اصغر گونڈوی | Asghar Gondvi Biography In Urdu

0

اصغر حسین نام اور اصغر تخلص کرتے تھے۔1884ء کو اپنے آبائی وطن گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ان کے والد گونڈہ میں ملازم تھے اسلئے اصغر بھی ابتدا سے ہی ان کے ساتھ گونڈہ میں رہے۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ اردو، فارسی اور عربی میں مہارت حاصل کی،ورنہ باقاعدہ تعلیم کا خاص موقع نہیں ملا۔کچھ عرصہ انگریزی اسکول میں پڑھاتے رہے۔ شاعری کا شوق ابتداء سے ہی تھا۔پہلے منشی خلیل احمد وجد بلگرامی کو اپنا کلام دکھاتے رہے،پھر منشی امیر اللہ تسلیم کی شاگردگی اختیار کی۔تصوف سے خاص لگاؤ تھا۔قاضی شاہ عبدالغنی سے بیعت حاصل کی۔زہد و تقویٰ کی طرف زیادہ رحجان تھا مگر مزاج میں ظرافت و رنگینی تھی۔

1926ء میں لاہور گئے اور علاقہ توجورن جیب آباد کے اردو مرکز کے مہتمم ہوگئے۔وہاں مرزا یگانہ کے ساتھ جھگڑا ہوا تو ملازمت چھوڑ دی اور گونڈہ واپس چلے آئے۔کچھ دنوں ہندوستان پریس الہ آباد میں ملازمت کی اور ہندوستانی رسالہ “سہ ماہی ہندوستان” کی ادارت کرتے رہے۔متعدد نصابی کتابیں بھی مرتب کیں۔بالاخر 1936ء میں الہ آباد میں انتقال ہوا اور وہاں ہی ابدی آرام کا بنی۔

خصوصیات کلام یا شاعرانہ عظمت


اصغر دور حاضر کے صاحب طرز اور جدید اسلوب کے موجد ہیں۔اسلوب بیان کے لحاظ سے اصغر بیشتر غزل گو شاعروں میں منفرد ہیں۔ان کا اندازِ تغزل نرالہ ہے اور اردو میں کمیاب ہے۔اردو شاعری کی فضا پر عام طور سے یاس و محرومی اور غم و اندو کی کہر چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔نشاط و مسرت اور شادمانی کے جذبات کا اظہار کمتر نظر آتا ہے۔بعض لکھنؤی شعراء نے اس عام روایت سے انحراف کی کوشش کی ہے مگر ان کی ہنسی مصنوعی اور انکا قہقہہ کھوکھلا اور زندگی سے محروم ہے۔پوری اردو شاعری میں اقبال اور ترقی پسند شعراء سے قطع نظر سودا اور مصحفی اور متاخرین میں جوش اور اصغر کے یہاں کیف و نشاط کی صحت مند فضا ملتی ہے۔

اصغر کی شاعری میں یہ نشاطیہ پہلو وقتی یا کسی جذباتی ابال کا نتیجہ نہیں بلکہ شاعری سے متعلق یہ ان کا مستقل نظریہ تھا کہ اسے منفرد رحجانات اور نالہ و شیون کے بجائے صحت مند رحجانات اور حیات بخشش تصورات کا ترجمان ہونا چاہیے،چناچہ وہ فرماتے ہیں؀

غزل کیا اک شرار معنوی گردش میں ہے اصغر
یہ افسوس گنجائش نہیں فریاد و ماتم کی

اصغر کی شاعری کا یہ نشاطیہ رنگ و آہنگ فارسی زبان کے عظیم شاعر حافظ کی یاد دلاتا ہے جس کی شاعری میں مسرت و شادمانی کی لہر چھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اصغر کی شاعری کے اس مخصوص رنگ و آہنگ نے نقادوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔اقبال سہیل “نشاط روح” کے تبصرے میں اس حقیقت کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کرتے ہیں:

“خدا کا شکر ہے کہ جناب اصغر کی شاعری عام سطح سے بہت بلند ہے اور ان کے یہاں ڈوبی نبضیں، پتھرائی ہوئی آنکھیں اور عالم نزع کی ہچکیاں غرض یہ کہ زندہ درگور کی بد مذاقیاں کہیں بھی نہیں ملتی ہیں”

اصغر کی شاعری کا بنیادی موضوع تصوف اور عشق الٰہی ہے۔ فلسفیانہ مضامین ہوں یا حسن و عشق کی سحر طرازیاں، کہیں بھی وہ اپنے اس بنیادی موضوع سے نہیں ہٹتے۔وہ معاملاتِ حسن وعشق کو تمام شعراء کی طرح بیان تو کرتے ہیں مگر ان کا مرکز نگاہ گوشت پوست رکھنے والا کوئی مجازی محبوب نہیں وہ ارضی ہونے کے بجائے ماورائی ہے اور ان کا عشق ہر طرح کی جسمانی و جذباتی کثافت سے پاک ہے۔اگر کہیں حسن مجازی کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے تو وہ بھی اس انداز میں کہ اس پر بھی حسن حقیقی کا گمان ہونے لگتا ہے دونوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مولانا شاہ معین الدین ندوی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“سرود زندگی میں اگرچہ کہیں کہیں مجاز کا رنگین حجاب بھی نظر آتا ہے لیکن اتنا لطیف اور ہلکا ہے کہ اندر سے حسن حقیقت صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے”

دراصل ان کی شاعری میں رچے ہوئے رنگین تصوف نے دونوں کو اس طرح سے رنگ میں رنگ دیا ہے کہ ان میں امتیاز کرنا دشوار اور ایک دوسرے سے الگ کرکے دکھانا دشوار تر ہو گیا ہے۔وہ حسن حقیقی کو زیادہ تر حسن مجازی کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور اس حسن کے جلوۂ رنگین کے بیان میں انہیں لفظیات کو استعمال کرتے ہیں جو حسن ظاہر کے لئے مخصوص ہیں۔

اصغر کی شاعری میں تصوف کے مختلف موضوعات سے متعلق واضح بیانات ملتے ہیں۔ وحدت الوجود، وحدت الشہود اور فنا و بقا وغیرہ کی طرف بڑے دلآویز انداز میں اشارہ کیا ہے۔ان کے علاوہ دوسرے بہت سے مسائل تصوف کی طرف ان کی شاعری میں اشارے ملتے ہیں لیکن ان کا تذکرہ اصغر نے اتنے لطیف شاعرانہ انداز میں کیا ہے کہ کہیں بھی فنی لطافت مجروح نہیں ہوتی۔

اصغر نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو کچھ لکھا وہ انتخاب ہے۔جس طرح تصوف اصغر کی زندگی میں داخل ہے اسی طرح ان کی شاعری میں بھی اس کا پلہ بھاری ہے۔اپنی شاعری کے پہلے دور میں اصغر اردو فارسی کے مستند اساتذہ کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں لیکن آخر کار وہ تقلید سے آزاد ہو جاتے ہیں اور ان کا اپنا رنگ ابھرتا ہے۔

اصغر کا لب و لہجہ سب سے الگ ہے۔ ان کے کلام میں ایک نشاط اور سرمستی ہے۔بیان کی ندرت کے ساتھ ترنم کی لطافت،خیالات کی پاکیزگی اور گہرائی نمایاں ہے۔رنگینی اور دلکشی ہر شعر میں موجود ہے۔فلسفہ و تصوف کے مضامین کو اصغر نے بڑی دلکشی اور خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ استعارات وتشبیہات میں ندرت اور لطافت ہے حسن و عشق کی واردات کو نئے اور پراثر انداز سے پیش کیا ہے۔واردات قلبی کو نرالے اور دلفریب رنگ سے نظم کیا ہے۔

اصغر دور جدید کے غزل گو شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام میں بعض بھولی ہوئی خصوصیات کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔اسی لئے وہ عام شاہراہ سے الگ حکیمانہ انداز میں شعر کہتے ہیں۔جذبات انسانی کی نزاکتوں کے بیان اور قلب کی گہرائیوں کی تصویر کشی میں وہ جس بلندی کو چھو لیتے ہیں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔اصغر کے کلام کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں اشعار کی مجموعی تعداد 1062 ہے۔

ان کا پہلا مجموعہ “نشاط روح” کے نام سے پہلی بار مرزا حسان احمد نے دسمبر 1925ء میں مرتب کرکے مطبع معارف اعظم گڑھ سے شائع کیا۔اس مجموعہ میں اصغر کا 1917ء سے 1934ء تک کا کلام شامل ہے۔اصغر کا دوسرا مجموعۂ کلام “سرور زندگی” ہے جو 1934ء میں شائع ہوا۔’سرور زندگی’ میں اصغر کا 1925ء سے 1934ء تک کا کلام شامل ہے۔اس مجموعہ میں اشعار کی کل تعداد 503 ہے۔اس کے علاوہ اصغر نے کچھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے جن میں مقدمہ روح رواں،رباعیات رواں،مقدمہ پیام زندگی،مقدمہ یادگار نسیم،دیباچہ مطلع انوار،نوید زندگی،نظم و نثر پر ایک نظر،اردو کی نشو نما،اردو شاعری کی ذہنی تاریخ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔