عقیدہ آخرت کا مفہوم اور اہمیت ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 08:

سوال۱: عقیدہ آخرت پر نوٹ لکھیں:

جواب:انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تکلیف اور آلام سے آرام و مسرت کے مقابلہ میں زیادہ متاثر ہوتا ہے اور جس سے زیادہ ٹھیس اور تکلیف محسوس ہوتی ہے اس کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے،خوشیاں آتی ہیں تو قطعی طور پر اس سے متاثر ہو جاتا ہے لیکن وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ خوشی کہاں سے آئی سے کہاں کھو گئی۔البتہ وہ مصیبت کے بارے میں ضرور سوچتا ہے کہ کہاں سے آئی؟ کیونکرآئی؟ اور کس طرح اس سے بچنے کی فکر کرے؟ انسان اس پر زیادہ غور نہیں کرتے لیکن خواص موت کی تلخی کے مزے سے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔ انسان جنازے اور موت کے سانحے دیکھتا ہے تو اسے اپنی موت یاد آجاتی ہے۔ اس کے ذہن میں یہ الجھن پیدا ہوتی ہے کہ انسان اس زندگی سےگزر کر کہاں جاتا ہے اور اس کے پیچھے کیا ہے؟یہ تو عام بات ہے کہ جس پر سب عوام و خواص غور کرتے ہیں۔

یہ چند روزہ زندگی ہمیں کسی نہ کسی طرح کسی مشغلہ میں مصروف رکھتی ہے جسے ہم بظاہر سکون سمجھتے ہیں۔ ہر فعل کا ایک ردعمل اور ہر کوشش کاثمر حاصل ہونے کا وہ یقین رکھتا ہے۔ نیکی کا پھل اچھا اور بدی کا برا جانتا ہے جس کے نتیجے میں اسے اس زندگی میں ہی مل جاتے ہیں مگر بہت سی برائیاں اور شرارتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ڈھکی چھپی رہتی ہیں اور ان کی وجہ سے بدنامی اور رسوائی تک نہیں ہوتی تو سوچنا یہ ہے کہ ظالموں کے ظلم کا انجام اور مظلوموں کے صبر کا نتیجہ نہیں نکلے گا؟

اب معاملہ تمام دنیا کے انواع و اقسام کا ہے۔ آدمی مرتے ہیں تو دوسرے پیدا ہو جاتے ہیں۔ درخت اور جانور فنا ہوتے ہیں تو دوسرے پیداہو جاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب یونہی چلتا رہے گا اور کیا انسانی زندگی کسی طرح کسی حد پر پہنچ کر یہ سلسلہ ختم نہ ہوگا اور کیا یہ زمین، یہ روشنی حرارت اور قدرتی پیداوار میں کبھی زوال نہیں آئے گا۔ اور کیان کے لئے کوئی معیاد اور مدت مقرر نہیں ہے اور کیا ان کے انتظار میں کبھی فرق نہ آئیگا۔اس لئے ہمیں ان سب کے خالق اور پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ وہ کیا فرماتا ہے کیونکہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ باوجود انہتائی کوشش کے اپنی زندگی کو ایک ہی حال میں برقرار رکھ سکتے ہیں۔

سوال۲: اسلام کا تصور آخرت بیان کریں؟

جواب:اسلام نے ان سوالات کا حل پیش کیا ہے وہ کہتا ہے:
انسان کی دنیوی زندگی دراصل آخرت کی زندگی کا مقدمہ ہے۔ یہ زندگی عارضی اور وقتی ہے اور آخرت کی زندگی پائیدار اور دائمی، یہ زندگی ناقص اور وہ کامل، تمام اعمال کے نتائج اس زندگی میں سامنے نہیں آتے بلکہ آخرت میں اس کے پھل خوشگوار یا ناگوار ملیں گے اور جو کچھ اس دارالعمل میں کیا ہے اس کا دارالجزاء وسزا میں پھل ملے گا۔

جس طرح انسان کی الگ الگ اور انفرادی طور پر ہر چیز میں زوال اور فساد پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح پورے اس نظام عالم کی بھی ایک عمر اور مدت ہے جس کے ختم ہونے پر سب کارخانہ ختم اوردرہم برہم ہو جائے گا جس کا نظام ہماری دنیا سے جداگانہ ہوگا۔

اس دنیا کا نظام ختم ہونے پر ایک عظیم الشان ”عدالت“ قائم ہوگی جس میں ہر انسان کے عمل کا حساب لیا جائے گا اور انسان کو ایسی ہی جسمانی زندگی ملے گی اور وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوگا۔
اسلام کے پیش کئے ہوئے نظام آخرت سے پہلے ان کوششوں کا ذکر ضروری ہے جو انسان نے اپنی عقل کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کی ہیں تاکہ اصل حقیقت واضح ہوجائے۔

سوال۳: اسلام کا عقیدہ آخرت اور اس کے اثرات بیان کریں:

جواب: اسلام کا عقیدہ آخرت اور اس کے اثرات:
گزشتہ عقائد بمطل کے غیر اطمینان تصورات کے بعد اب تیسرے حل سامنے آتا ہے ہم اس پر غور کریں تو اس سچائی اور حقانیت کو تسلیم کرنا پڑے گا کیوں کہ اسلام کی تعلیمات میں ان بنیادی سوالات کے واضح اور مدلل جوابات ہیں۔

ایک دن اللہ تعالیٰ تمام عالم اور مخلوق کو فنا کر دے گا۔
فنا کرنے کے بعد پھر انہیں ایک زندگی بخشے گا اور سب کے سامنے حاضر ہوں گے۔
تمام انسان اپنے دنیوی اعمال کا حساب (نامہء اعمال)اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال میں نیکیوں اور برائیوں کا وزن کرے گا جس کی نیکیاں غالب اور زیادہ ہوں گی انہیں جزا اور جن کی برائیاں زیادہ ہوں گی انہیں سزا دے گا۔

یہ بنیادی سوالات کے جوابات ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے پیش کئے ہیں اب عقلی طور پر ان کے بارے میں غور کریں تو یہ سب صحیح اور عقل کے نزدیک قابل یقین ہیں۔