بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا تشریح

0

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔ اس نظم کو دیوانِ غالب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ شاعر :

مرزا غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ بیگ خان تھا۔ غالب تخلص اور مرزا نوشہ عرفیت تھی۔ ندرتِ بیان ، تنوع اور رفعتِ خیال آپ کی شاعری کا خاصہ تھی۔ آپ کی دیگر کتابوں کے علاوہ دیوانِ غالب اور کلیاتِ غالب (فارسی) بہت مشہور ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے آپ کو اپنا استاد مقرر کیا اور دبیر الملک ، نظام جنگ اور نجم الدولہ کے خطابات سے نوازا۔

غزل نمبر ۱ :

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

تشریح : مرزا غالب کو انسانی زندگی اور نفسیات پر گہرا عبور حامل تھا۔ وہ لفظوں کے بھی ایسے مزاج شناس ہیں کہ آدمی اور انسان کے الفاظ جو بظاہر ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، وہ یہاں انسانی زندگی کی دو انتہاؤں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ آدمی سے مراد یہاں صرف آدم زاد ہونا ہے اور انسان کا مفہوم اشرف المخلوق کے احساس سے سرشار ہونے کا ہے۔ دشوار اور آسان کے الفاظ میں موجود صنعت تضاد نے شعر کے حسن اور تاثیر میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنا انتہائی مشکل ہے۔ غالب کی ذہانت اور مضمون آفرینی کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ پہلے مصرعے میں انھوں نے اپنی زندگی کے ایک انتہائی عمیق مشاہدے اور تجربے کو بظاہر نہایت آسان الفاظ میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ پھر اپنی بات یا تجربے کو مستند ثابت کرنے کے لیے جو دلیل ہمارے سامنے پیش کی ہے ، بطور وہ نہایت کمال کی ہے کہ جب ہم بطور احسن تقویم تخلیق ہونے کے باوجود انسانیت کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہیں تو دنیا کے کسی اور کام میں مہارت کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں؟

وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیران ہونا

تشریح : یہ مضمون اردو اور فارسی شاعری میں بہت عام ہے اور تقریباً ہر شاعر نے اس کیفیت کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے کہ عاشق محبوب کی محبت میں اتنا دیوانہ ہو جاتا ہے کہ بے دھیانی میں بھی کوچہ رقیب میں جا نکلتا ہے۔ بظاہر شاعر نے اس میں یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ( محبوب کی گلی میں جانے کی ) جو حرکت اس سے سرزد ہوگئی ہے، وہ اس پر حیران ہے کیونکہ ایسا کرنا اس کی خواہش میں شامل نہیں تھا۔ پس ایسا ہو گیا ہے لیکن حیران کا لفظ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ شاعر اپنی اس بے اختیاری پر نادم نہیں بلکہ خوش ہے۔ محاورے کی زبان میں اس کیفیت کو دیوانہ بکارخویش ہشیار کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ اصل میں یہ محبوب سے محبت ہی کا ایک انداز ہے کہ وہ نہ صرف بے دھیانی میں ادھر جا نکلتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اس کوچے کو فردوس پر ترجیح دیتے نظر آتے ہیں اور اس گلی میں جانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔

عشرت قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ
عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ عشق اور محبت کے معاملات بھی عجیب ہیں ، اس میں ملنے والے ہجر کا اپنا لطف ہے ، وصال کی اپنی خوشی ہے۔ محبوب کی عنایات کا ذائقہ الگ ہے ،اس کے ظلم و ستم کی کیفیت اپنی ہے حتی کہ عشق میں جان سے گزر جانے والوں کے لطف کو بھی زمانہ تسلیم کرتا ہے۔

مرزا غالب کا اس کیفیت کو بیان کرنے کا اندازہ اپنا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جولوگ کسی مقصد کی خاطر موت کو گلے سے لگاتے ہیں ، ان کی خوشی کے بارے میں آپ کو کیا بتاؤں؟ آپ یوں سمجھ لیں کہ زندگی میں اعلی نظریات کے حامل لوگ یا عشاق کے لیے قتل گاہ میں اپنی طرف بڑھتی ننگی تلوار یا موت کا نظارہ عید کا چاند دیکھنے سے کم نہیں ، ہلال عید کے لیے برہنہ تلوار کا استعارہ یہاں پر معنی ہی نہیں پر لطف بھی ہے۔

لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاں ہونا

تشریح : مرزا غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے محبوب! ہم نے تمھیں پانے کی ایک شدید خواہش ایک عرصے سے دل میں پال رکھی تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ کبھی نہ بھی یہ خواہش ضرور پوری ہوگی اور ہماری تم سے وصال کی نوبت ضرور آۓ گی۔ لیکن ہماری دیگر ہزاروں خواہشوں کی طرح بالآخر اس خواہش نے بھی حسرت کا روپ دھار لیا حتی کہ ہماری موت کا وقت آن پہنچا اور احباب نے ہمارے جسم کو خاک کے سپرد کر دیا۔

اس شعر میں غالب ایک نئی جہت کا اضافہ کر رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے دل میں تم سے وصال کی تمنا کا جو بیج بو رکھا تھا، وہ بھی ہمارے ساتھ اسی خاک میں دفن ہو گیا ہے۔ اس بیج کو اگر یہاں بھی تمھارے وصال کی بارش نصیب ہو جائے تو ہماری خوش کن تمنا میں خود بخود کلیوں اور غنچوں کے روپ میں نمودار ہو جائیں گی۔

عشرت پاره دل زخم تمنا کھانا
لذت ریش جگر، غرق نمکداں ہونا

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ عشق میں ایک کیفیت انسان پر ایسی بھی آتی ہے کہ محبوب کی طرف سے ملنے والے دکھوں میں بھی انسان کو لطف آنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں ملنے والے تمام عشاق محبوب کے غم کو سینے پر تمغوں کی طرح سجاۓ پھرتے ہیں۔
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ ہمارا دل اگرچہ محبوب کے غم میں چور ہے لیکن اس ٹکڑے ٹکڑے دل کا علاج یہ نہیں کہ اس پر مرہم لگایا جاۓ یا اس کے اوپر کوئی پھاہا رکھا جائے بلکہ اس دل کی عیش اور خوشی اس میں ہے کہ محبوب کو پانے کی خواہش میں کچھ اور زخم اس پر لگائے جائیں۔ اس طرح عاشق کے زخمی جگر کو بھی راحت اس میں ملتی ہے کہ ان زخموں کے اوپر ڈھیر سارا نمک چھڑکا جائے۔ مختصر یہ کہ عاشق عشق کے اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے زخم کے مندل ہو جانے کے بجاۓ اسے کھریدنے اور ہرا رکھنے میں مزا آنے لگا ہے۔

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہاۓ اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

تشریح : یہ مرزا غالب کا نہایت معروف اور زبان زد عام شعر ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے محبوب نے اک زمانے تک ستم پروری کو اپنا شعار بناۓ رکھا۔ عشاق بھی اس کے ہاتھوں گھائل ہونے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے رہے۔

اس شعر میں صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ شاعر کے محبوب کو اپنے سنگ دلانہ رویے کا نہ صرف شدت سے احساس ہو چکا ہے بلکہ اس نے جفا کاری سے باقاعدہ دست برداری کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ سلسلہ ہے تو خوش آئند لیکن شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ توبہ کی اس تقریب سے بیشتر ہی اس محبوب کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہے۔ اس لیے شاعر یہاں محبوب کی ندامت اور توبہ کو طنزیہ انداز میں جلد بازی سے تعبیر کرتا ہے، اصل میں کہنا وہ یہ چاہتا ہے کہ تمھاری یہ توبہ اب ہمارے کس کام کی؟

حيف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت، غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

تشریح : مرزا غالب کا یہ مقطع بھی خاصا مقبول عام ہے، یہ ظاہر سی بات ہے کہ عشاق پر جب بھی جنون و مستی کی کیفیت طاری ہوتی ہے، ان کا ہاتھ اپنے دامن کی طرف اٹھ جاتا ہے اور وہ اسے چاک چاک کر ڈالتے ہیں۔ بہار کے موسم میں یہ کیفیت شدت اختیار کر جاتی ہے۔ مرزا غالب اس مقطعے میں کپڑے کے اس ٹکڑے کی بدقسمتی پر اظہار تاسف کر رہے ہیں جو عشاق کے گریبان میں استعمال ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جس کپڑے کا مقدر ہی چاک ہونا ہو، ثبات اور سلامتی سے جس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو، ایسی چیز کی ناپائیداری اور عارضی پن پر آنسو ہی بہاۓ جاسکتے ہیں۔