاق حیدرآبادی نے اخلاق کے معیاروں ، معاشرتی اُلجھنوں ، اقتصادی ناہمواریوں، نفسیاتی کیفیتوں اور تہذیبی اقدار کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور اس نظریے کو کہیں بھی خود احتسابی کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ان کے تمام افسانوں میں معاشرہ اپنے مختلف پس منظر کے ساتھ جلوہ افروزہے ۔ ان افسانوں میں’’ سوسائٹی گرل‘‘ اور’’ دس کا نوٹ‘‘ اپنے اسلوب اور ہیئت کے لحاظ سے ایک ہی پس منظر میں مختلف واقعات کی ترتیب کے ساتھ لکھے گئے افسانے ہیں بلکہ’’ سوسائٹی گرل‘‘ جو کہ ان کے افسانے کا نام ہے۔یہ تو نام ہی معاشرے کو ظاہر کرتا ہے اور معاشرے کی لذت پرستی کا شکار ایک لڑکی کو جو محض خاندان کی کفالت کے لیے اپنی زندگی اس گندے اور غلیظ پیشے کی نذر کر دیتی ہے جیسے کہ افسانے میں معاشرتی پس منظر کی عکاسی کی گئی ہے:
’’جس دفتر میں کام ہوں اس میں کرشن بھی کام کرتا ہے کیا وہ لوگوں کو بتائے گا نہیں، کہ ایک عزت دار کہلانے والے بہن بھائی کیسے ہیں۔‘”


درج ذیل لائنر میں معاشرہ اور معاشرتی مسائل نمایاں ہیں۔ ایک اور جگہ یوں لکھتے ہیں:
’’شاید اس دُنیا کی ریت ہے کہ اس دُنیا میں جو دوسروں کو زندگی دینے کا ادھیکار دیتے ہیں، لوگ اُن سے زندہ رہنے کا ادھیکار چھین لیتے ہیں۔‘‘
ایک قلم کار کا ذہن عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتا ہے ۔ وہ سماج میں پیش آنے والے واقعات کو اپنے قلم سے نہ صرف تاریخ کا حصہ بناتا ہے بلکہ اس کو نئے اسلوب میں پیش کر کے عام انسانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اخلاق حیدرآبادی کا افسانہ ’’دس کا نوٹ‘‘ کا مرکزی خیال بھی سوسائٹی گرل سے ملتا جلتا ہے۔ بس نوعیت کا فرق ہے ۔ افسانے کا مرکزی موضوع زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول ہے ۔ جس میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت پیٹ کے ایندھن کا بندوبست کرنا ہے ۔ انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن بھوک نہیں۔ بھوک ہی تو ہے جو انسان سے غلط صحیح ہر طرح کے کام کرواتی ہے۔اُسے اس ان دیکھی منزل کی طرف بھی چلنے پر مجبور کر دیتی ہے جہاں سے لوٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو۔


اخلاق حیدرآبادی کے افسانوں کی یہی خاص خوبی ہے کہ انھوں نے عورت کے المیے کو اُبھارنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اردو افسانوں میں عورت کا کردار خصوصاً تقسیمِ ہند کے بعد خاص اہمیت کا حامل رہا ہے کیونکہ عورت ہر جگہ اور ہر دور میں مرد کی ہوس پرستی کا شکار ہوتی ہے۔اخلاق حیدرآبادی کا افسانہ ’’سوسائٹی گرل‘‘ اس کی زندہ مثال ہے۔ اُن کے افسانوں میں حقیقت کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے افسانوں میں اظہار، اسلوب، تکنیک کے تجربات نمایاں ہیں۔یہ افسانہ زندگی کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسی طوائف کی کہانی ہے جو ایک غریب مگر شریف گھرانے سے تھی لیکن غربت اور تنگ دستی نے اُسے یہ پیشہ اپنانے پر مجبور کر دیا اور اُس کا خاوند مجبوری اور بے بسی کی تصویر بنے گھرکی عزت نیلام ہوتے دیکھتا رہا۔ایک حساس اور باعزت دل رکھنے کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پایا ۔ کیونکہ مزدوری اور محنت کرنے کے لیے بھی جسم و جان کا ہونا ضروری ہے جس کے باعث کوئی اُسے کام تک نہیں دیتا۔ وہ زندگی کے مفہوم کو سمجھتا ہے جیسے وہ خود کہتا ہے:


’’مگر موت اتنی سستی نہیں ہوتی‘‘
’’زندگی تو ہوتی ہے‘‘
’’میں زندگی کو موت میں بدل سکتا ہوں‘‘
’’تم زندگی کے معنی بھول گئے ہو یا سمجھ نہیں رہے‘‘
’’میں صرف رشتوں کے معنی سمجھتا ہوں‘‘


کہانی میں اخلاق حیدرآبادی کا اختصاص ، جزئیات نگاری اور کرداروں کے نویکلے پن کا بیان اکیسویں صدی کے تناظر میں کیا ہے۔ اس پر زبان و بیان کا کمال ایک رنگ جماتا ہے ۔ موضوعات کی وسعت کہانیوں کے پلاٹ سے پھیل کر بعض صورتوں میں عالمگیریت کو چھو لیتی ہے، کردار بعض ایسے تخلیق کیے ، جو سراسر حقیقی ہونے کے باوجود نہایت انوکھے ، دل چسپ اور یاد رہ جانے کے لائق ہیں اور بلاشبہ اردو ادب میں بھی یہ یادگار کرداروں کی صف میں جگہ پاتے ہیں۔زندگی کا تعلق معاشرے سے ہے اور معاشرتی بے حسی کی چکی میں پسنے والا یہ غریب شخص جب زندگی سے تنگ آ جاتا ہے ۔مایوسی اور بیزاری حاوی ہو جاتی ہے تو خودکو موت کے حوالے کر دیتا ہے لیکن مرنے سے زندگی کی تلخی ختم تو نہیں ہوتی، وہ تو اپنی جگہ موجود ہے ۔ نجانے کتنی جمیلہ غربت کی چکی میں پستے پستے خود کو فنا کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔ یہ صرف معاشرے کے صاحبِ اختیار لوگوں کی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد غریب، ضرورت مند اور محتاجوں کا خیال رکھنے کے بجائے محض اپنی زندگی میں مصروف ہیں۔
افسانہ ’’ڈھلتا سایہ‘‘ اخلاق حیدرآبادی کے اسلوب کی ایک خاص بات ان کی اختصار پسندی ہے ۔ وہ نہ صرف اختصار پسند ہیں بلکہ وہ اپنے مختصر الفاظ میں اپنی بات کے ابلاغ پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوی موضوعات میں اکیسویں صدی کے معاشرے کا کردار نمایاں نظر آتا ہے ۔ ان افسانوں میں ناہموار معاشرے کے نظام اقدار کی تصویریں کھینچی ہوئی ہیں جو معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے مختلف طبقات کے افراد کی حرکات و سکنات کو بے نقاب کرتے ہیں۔


افسانے میں جنریشن گیپ کی خوب صورت اور سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ بزرگوں کے خیالات نئی نسل کے خیالات سے بہت مختلف ہیں۔ وہ اپنی روایات اور اقدار کو ہی بقا سمجھتے ہیں۔اکیسویں صدی میں یہاں انسان نے ترقی کے بہت سے مدارج طے کر لیے ہیں ۔وہاں روایات اور اقدار دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ اخلاق حیدرآبادی اپنی روایات اور اقدار کو ہی بقا سمجھتے ہیں۔ اس سے جُدا ہونا ہی ان کے فنا ہونے کا باعث بن جاتا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جس سے اکیسویں صدی کا انسان دوچار ہے۔ نئے انسان کے لیے پرانے روایات سے سمجھوتا ممکن نہیں اور یہی رویہ روایات اور اقدار کے امین کو ابدی نیند سُلا دیتا ہے۔ اکیسویں صدی کا جدید انسان اپنے بزرگوں اور اُن کے اسلاف کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ان کے جذبات کو مجروح کرتا چلا جاتا ہے اور نتیجتاً اُن سے چھٹکارہ پانے پر اطمینان محسوس کرتا ہے۔افسانے کی یہ سطریں اس معاشرتی مسئلے کی نمایاں عکاسی کرتی ہیں :’’نئے پرانے کا جو جھگڑا صدیوں سے چلا آ رہا ہے اُسے کیسے سلجھایا جاسکتا ہے ، سوائے اس کے کہ ابا جی حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں۔‘‘


یہ ایک متوسط طبقے کی کہانی ہے جب کہ امیر لوگ تو بزرگوں اور اُن کے خیالات کو برداشت کرنے کی نوبت نہیں نہیں آنے دیتے اور والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں۔ نئی اقدار نے بنی نوعِ انسان کو تہذیب تو سکھا دی لیکن احساسات و جذبات کا گلا گھونٹ دیا اور ہر وہ چیز جو نئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال نہ سکے فنا ہو جاتی ہے۔


افسانہ ’’دو نمبر‘‘ اخلاق حیدرآبادی کے افسانوں کا واضح مقصد زندگی کی حقیقتوں کو تلاش کرنا ہے ۔ وہ زندگی کے حُسن اور اُس کے حسین پہلوؤں پر کم ہی نظر رکھتے ہیں۔ بلکہ اُن کی نظر تو حقائق کے حُسن پر رہتی ہے اور وہ زندگی کے ان پہلوؤں میں بھی حُسن دیکھتے ہیں جو بظاہر حسین نہیں ہوتے لیکن اپنے فن اور اسلوب کی بدولت اس کو حسین بنا دیتے ہیں ۔ اُن کے افسانوں کا نمایاں وصف فقروں کا برجستہ اور مختصر ہونا ہے۔ تمام کہانی کرداروں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے ۔ افسانہ ’’دونمبر‘‘ ایک ایسے شخص کے گرد گھومتا ہے جو کہ معاشرتی طفیلیہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں مطلبی اور خود غرض لوگوں کی کمی نہیں ہے اور ایسے لوگ جو خود غرضی اور مطلب سے پاک ہیں اگرچہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن یہی معاشرے کا حُسن ہیں جو ایسے لوگوں سے دھوکہ کھانے کے باوجود اپنی نیک نیتی اور اچھائی نہیں چھوڑتے۔ ’’دونمبر‘‘ ایک ایسی کہانی کا موضوع ہے ۔افسانے کی درج ذیل سطور کہانی کے موضوع کو نہ صرف واضح کرتی ہیں بلکہ سماج میں ایک تاریک پہلو کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے:

’’اس کی پے سلپ کی فکر چالیس ہزار سے زیادہ ہی تھی۔ مجھے اپنی دس ہزار کی سیلری یاد آ گئی ۔ ہماری سیلری میں ہی فرق نہیں تھا بلکہ نیتوں میں بھی فرق تھا ۔مجھے وہ پورا نیت کا ’’ولی‘‘ لگا تھا۔‘‘
اخلاق حیدرآبادی کو سماجی ادیب کہا جائے تو یقیناً بے جا نہ ہو گا کیونکہ ان کی تحریر سماج سے جڑی ہے۔ ایک حساس افسانہ نگار کا دل سب کے ساتھ دھڑکتا ہے اور دوسروں کے دکھ پر کڑھتا ہے۔ ان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر کرب محسوس کرتا ہے۔ وہ سماجی ناانصافی کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح ان کے افسانوں کے موضوعات بھی زندگی کے دوزخ کے بیان سے باہر نہیں بلکہ اندر سے ہیں۔ ان کے افسانوں میں داخلیت کا رجحان ہے اور ہر افسانہ میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے ذاتی طور پر اس کا ادراک کیا اور بہت قریب سے اسے محسوس کیا اپنے ہر افسانے میں وہ نفس بہ نفس موجود ہیں۔


اخلاق حیدر آبادی نے انسانیت کے وقار و سر بلندی،جہد للبقا کے تقاضوں ،جمود کے خاتمے ، معاشرتی زندگی کے تضادات کودُور کرنے ،قارئین کی ذہنی بیداری اور جبر کے خلاف ستیز پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔۔اخلاق حیدر آبادی کی افسانہ نگاری’ اُردو افسانہ نگاری کی اُسی درخشاں روایت کا تسلسل ہے۔اپنی تخلیقی فعالیت کے دوران اخلاق حیدر آبادی کی سوچ ہمیشہ مثبت رہی ہے۔کسی کے اسلوب کی تنقیص یا تخریب سے اسے کوئی دلچسپی نہیں وہ ہمیشہ اپنی تعمیری سر گرمیوں میں مصرو ف رہتا ہے ۔ کسی کے ساتھ تقابل یا مسابقت سے اسے کوئی غرض نہیں بل کہ اس کا تخلیقی سفر ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جانب جاری رہتا ہے ۔ شجرِحیات کی خزاں رسیدگی کو دیکھ کر ایک حساس اور درد آ شنا تخلیق کار کی حیثیت سے اخلاق حیدر آبادی تڑپ اُٹھتا ہے ۔ وہ زندگی کی نو خیز کو نپلوں کو آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں اور سمے کے سم کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشا ں ہے

تحقیقی ولسانی کتب


گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں ڈیپارٹمنٹ آف ریجنل لینگویجز Department of Regional Languages کا قیام 9نومبر 2001 کو علامہ اقبال کے یوم پیدائش کی مناسبت سے عمل میں لایا گیا یہ کالج کا وہ شعبہ ہے جو سابقہ اساتذہ طلبہ کے فارسی بنگالی ازبک اور زبانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی زبانوں سندھی، پشتو،بلوچی وغیرہ کی تدریسی ذمہ داریاں اعزازی طور پر سرانجام دے رہا ہے۔۔
اخلاق حیدرآبادی نے گورنمنٹ کالج لائلپور میں DRL کے تحت ہندی زبان کی تدریس کی ابتدا رکھی جس کی سرپرستی اس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر ریاض مجید نے کی اور یوں ہندی تدریس کا آغاز ہوا ۔۔جو بعد ازاں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں بھی ایم فل کی سطح پر ہندی کلاسز کی صورت میں مزید اہمیت اختیار کر گیا۔


جس کی ابتدا ہندی قاعدے “اکھشر اکھشر موتی” سے ہوئی ۔جو بعد میں مزید ترقی یافتہ شکل اکھشر اکھشر موتیii ..ہندی زبان رسم الخط اور بنیادی معلومات اور پنجابی زبان گرمکھی رسم الخط اور بنیادی معلومات میں نظر آتی ہے ۔اخلاق حیدرآبادی نے ہندی اور گروہ مکھی کی ابتدائی تعلیم اور دیو ناگری رسم الخط پر تحقیقی و لسانی کتب تحریر کی ہیں ۔۔جو ان کی تحقیقی و لسانی حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے ۔۔جس سے عام اردو فہم رکھنے والا انسان بھی باآسانی دیوناگری رسم الخط سیکھ سکتا ہے ۔۔جس سے ہندی ادب سے باآسانی استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔۔کیوں کہ تمام قائد انتہائی سہل اور قاری کی ذہنی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیے گئے ہیں۔

اکھشر اکھشر موتی (1)


ہندی قاعدے اور اس کی تعلیم و ترویج کو جاری رکھنا اخلاق حیدر آبادی کا قابل تعریف کام ہے ۔اکھشر اکھشر موتی (i)، اکھشر اکھشر موتی ( 2) ہندی زبان رسم الخط اور بنیادی معلومات اور پنجابی زبان گور مکھی رسم الخط اور بنیادی معلومات شائع ہو چکی ہیں ۔۔اخلاق حیدر آبادی کی کتاب ” اکھشر اکھشر موتی ” 2001 میں سنگت پبلی کیشنز فیصل آباد سے شائع ہوئی جو کہ ہندی رسم الخط پر مبنی قاعدہ ہے۔انتساب اور دیباچے کے بعد ہدایات ہیں۔اور ہندی تختی اردو اور ہندی دونوں میں دی گئی ہیں ۔۔تاکہ اردو کی مدد سے ہندی رسم الخط سیکھا جا سکے اور ہندی تفتیش سیکھنے کے بعد دیو ناگری رسم الخط میں سورہ فاتحہ اور احادیث کا ترجمہ ہے تاکہ مذکورہ معلومات و ہندی معلومات و ہندی تختی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندی رسم الخط سیکھنے میں مہارت حاصل کی جا سکے۔

اکھشر اکھشر موتی (2)


اکھشر اکھشر موتی (2) 2002 میں سنگت پبلی کے کیشنز فیصل آباد سے شائع ہوا ۔۔اکھشر اکھشر موتی (1) سے اکھشر اکھشر موتی (2)تک کا سفر اخلاق حیدر آبادی کا تحقیقی و لسانی سفر ہے۔جس میں انھوں نے ابتدائی ہندی تختی کے بعد اکھشر اکھشر موتی (2)میں اسی سلسلہ کو جاری و ساری رکھا۔جس میں ہندی کی بنیادی معلومات دی گئی ہیں۔اور تصویری کہانیاں دی گئی ہیں۔جس میں تصادم کی مدد سے کہانی بیان کی گئی ہے تا کہ قاری اس سے کما حقہ فائدہ اٹھاسکے بعد بارہ مختلف ہم عصر شعرا کی غزلیں دی گئی ہیں۔مزید آٹھ ،نئی کہانیاں ،دیگر کہانیاں ، مضمون ، لوک کہانیاں اور لطائف شامل ہیں۔جو ہندی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے نہایت موزوں ہیں۔


اخلاق حیدر آبادی اور محمّد امین نعیم اپنی اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں۔
” ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ اکھشر اکھشر موتی سے اکھشر اکھشر موتی (2) تک کا سفر نہایت خوش ہوا ہے۔خوشبو کا یہ سفر یقینا آگے بڑھا ہے اور حوصلہ افزا ہے۔امن و آشتی اس وقت ہی فروغ پا سکتا ہے جب تک ان کے مفاہیم دل اور دماغ میں اتر نہ جائیں ۔ادب کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں ہوتا۔ اسے خوشبو کی طرح نگر نگر کا سفر کرنا ہوتا ہے۔”۔
اخلاق حیدرآبادی نے ہندی زبان کو ذاتی خواہش اور کوشش کے تحت سیکھا۔کہیں سے بھی باقاعدہ رسمی تعلیم حاصل نہیں کی اس کے باوجود ادب میں گراں قدر اضافہ سرانجام دیا اور ادب کو وسعت دی۔


اکھشر اکھشر موتی (2) کے فلیپ پر اخلاق حیدر آبادی کہتے ہیں۔
” اپنی لڑی کا دوسرا موتی اس اعتبار سے پیش کیا جا رہا ہے کہ آپ اسے پڑھ کر ہندی لکھنا ،پڑھنا سیکھ جائیں گے انسان اپنے دوست تو بدل سکتا ہے ہمسایہ نہیں ، اگر ہمسایہ سے تعلقات مثالی ہو جائیں تو ماں جائے سے کم ہیں ۔۔ہم جس عقیدے کے لوگ ہیں انہیں کسی علم سے دشمنی کا سبق نہیں سکھایا گیا ،ہمیں تو علم کے حصول کے لیے چین تک جانے کا حکم ہے اور ہدایات ہے ” حکمت اور دانائی مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں پاؤ اسے لے لو ۔

ہندی زبان رسم الخط اور بنیادی معلومات



ہندی زبان رسم الخط اور بنیادی معلومات اخلاق حیدر آبادی کی تیسری تحقیقی و الثانی کتاب ہے جو 2009 میں شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے شائع ہوئی ۔۔یہ تینوں کتاب میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایم فل کی تدریس میں ہندی بطور غیر ملکی زبان کے پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں جس سے یقینا ایک ایسا ہندی شناس طبقہ وجود میں آجائے گا جس سے ہمسائیگی کو مزید بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
اس بارے میں اخلاق حیدر آبادی لکھتے ہیں۔
” ہمسائے کو ہماری تہذیب میں یہ مقام حاصل ہے کہ اسے “ماں جائے ” کے برابر درجہ دیتے ہیں مشہور کہاوت ہےکہ انسان دوستوں کے انتخاب میں آزاد ہوتا ہے ۔ہمسایوں کے معاملے میں نہیں ۔ہمسایہ قدرت کا انعام و اکرام ہوتا ہے ۔۔اچھی ہمسائیگی اسی وقت ہی فروغ پا سکتی ہے جب اس کے بارے میں جانا جائے۔ جاننے کا بہترین طریقہ اس کی زبان و ادب کو جانا جائے۔”
اس کتاب کی سب سے بڑیخوبی یے ہے کہ دیو ناگری کے ساتھ ساتھ اردو رسم الخط کے حرف ،لفظ اور مشقیں پیش کر دی گئی ہیں ۔اور ساتھ ہی ساتھ چند اور مفید معلومات جیسے گنتی مہینوں کے نام دنوں کے نام اور بات اہم موقع پر کی جانے والی گفتگو کے ساتھ ساتھ ایک اہم ذخیرہ الفاظ اس طرح دیا گیا ہے کہ ان کا اردو میں تلفظ بیان کردیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے معنی بھی اردو زبان میں درج کر دئیے گئے ہیں ،۔پھر ایسی عملی مشقیں بھی دے دی گئی ہے جس میں کوئی بھی سنجیدہ طالب علم ذرا سی محنت اور کسی قدر سہولت سے ایک نئی زبان سیکھنا پڑتا ہے کتاب کے آخر میں جو دو ہے پیش کیے گئے ہیں انہیں اردو اور دیو ناگری رسم الخط میں لکھا گیا ہے ۔اور ان کا خاص امتیاز یہ ہے کہ یہ فیصل آباد یا اس کے کرم و جوار کے معروف شاعروں کے تخلیق کیے ہوئے دو ہے نظمیں اور غزلیں ہیں جس سے اس خطے کے طالب علم یقینا مانوس ہوں گے اور ہندی زبان سیکھنے میں ممدو معاون ثابت ہوں گے۔


ڈاکٹر انوار احمد ” ہندی زبان رسم الخط اور بنیادی معلومات ” کے دیباچے بعنوان ” ایک دو باتیں اس کتاب کے بارے میں ” میں لکھتے ہیں۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستانی جامعات میں اس تعصب کے دانت کمزور ہو چکے ہیں کہ ہندی زبان پڑھنے سے دو قومی نظریے کو دھچکہ لگ سکتا ہے اور نہ ہی یہ ہندی اردو تنازعہ میں کسی تاریخی موقف سے دستبرداری کے مترادف ہے کہ کوئی طالب علم اپنے ہمسائے میں موجود کروڑوں افراد کی وہ زبان تو بڑھ سکتے ہیں جس میں روزانہ اربوں سفید شائع ہو رہے ہیں اور تو اور اردو کے معروف شعراء کے کلیات بھی دیوناگری رسم الخط میں شائع ہو رہے ہیں ۔۔اس لیے ہمیں اتنی نان ہے کہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کا یہ اقدام ایک بہت بڑی پیش رفت سمجھا جائے گا۔”

پنجابی زبان گؤر مکھی رسم الخط اور بنیادی معلومات

پنجابی زبان گورمکھی رسم الخط اور بنیادی معلومات 2010 میں شعبہ اردو کی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے تحت شائع ہوئی ۔ہندی رسم الخط اور بنیادی معلومات کے بعد پنجابی میں گور مکھی اور شاہ مکھی رسم الخط اور بنیادی معلومات اس کتاب میں دی گئی ہیں۔
پنجابی زبان و ادب کے تعارف اور لسانی پس منظر کے بعد گورمکھی اور شاہ مکھی حروف-تہجی کا فرق بتایا گیا ہے جس کی وضاحت عملی مشقوں کے ساتھ کی گئی ہے ۔اور اس طرح دو دو اور تین تین حروف تہجی کو ملا کر الفاظ ترتیب دیے گئے ہیں اور عملی مشقوں سے وضاحت اور مشق میں پختگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔۔مختصر جملے، مرکب افعال ،سال کے مہینے، پچاس تک گنتی اور گرامر کے ذریعے زبان کو سمجھنے اور مہارت پیدا کرنے کے لئے عملی مشق کے دی گئی ہیں جو نہ صرف لسانی اعتبار سے زبان و ادب کی خدمت ہے بلکہ قابل تحسین کام بھی ہے جس سے ہمارے طلباء سرحدپار کے ادب سے بھی کماحقہٗ واقفیت حاصل کر سکیں گے۔


اسی بارے میں اخلاق حیدر آبادی لکھتےہیں۔۔
” پنجابی زبان بھی اردو ہندی کی طرح وہ بھاشا ہے جو پاکستان اور بھارت میں الگ الگ رسم الخط میں لکھی جانے کی وجہ سے اپنے قارئین کے ایک بڑے حلقے سے اس لیے محروم رہ جاتی ہے کہ پاکستان کے قارئین گور مکھی اور بھارت کے قارئین فارسی رسم الخط سے آگاہی نہیں رکھتے۔۔اس طرح اس زبان کا بہت سا ادبی ورثہ اپنے قدردانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے زیر نظر کتاب” پنجابی زبان گورمکھی رسم الخط اور بنیادی معلومات” کے لکھنے کا یہی مقصد ہے کے فارسی رسم الخط کے مطالعہ پر قدرت رکھنے والے قارئین گرمکھی رسم الخط میں موجود ادبی و ثقافتی ورثہ تک رسائی کے قابل ہو سکیں ۔”


کتاب کے آخر میں مختلف شعراء کی پنجابی غزلیں ،نظمیں مضامین ،کہانیاں اور کتابیات ہیں۔
اخلاق حیدرآبادی کی کتاب “پنجابی زبان گورمکھی رسم الخط اور بنیادی معلومات” کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی لکھتے ہیں۔
“میرے نزدیک یہ اقدام ٹھہرے ہوئے تالاب میں پہلا پتھر ہے جو یقینی طور پر ایک بہت بڑی انقلابی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوگا،۔میں اخلاق حیدرآبادی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ جرات مندانہ اقدام اٹھا کر تعلیمی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے

ترجمہ شدہ


“چراغوں کی رات” امرتا پریتم کا ناول ہے جس کا اردو ترجمہ اخلاق حیدرآبادی نے کیا اور 2002 میں سنگت پبلکیشن فیصل آباد نے اسے شائع کیا ۔۔اخلاق حیدرآبادی نے ۔”چراغوں کی رات” کا ترجمہ صحیح مسلسل مفہوم اور اسلوب میں کیا ہے اسی بارے میں اخلاق حیدرآبادی کہتے ہیں ۔
“میرے لئے مقام مسرت ہے کہ “چراغوں کی رات” کے میرے اس ترجمہ کو امرتا پریتم نے بہت پسند کیا اور دوستوں نے میرا مان بڑھایا۔”


چراغوں کی رات مختلف کہانیوں پر مشتمل ہے جس کا ترجمہ اخلاق حیدرآبادی نے ادبی دیانتداری سے کیا ہے جو رواں اور ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں ایک گرانقدر اضافہ بھی ہے۔جس سے اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کے لئے یقینا ایک قابل قدر اضافہ ہے۔امرتا پریتم نے اس ناول کے ترجمہ چراغوں کی رات کے بارے میں مرغوب علی لکھتے ہیں۔
“امرتا پریتم کے ناول کا ترجمہ اخلاق حیدرآبادی نے اتنا رواں اور ادبی دیانتداری کے ساتھ کیا ہے کہ ان سے بہت سی مزید توقعات بندھ گئی ہیں۔


کسی ادبی فن پارے کا ترجمہ کرنے کے لئے اس زبان پر عبور حاصل ہونے کے علاوہ ترجمے کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ اصل متن کی روایت کو برقرار رکھا جائے کہ اس کی دلکشی میں ذرا فرق نہ آئے اور نہ ہی اس میں تصنع کا گمان ہو ۔اخلاق حیدرآبادی بطور مترجم ان جملہ خصوصیات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔


اپنی مختلف النوح وقیع تصانیف سے اخلاق حیدر آبادی نے اردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیاوہ تاریخ ِ ادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ اخلاق حیدر آبادی کی ان تمام تصانیف کی علمی وادبی حلقوں نے بہت پزیرائی کی:
اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے اخلاق حیدر آبادی نے اس امر کو ملحوظ رکھا ہے کہ جہاں انسان کواپنی انا اورخودداری کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے وہاں خلوص، دردمندی اور عجز و انکسار کا دامن بھی ہاتھ سے چُھوٹنے نہ پائے۔۔ان کی تصانیف کے مطالعہ سے یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے حق گوئی ،بے باکی،حریتِ ضمیر ،ایثار اورانسانی ہمدردی کو شعار بنایا ،انھیں قوم اور معاشرے نے عزت اور وقار کے بلند منصب پر فائز کیا ہے۔