بیگم اختر ریاض الدین | Begum Akhtar Riazuddin

0

تعارف

تاریخ اردو ادب میں بہت کم مصنفہ گزری ہیں جن کو اتنی شہرت ملی ہو جتنی بیگم اختر ریاض الدین کو ملی ہے۔ بیگم اختر ریاض الدین ۱۵ اکتوبر ۱۹۲۸ کو کلکتہ میں پیدا ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کلکتہ سے حاصل کی اور بعد ازیں انگریزی میں ایم اے کیا۔ آپ کی شادی ریاض الدین سے ہوئی۔ ان کا اصل شعبہ درس تدیس تھا۔ آپ نے ادب لکھنے کی شروعات بیرونی ممالک جانے سے کی۔

ادبی تعارف

اردو ادب میں خواتین لکھاریوں کی شروع ہی سے کمی رہی ہے۔ سفر نامے میں یہ تعداد قلیل ہے۔ نازلی رفیہ سلطانہ بیگم کا سفر نامہ”سیر یورپ“ اور رفیہ فیضی ” کا زمانہ تحصیل “ ایسے ابتدائی سفر نامے ہیں جو ان خطوط پر مشتمل ہیں جو انھوں نے سفر کے دوران اپنے عزیزوں کو لکھے۔ چنانچہ ان سفر ناموں کو سفرنامنے کی ایک تکنیک تو کہا جا سکتا ہے لیکن مکمل سفر نامے نہیں کہلائے جا سکتے۔ ایسی قلت کے دور میں بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ” سات سمندر پار “ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔

سفر نامے

بیگم اختر ریاض الدین کو اپنے میاں ریاض الدین احمد کے ساتھ بیرون ممالک جانے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ جس سے وہ اپنے ہر سفر کا احوال اور تجربات قلم بند کیا کرتی تھیں۔ ان کا مشاہدہ اور انداز بیان بہت اچھا اور منفرد تھا اسی وجہ سے ان کے یہ سفرنامے بہت مقبول اور مشہور ہوئے۔ ان کے طرز بیاں میں ایک ماہرانہ گرفت ہے فنکارانہ آراستگی اپنے عروج پر نظر آتی ہے اور وہ ہلکا پھلکا مزاح جو ان کی نگارش گوہریں میں ایک سلک رشمیں کی طرح بل کھاتا چلا جاتا ہے۔ اس کی سب سے دلکش خصوصیات کا امیتاز دکھتا ہے۔ جس بےساختگی اور بےتکلفی سے مختلف جگہوں کے خیابانوں اور گیشاخانوں ، صنعت و تجارت کے ہنگامہ زاروں اور تعلیم و تربیت کے دبستانوں  کی سیر کرواتی ہیں۔ اسی خوبی سے آپ کا ہاتھ تھام کر روس کے برفستانوں اور عجائب خانوں اور مقبروں اور زیارت گاہوں میں لیے پھرتی ہیں۔

ان کے پہلے سفرنامے’’سات سمندر پار‘‘ (۱۹۶۳ء)کا ادبی دنیا میں شان دار استقبال ہوا تھا اور اس کی وجہ مصنفہ کے اسلوب کی تازگی تھی۔ ان کا دوسرا سفرنامہ دھنک پر قدم بھی اس اسلوب کی وجہ سے مقبول ہوا۔ بے ساختگی ، شگفتگی اوربے تکلفی سے بات کہہ دینے کا انداز بالکل منفرد ہے۔سفر ان کے لیے مسرت کشید کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس میں وہ قاری کو بھی شریک کرلیتی ہیں۔ مناظرِ قدرت اور حسنِ فطرت ان کو مسحور کردیتے ہیں اور ان کو بیان کرنا بھی انھیں خوب آتا ہے۔
اگر ہر نئے منظر کو دیکھنے کا اشتیاق اور خوشی اور حیرت کا اندازہ لگایا جائے تو وہ بچوں جیسی معصومیت کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بیگم صاحبہ نے دنیا کو ایک غیر جانبدار کی نظر سے دیکھا ہے اور اس معصومیت کو جگایا ہے جو فطرت کا حصہ ہے۔ انھوں نے دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھ کر دیکھا اور اس پر ایک شوخ سا تاثر ثبت کیا۔

اعزاز

بیگم اختر ریاض الدین کی ادب کے لیے کی گئی خدمات کی وجہ سے ان کو آدم جی ادبی انعام دیا گیا ہے۔

حرفِ آخر

ان کی عمر ۹۲ برس ہے اور وہ بقید حیات پاکستان میں موجود ہیں۔ وہ حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں اسی سلسلے میں اپنی تنظیم بہبود کو بھی نگرانی کرتی ہیں۔