نظم بنجارہ نامہ کی تشریح

0
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گویں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

یہ بند نظیر اکبر آبادی کی نظم “بنجارہ نامہ” سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی کو بیان کیا ہے۔ اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے انسان دولت کے حصول کے لالچ کو ترک کر دو اور اس لالچ میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں مارے مارے مت پھرو۔ موت کا فرشتہ دن رات اپنا نقارا بجا کر تمھاری زندگی کی دولت یعنی تمھاری جان کو لوٹنے کی تاک میں ہے۔ تمھارا پالتو قیمتی چیزیں ہوں ، بیل ، شتر یا بھینس جیسے جانور ہوں یا پھر ہمارے کھانے کا سامان گندم ، چاول ، مٹر دالیں وغیرہ خواہ آگ جل رہی ہو یا اس میں سے دھواں اٹھ رہا اور کھانا تیار ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔ سب ساز و سامان اور مال و دولت اور تمھاری یہ شان و شوکت یہیں دھری کی دھری رہ جائے گی جب کہ بنجارا اپنا آپ سمیٹے ایک منزل سے دوسری جانب رواں دواں ہو جائے گا۔

گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے
اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے
کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے
کیا ڈاکھ منقی ٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر اس دنیا کا کوئی مسافر خود کو لکھ پتی سمجھتا ہے اور اپنی فصل کو بھی سب سے اچھی اور بہترین فصل مانتا ہے تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے اوپر ایک اس سے بھی زیادہ طاقتور ذات یعنی ایک بیوپاری موجود ہے جو اس کے تمام مال یا فصل کو مہنگے داموں کھڑے کھڑے خرید سکتا ہے۔شکر کا میٹھا ہو یا گری کا میٹھا ہو چاہے میٹھی دال یعنی سانبھر ہی کیوں نہ پکا ہو کچھ میٹھا کھارا اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ڈاکھ ہو یا منقیٰ یا سونٹھ ،مرچ ، کیسر ، ہلدی سپاری وغیرہ سب یہیں دھرےکا دھرا رہ جائے گا۔ آخر میں کسی چیز کی اہمیت باقی نہ رہے گی سب غیر اہم ہو جائے گا کہ جب بنجارا اس دنیا سے دوسری دنیا کا سفر طے کر جائے گا۔

تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا
یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موت کسی صورت بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ چاہے تم اپنا سارا ساز و سامان بیل پر لاد کر ہی ایک سمت سے دوسری سمت یعنی مشرق سے مغرب کی جانب ہی کیوں نہ سفر کر جاؤ یا چاہے تم اپنے قرض داروں کی دی گئی رقم کی شرح سود بڑھا لو یا تم گھاٹے میں چلے جاؤ۔ موت کا فرشتہ ہر لمحہ تمھاری تاک میں ہے وہ کبھی اور کسی بھی لمحے تمھیں بھالا مار کر راستے میں ہی تمھاری جان لے سکتاہے تم اس سے ہر گز بھی بھاگ یا بچ نہیں سکتے ہو۔ اس وقت تمھارا یہ جمع کیا گیا مال و دولت اور تمھاری ناتی پوتے وغیرہ کچھ بھی تمھارے کام نہیں آئے گا۔تمھارا یہ سب مال و دولت یوں ہی پڑے کا پڑا رہ جائے گا اور یہ بنجارا مسافر خالی ہاتھ ہی ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کر جائے گا۔

ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے
زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے
جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے
پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تمھارے پاس جتنا بھی ساز و سامان موجود ہے جو تم ہر منزل پہ اپنے ساتھ لیے پھرتے ہو۔ تمھاری دولت ،پیسے اور درم سے خریدا گیا جو بھی مال و متاع ہے چاہے وہ کوئی بندوق ، دو دھاری تلوار یا اس تلوار کے وار سے محفوظ رہنے والا محافظ دستہ ہو لیکن جب تمھارے جسم سے جان ہی نکل جائے گی۔ اس لمحے تمھارے پھرنے ، ان قیمتی برتنوں اور تمھارے کھائے گئے حلوے یا خاص روٹی مانڈا کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔یعنی موت کے سامنے یہ سب چیزیں ہیچ ہیں اور موت کا وقت آنے پہ زندگی کا ناطہ فوراً ٹوٹ جائے گا۔ جب ٹھاٹ اور شان و شوکت یہیں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور بنجارے کی طرح سے اس انسان کو اس منزل سے کوچ کر جانا پڑے گا۔

جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب کبھی چلتے چلتے راستے میں ہی تیری موت آ جائے گی تو یہ تمھاری زمین دولت وغیرہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔تیری مٹی کی قبر پر کوئی بدھیا گھاس چرنے بھی نہ آئے گی۔ تمھارے بعد تمھارے چھوڑے گئے سب مال و متاع اور دولت کو حصوں میں بانٹ لیا جائے گا۔ اس کے بعد تمھارا بیٹا، بیٹی ، بیوی یا کوئی رشتے دار بھی تمھارے پاس نہ بھٹکے گا۔ یہ سب ٹھاٹ یہی پڑا رہ جائے گا اور تم آ گے پہنچ جاؤ گے۔

یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی
اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی
کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی
کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چینی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے انسان تم جو یہ بہت سارا مال و دولت اور ساز و سامان لادے ہوئے چلے جارہے ہو اپنی اس دولت اور سامان کو ہرگز بھی شمار مت کرو۔ کیوں کہ اگلے کسی ہی لمحے میں تمھارا وہ تمام مال و دولت تمھارے کفن کا سامان ہو جائے گا۔اس وقت تمھارا مال و متاع خواہ وہ کوئی تھال ، چاندی کے کٹورے یا پیتل کی ڈبیاں وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں ان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ سونے چاندی کے برتن ہوں یا مٹی کے، دونوں کی حیثیت ایک برابر ہو جائے گی۔ جب موت کا وقت آئے گا تو بنجارا اپنی نئی منزل کی جانب رواں دواں ہو جائے گا اور سارا ساز و سامان اور ٹھاٹھ باٹ یہیں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل
اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل
گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ
چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تم یہ دھوم دھڑکا یعنی مال و دولت اور شان و شوکت اپنے ساتھ کیوں لیے پھرتے ہو۔ اس دنیا سے تمھیں خالی ہاتھ جانا ہو گا۔ جیسے ہی اس دنیا سے تمھارا دانہ اور پانی اٹھے گا تو تمھاری موت واقع ہو جائے گی ایسے میں تم ایک تنکا بھی اپنے ساتھ نہیں لے کر جا سکتے ہو۔ تمھارا گھر، مال ، بلند و بالا محل ، سکون اور ململ کے خوبصورت قیمتی لباس وغیرہ سب کچھ غیر اہم ہو جائے گا۔ نئے پردے، خوبصورت فرش اور پلنک محل وغیرہ کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے گی۔ جیسے ہی موت کا نقارہ بجے گا سارے ٹھاٹ اور مال و متاع یہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا اور بنجارا اپنی اگلی منزل کو کوچ کر جائے گا۔

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر
جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر
نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس وقت قیمتی ہیرے زیوارات کچھ بھی تمھارے کام نہ آ سکے گا۔ تمھاری اصل جمع پونجی تمہارے اعمال ہوں گے۔ ان کو جب ترازو میں تولا جائے گا تب تمھاری جان پر بنے گی۔ تب دنیاوی شان و شوکت ، فوجیں، یہاں کے تخت وتاج سب بے معنی ہو گا اور سب یہیں کا یہیں دھرا رہ جاوے گا بس تمھیں یہاں سے خالی ہاتھ لے جایا جا ئے گا۔

کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے
جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے
کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے
کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے انسان تم اپنے دل پراتنے بھاری بوجھ لیے کیوں پھرتے ہو۔ جب موت آ جاتی ہے تب بڑے سے بڑا بیو پاری بھی اس کےسامنے چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔اس کے زیور ، گوٹے کناری والے خوبصورت لباس، گھوڑے اور خوبصورت زینوں سے ملبوس اعلی نسل ہاتھی سب بے معنی ہوں گے اور سب کچھ یہیں چھوڑ چھاڑ کر جانا ہو گا۔

مفرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے
سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے
کیا ڈبے موتی ہیروں کے کیا ڈھیر خزانے مالوں کے
کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ نہ تو تم تلواروں سے بھاگو اور نہ ہی تم ڈھال کے سارے فرار حاصل کرسکتےہو۔ کیونکہ جب موت کا فرشتہ آئے گا اور موت آنکھوں کے سامنے لہرائے گی اس وقت یہ سارے اوزار تمھاری طرف تیزی سے بڑھیں گے۔ تمھارے ہیرے جواہر سے بھرے ہوئے ڈبے ، تمھارے تمام خزانے ، مال و دولت سے بھرے بکسے تخت اور قیمتی لباس وغیرہ سب کچھ غیر اہم ہو جائے گا اور دنیا میں یوں ہی دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

کیا سخت مکاں بنواتا ہے خم تیرے تن کا ہے پولا
تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا
کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا
گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر حضرت انسان کو کہتا ہے کہ دنیا میں تم بہتر سے بہتر اور پکا مکان بنوانے کے چکر میں رہتےہو۔جب کہ تمھارا اپنا جسم بہت جلد ڈھل جانے والا ہے۔ یہاں تم اونچے اونچے محل نما بنگلے بناتے ہو وہاں تمھاری قبر منھ کھولے تمھاری منتظر ہے۔ جس کےآگے بڑی خندقیں ، قلعے، شیشہ کی دیوار میں گڑھ کوٹ وغیرہ سب غیر اہم اور بے معنی ہیں۔

ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن
کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن
کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے انسان تم ہر وقت نفع اور نقصان کے چکر میں کیوں رہتے ہو۔اے غافل انسان اپنے دل میں ذرا اس خیال کو لاؤ کہ تمھارے ساتھ تمھارا دشمن موجود ہے۔اس وقت تمھاری دائی ، دوائی ، تمھارے چیلے یا تمھارا نیک چلن کچھ تمھارے کام نہیں آنے والا ہے۔ یہ مندر ، مسجد ، کنویں ، کھیتی باڑی اور باغات سب کچھ یہیں دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سئے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

نظم کے آخر ی بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب موت اپنی چابک کو گھما کر بیل کی طرح ہمارے جسم کو ہانک کرلے جائے گی تو کوئی اس وقت تمہاری دھن دولت سمیٹنے میں لگ جائے گا اور کوئی تمھیں اس کے بعد ایک جنگل نما جگہ پر تمھاری قبر میں اتار دے گا جہاں تم بس قبر کی مٹی کو کھاؤ گے۔شاعر افسوس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظیر اس جگہ پر پھر تمھارے پاس اپنے تو دور کی بات ایک تنکا بھی آ کر نہ جھانکے گا۔ یہ سب مال و متاع دنیا میں یوں ہی ٹھاٹھ پڑا ہوا رہ جائے گا۔