عقائد اور ارکان اسلام کا بیان، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 09

سوال۱: اسلامی تشخص سے کیا مراد ہے؟

جواب: اسلامی تشخص سے مراد ایسے تمام عقائد ونظریات اور اعمال و اخلاق ہیں، جو ایک مسلمان کو دوسرے تمام انسانوں سے الگ اور ممتاز کرتے ہیں۔

سوال۲: ارکانِ اسلام سے کیا مراد ہے؟

جواب: ارکان رکن کی جمع ہے جس کے معنی ”ستون“ ہیں۔ رکن ایسی چیز کی کہتے ہیں جس پر کسی عمارت کے قائم رہنے کا دار و مدار ہو۔ یہاں ارکان اسلام سے مراد دین کے وہ بنیادی اصول و اعمال ہیں جن پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر اٹھائی گئی ہے۔ اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

سوال۳:ارکانِ اسلام میں سب سے اہم کیا ہے؟

جواب:ارکان اسلام میں سب سے اہم کلمہ شہادت ہے جس کے الفاظ ہیں:
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کےبندے اور اس کے رسول ہیں۔

سوال۴:کلمہ شہادت کا مفہوم کیا ہے؟

جواب:کلہ شہادت کا پہلا حصہ یعنی اشھد ان لاالہ الا اللہ عقیدہ توحید ہی کا اعلان واعتراف ہے۔ کلمہ شہادت کا دوسرا حصہ یعنی اشھد ان محمد عبدہ ورسولہ اس امر کا اعلان ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور سچے رسول ہیں اور آپﷺ کا پیش کردہ دین ہی دین حق ہے۔ ان دونوں باتوں کی گواہی دیئے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔ گوبظاہر توحید و رسالت دوہیں، لیکن دراصل دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کو مانے بغیر کوئی شخص رسولﷺ کو مان سکتا ہے اور نہ رسولﷺ کو تسلیم کیے بغیر اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتا ہے۔(چونکہ رسول ﷺ پر ایمان لانے کےمفہوم میں آپﷺ کی بتائیہوئی تعلیمات کو تسلیم کرنا شامل ہے) جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ و رسول کی اس طرح اطاعت کی جائے کہ دل کی تمام خواہشات شریعت اسلامی کے تابع ہو جائیں۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمائیں:
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے دل کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔

سوال۵:عقیدے کا کیا مطلب ہے؟ اس کی اہمیت واضح کریں؟

جواب: اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کا عقیدہ اسلام میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے جس کے بغیر کوئی انسان مسلمان نہیں ہو سکتا۔ عقیدے کو مطلب یہ ہے کہ ایک چیز پر انسان کا یقین اتنا پختہ ہو جائے کہ اس میں شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ انسانی زندگی میں عقیدے کی اہمیت اور اس کے اثرات کا تذکرہ توحید کے باب میں تفصیل سے ہو چکا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقیدہ توحید انسان کو قناعت اور بے نیازی کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے۔یہ عقیدہ انسان کو لالچ، حسد اور بزدلی سے نجات دلاتا ہے اور انسان کے دل میں یہ پختہ باتیں پید اکرتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی خالق و رازق ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ عزت وذلت اور حکومت و دولت اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اللہ کے سوا نہ کوئی کسی کو ضرر پہنچاسکتا ہے، نہ نفع۔ وہ جس کو جو کچھ عطا کرتا ہے ایک مصلحت کے تحت اور آزمائش و امتحان کی غرض سے عطا کرتا ہے اور پھر وہ جسے جو کچھ دنیا چاہتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا اور جسے کسی چیز سےمحروم کرنا چاہتا ہے کوئی دوسرا اسے دےنہیں سکتا۔ اس کے ساتھ ایک اللہ تعالیٰ کو ماننے کا عقیدہ انسان کو اس کے قانون کا پابند بنایا ہے۔ یہ یقین کہ اللہ تعالیٰ انسان کے تمام چھوٹے بڑے، ظاہر و پوشیدہ اعمال سے واقف ہے،اسے غلط کاری و گناہ گاری سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے معاشرے کا ایک مفید اور ذمہ داری شہرہ بناتا ہے۔

سوال۶:انسانی عظمت کے ضامن عقیدے کو واضح کریں؟

جواب:اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنے قول و عمل سے توحید و رسالت کی گواہی دی اور اپنے تمام انفرادی و اجتماعی معاملات میں شریعت اسلامی کی کماحقہ پیروی کا اہتمام کیا تو وہ انسانی عظمت کی بلندیوں پر جا پہنچے۔ لیکن جب یہ گواہی دلی تصدیق اور عملی اطاعت سےمحروم ہو کر وہ گئی تو ہماری عزت و عظمت خاک میں مل گئی۔