Advertisement
Advertisement
  • کتاب” اپنی زبان “برائے چھٹی جماعت
  • سبق نمبر20:کہانی
  • مصنف کانام: ڈاکٹر ذاکر نائیک
  • سبق کا نام: آخری قدم

خلاصہ سبق:

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نیک آدمی تھا جسے سب لوگ برا اور کنجوس کہتے تھے۔اس کی نیکی کا حال محض وہ لوگ جانتے تھے جن کی یہ مدد کر چکا تھا۔ نیک آدمی کا ماننا تھا کہ یہ دولت اللّٰہ کی امانت ہے تو اسی کے سپرد کی جائے۔

Advertisement

وہ نیک آدمی اپنی دولت غریبوں اور مستحق لوگوں پر خرچ کرتا تھا۔ نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے گزر بسر کرتی تھیں ۔ وہ کتنے ہی یتیم بچوں کی کفالت کرتا اور ان کے تعلیمی خرچ اٹھاتا تھا۔ اس کی نیکی کا حال اللہ کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔ جبکہ خود وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتا اور معمولی لباس پہنتا اور معمولی غذا کھاتا تھا ۔یہاں تک کہ وہ بہت کنجوس مشہور ہو گیا۔

بعض لوگ اس کی دولت سے اس لیے جلتے تھے کہ وہ اسے رنگ رلیوں اور کھیل تماشے میں گھسیٹنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنی ہی دھن میں لگا رہتا تھا۔ وہ دوسروں کی مدد یوں کرتا کہ ایک ہاتھ سے دیتا تو دوسرے کو خبر تک نہ ہوتی۔ لوگوں کی باتیں سن کر اس نیک آدمی کو سخت رنج پہنچتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ وہ تنہائی میں اپنی ڈائری حساب امانت کو پڑھتا جس سے اس کو دلی سکون ملتا تھا۔ یوں لوگوں کی ان باتوں کا رنج کم ہو جایا کرتا تھا۔

Advertisement

نیک آدمی “حساب امانت” میں اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا۔ اس نے جس کو بھی کچھ دیا تھا وہ اس کتاب میں درج تھا۔ کتاب میں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں درج تھیں۔ کسی یتیم کو تعلیم کے لیے وظیفہ دیا تھا تو پندرہ سال بعد کی تاریخ میں درج تھا کہ اب وہ احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے میں ناظم ہیں۔

Advertisement

کتابوں کے کاروباری کو ایک بار سخت پریشانی کے عالم میں دو ہزار روپے دیے تھے تو کئی سال بعد اس کی کیفیت میں لکھا کہ آج خط آیا ہے کہ اس شخص نے سیرت پاک کے ایک لاکھ نسخے طبع کر کے طلبہ میں مفت تقسیم کیے۔ اسی طرح ایک مدرسے کی مالی امداد کی جس کی آج کئی شاخیں قائم ہیں۔نیک آدمی کا ارادہ تھا کا وہ اپنی کتاب حساب امانت لوگوں کہ لیے چھوڑ جائے گا تا کہ اس کے جانے کے بعد ان کو اس کی نیکیوں کا علم ہو جومسلسل اس کے خلاف بولتے تھے۔

ایک روز یہ اچانک بیمار ہو گیا۔ اس کی طبیعت مسلسل بگڑنےلگی۔ نیک آدمی کو احساس ہو گیا کہ اب اس کا آخری وقت آ پہنچا ہے۔ یہ وقت اس کے لیے فیصلے کی گھڑی تھی۔ وہ اپنے اعمال ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ۔آخری وقت میں اسے خیال آیا کہ کسی اور کو شرمندہ کر کے اسے کیا ملے گا۔ بلکہ اس کی زندگی بھر کی نیکی اس کے اس عمل سے ضائع ہوجائے گے۔

Advertisement

یہ سوچ کر آخری وقت میں اس نے اپنے ارداے پہ عمل کرنے کی بجائے اس کتاب کو ضائع کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی کتاب کو آگ کی انگیٹھی میں ڈال دیا۔ یوں مؤذن کی اذان کے ساتھ نیکیوں کے اس سالار نے اپنی آنکھیں موند لیں۔

سوچیے اور بتایئے:

نیک آدمی میں کیا خوبیاں تھیں ؟

نیک آدمی کا ماننا تھا کہ یہ دولت اللّٰہ کی امانت ہے تو اسی کے سپرد کی جائے۔ وہ نیک آدمی اپنی دولت غریبوں اور مستحق لوگوں پر خرچ کرتا تھا۔ نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے گزر بسر کرتی تھیں ۔ وہ کتنے ہی یتیم بچوں کی کفالت کرتا اور ان کے تعلیمی خرچ اٹھاتا تھا۔ اس کی نیکی کا حال اللہ کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔ جبکہ خود وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتا اور معمولی لباس پہنتا اور معمولی غذا کھاتا تھا۔

لوگ اس نیک آدمی کو برا کیوں کہتے تھے؟

لوگ اس نیک آدمی کو اس لیے برا بھلا کہتے تھے کہ وہ اپنی سخاوت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتا اور اتنی دولت ہونے کے بعد بھی بہت سادہ زندگی گزارتا، معمولا، کپڑے پہنتا، معمولی کھانا کھاتا۔ یہاں تک کہ وہ بہت کنجوس مشہور ہو گیا۔

بعض لوگ اس کی دولت سے کیوں جلتے تھے؟

بعض لوگ اس کی دولت سے اس لیے جلتے تھے کہ وہ اسے رنگ رلیوں اور کھیل تماشے میں گھسیٹنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنی ہی دھن میں لگا رہتا تھا۔

Advertisement

وہ نیک آدمی اپنی دولت کن کاموں پر خرچ کرنا چاہتا تھا ؟

وہ نیک آدمی اپنی دولت بیواؤں کی مدد کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، مدرسے چلائے ، بیماروں کے لیے شفاخانے کھلوانے اور دین کے فروغ پر خرچ کرتا تھا۔

وہ سیدھے ہاتھ سے دیتا تو الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی اس جملے کیا مطلب ہے؟

اس جملے کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کی انتہائی خاموشی سے دوسروں سے چھپا کر مدد کرتا تھا۔

نیک آدمی”حساب امانت ” میں کیا درج تھا ؟

نیک آدمی “حساب امانت” میں اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا۔ اس نے جس کو بھی کچھ دیا تھا وہ اس کتاب میں درج تھا۔ کتاب میں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں درج تھیں۔ کسی یتیم کو تعلیم کے لیے وظیفہ دیا تھا تو پندرہ سال بعد کی تاریخ میں درج تھا کہ اب وہ احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے میں ناظم ہیں۔ کتابوں کے کاروباری کو ایک بار سخت پریشانی کے عالم میں دو ہزار روپے دیے تھے تو کئی سال بعد اس کی کیفیت میں لکھا کہ آج خط آیا ہے کہ اس شخص نے سیرت پاک کے ایک لاکھ نسخے طبع کر کے طلبہ میں مفت تقسیم کیے۔ اسی طرح ایک مدرسے کی مالی امداد کی جس کی آج کئی شاخیں قائم ہیں۔

Advertisement

لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر نیک آدمی کیا کرتا تھا ؟

لوگوں کی باتیں سن کر اس نیک آدمی کو سخت رنج پہنچتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ وہ تنہائی میں اپنی ڈائری حساب امانت کو پڑھتا جس سے اس کو دلی سکون ملتا تھا۔ یوں لوگوں کی ان باتوں کا رنج کم ہو جایا کرتا تھا۔

نیک آدمی کا ارادہ کیا تھا ؟

نیک آدمی کا ارادہ تھا کا وہ اپنی کتاب حساب امانت لوگوں کہ لیے چھوڑ جائے گا تا کہ اس کے جانے کے بعد ان کو اس کی نیکیوں کا علم ہو جومسلسل اس کے خلاف بولتے تھے۔

نیک آدمی نے آخری وقت میں اپنے ارادے پر عمل کیوں نہیں کیا ہے؟

آخری وقت میں نیک آدمی کو خیال آیا کہ کسی اور کو شرمندہ کر کے اسے کیا ملے گا۔ بلکہ اس کی زندگی بھر کی نیکی اس کے اس عمل سے ضائع ہوجائے گے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری وقت میں اس نے اپنے ارداے پہ عمل کرنے کی بجائےباس نے کتاب کو ضائع کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی کتاب کو آگ کی انگیٹھی میں ڈال دیا۔

Advertisement

اس سبق میں لفظ امانت دار آیا ہے۔ جس کے معنی ہیں امانت رکھنے والا۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں کے آگے “دار” لگا کر لفظ بنائیے۔

دمدم دار
جانجاندار
ہواہوادار
وفاوفادار
طرح طرح دار
خبرخبر دار
عزتعزت دار
شان شان دار
سمجھسمجھ دار
خارخاردار

نیچے دیے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

دھن کا پکا ہونااحمد اپنی دھن کا پکا ہے کہ جو کام ٹھان لے اسے کر کے چھوڑتا ہے۔
ٹھیس لگنالوگوں کے غلط رویوں سے ہمیشہ انسان کے دل کو ٹھیس لگتی ہے۔
جی خون ہونالوگوں کے منفی رویے انسان کے جی کو خون کر دیتے ہیں۔
سر نہ اٹھناانسان کی محنت اس کے سامنے کسی دشمن کا سر نہیں اٹھنے دیتی۔
حالت خیر ہونابچے کی حادثے کی خبر پا کر ماں کی حالت خیر ہوگئی۔

لکھیے: نیک آدمی کی کہانی اپنے لفظوں میں لکھیے:

ملاحظہ کیجئے “خلاصہ سبق”

Advertisement

اس کہانی کا کوئی نیا عنوان لکھیے۔

خاموش نیکی۔

Advertisement