نوجوان سپہ سالار کا عزم و حوصلہ

0
  • سبق : نوجوان سپہ سالار کا عزم وحوصلہ
  • مصنف : ” عبدلحلیم شرر “
  • ماخوذ از : ”منصور موہنا“

تعارفِ سبق

سبق ” نوجوان سپہ سالار کا عزم وحوصلہ “ کے مصنف کا نام ”عبدلحلیم شرر“ ہے۔ یہ سبق ناول ”منصور موہنا“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

عبدالحلیم شرر اردو تاریخی ناول نگار کے بانی، جریدہ نگار اور بڑے انشاء پرداز ہیں لیکن جس چیز نے انھیں اردو ادب میں ایک ممتاز مقام دیا ہے وہ ان کی اسلامی تاریخی ناول نگاری ہے۔ ان کے ناولوں کے مقصد اسلاف کے کارنامے یاد دلاکر آنے والی نسل میں قوت عمل اور ولولہ تازہ پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے جن میں بیشتر انھوں نے خود کاری کیے۔

سبق کا خلاصہ

اس سبق میں مصنف ایک نوجوان کی بہادری کا قصہ لکھتے ہیں۔ دریائے اٹک کے آس پاس کے علاقے میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ مگر اب یہ صحرا ویران تھا۔ ہر طرف ڈر کی ہوا تھی۔ وہیں کچھ غریب گڈرئیے اپنے مویشی چرانے آئے ہوۓ تھے، مگر وہ اس بات سے بھی خوف زدہ تھے کہ کہیں مسلمان فوج ان پر حملہ نہ کردے اور ان کے مویشی نہ چھین لیں۔ راجپوتوں سے معرکہ آرائی کے متعلق یحییٰ کی یہ رائے تھی کہ وہ لوگ بہت بہادر اور ہمت والے ہیں اور وہ اپنے نوجوان سپہ سالار کو مشورہ دے رہا تھا کہ ان کی سرکوبی کے لیے کوئی حوصلہ مند اور بہادر سلطان ہی چاہیے۔

نوجوان سپہ سالار اپنے جانباز مجاہدوں کا دستہ لے کر ہندو راجا کی تلاش میں آیا تھا جو ترک فوج کی قید سے فرار ہوکر مسلمان سے بغاوت کررہا تھا۔ وہ اس سے لڑنے اور اس کا خاتمہ کرنے آیا تھا۔ ہندو راجا کے سپاہیوں نے میدان میں مسلمانوں کے حملہ کرنے سے پہلے حملہ کر دیا جس سے نوجوان غازی کی مشکل حل ہوگئی۔ جنگ کے دوران اچانک ہندوؤں کے دو سو مددگار نکل آئے اور ان کو دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے لگے۔ مسلمانوں کے نوجوان سپہ سالار نے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوتے دیکھ کر ایسی پرجوش تقریر کی کے ان میں نئے سرے سے جوش پیدا ہوگیا اور انہوں نے ہندوؤں سے بھر پور مقابلہ کر کے ان کو دھول چٹا دی اور لڑائی کا نقشہ ہی بدل دیا۔

مصنف مسلمانوں کی ہمت و بہادری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی بہادری ہی ان کی پہچان ہے۔ اس لیے ان سے لڑنا سورج پر خاک ڈالنے کے برابر ہے، کیونکہ ہماری ڈالی گئی خاک نہ ہی سورج تک پہنچ سکے گی اور نہ ہی اسے نقصان پہنچا سکے گی بلکہ الٹا وہ ہماری آنکھوں میں چلی جائے اور ہمیں ہی نقصان پہنچائے گی۔ اسی طرح جو مسلمانوں سے لڑے گا وہ انھیں تو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا لیکن اپنا نقصان ضرور کر بیٹھے گا۔

مسلمان جو اس وقت ہندوستان میں موجود، وہاں کی سیر کررہے تھے وہ دراصل یہاں سے وابستہ نہیں تھے۔ مسلمان ترک سپاہی یہاں کے باشندے نہیں تھے اس لیے وہ واضع طور پر غیر ملکی نظر آتے تھے۔ اور ان کے غیر ملکی نظر آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا رنگ ہندوستانیوں سے بالکل مختلف تھا اور ان کے خدوخال بھی یہاں کے لوگوں سے مختلف تھے۔ بھاٹ ہندوؤں سپاہیوں کے لیے نغمہ خواں کو کہتے ہیں، بھاٹ اپنے گیتوں سے اپنے سپاہیوں کا جوش بڑھا رہے تھے۔ یعنی جنگ کے دوران وہ لوگ ملی نغمے گا کر اپنے سپاہیوں کے جوش کو بلند تر کررہے تھگ تاکہ وہ مسلمانوں کو شکست سے دو چار کر سکیں لیکن آخر کار انھیں اپنے منہ کی کھانی پڑی تھی۔

سوال ۱ : دریائے اٹک کے آس پاس کے علاقے کی عام صورت حال کیا تھی؟

جواب : دریائے اٹک کے آس پاس کے علاقے میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ مگر اب یہ صحرا ویران تھا۔ ہر طرف ڈر کی ہوا تھی۔ وہیں کچھ غریب گڈرئیے اپنے مویشی چرانے آئے ہوۓ تھے، مگر وہ اس بات سے بھی خوف زدہ تھے کہ کہیں مسلمان فوج ان پر حملہ نہ کردے اور ان کے مویشی نہ چھین لیں۔

سوال ۲ : راجپوتوں سے معرکہ آرائی کے متعلق یحییٰ کی کیا رائے تھی اور وہ اپنے نوجوان سپہ سالار کو کیا مشورہ دے رہا تھا؟

جواب : راجپوتوں سے معرکہ آرائی کے متعلق یحییٰ کی یہ رائے تھی کہ وہ لوگ بہت بہادر اور ہمت والے ہیں اور وہ اپنے نوجوان سپہ سالار کو مشورہ دے رہا تھا کہ ان کی سرکوبی کے لیے کوئی حوصلہ مند اور بہادر سلطان ہی چاہیے۔

سوال ۳ : نوجوان سپہ سالار اپنے جانباز مجاہدوں کا دستہ لے کر کیوں آیا تھا؟

جواب : نوجوان سپہ سالار اپنے جانباز مجاہدوں کا دستہ لے کر ہندو راجا کی تلاش میں آیا تھا جو ترک فوج کی قید سے فرار ہوکر مسلمان سے بغاوت کررہا تھا۔ وہ اس سے لڑنے اور اس کا خاتمہ کرنے آیا تھا۔

سوال ۴ : ہندو راجا کے سپاہیوں نے نوجوان غازی کی مشکل کس طرح حل کر دی؟

جواب : ہندو راجا کے سپاہیوں نے میدان میں مسلمانوں کے حملہ کرنے سے پہلے حملہ کر دیا جس سے نوجوان غازی کی مشکل حل ہوگئی۔

سوال ۵ : ایک منزل پر مسلمان مجاہدوں کے حوصلے کیوں پست ہونے لگے تھے؟

جواب : جنگ کے دوران اچانک ہندوؤں کے دو سو مددگار نکل آئے اور ان کو دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے لگے۔

سوال ٦ : مسلمانوں کے نوجوان سپہ سالار نے لڑائی کا نقشہ کس طرح پلٹ دیا؟

جواب : مسلمانوں کے نوجوان سپہ سالار نے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوتے دیکھ کر ایسی پرجوش تقریر کی کے ان میں نئے سرے سے جوش پیدا ہوگیا اور انہوں نے ہندوؤں سے بھر پور مقابلہ کر کے ان کو دھول چٹا دی اور لڑائی کا نقشہ ہی بدل دیا۔

سوال ۷ : ذیل کے جملوں کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔

حوالہ سبق : یہ جملہ ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ”نوجوان سپہ سالار کا عزم و حوصلہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”عبد الحلیم شرر“ ہے۔ یہ سبق عبد الحلیم شرر کے ناول ” منصور موہتا “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف
عبدالحلیم شرر اردو تاریخی ناول نگار کے بانی، جریدہ نگار اور بڑے انشاء پرداز ہیں لیکن جس چیز نے انھیں اردو ادب میں ایک ممتاز مقام دیا ہے وہ ان کی اسلامی تاریخی ناول نگاری ہے۔

(الف) مسلمانوں سے لڑنا آفتاب پر خاک ڈالنا ہے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف مسلمانوں کی ہمت و بہادری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی بہادری ہی ان کی پہچان ہے۔ اس لیے ان سے لڑنا سورج پر خاک ڈالنے کے برابر ہے، کیونکہ ہماری ڈالی گئی خاک نہ ہی سورج تک پہنچ سکے گی اور نہ ہی اسے نقصان پہنچا سکے گی بلکہ الٹا وہ ہماری آنکھوں میں چلی جائے اور ہمیں ہی نقصان پہنچائے گی۔ اسی طرح جو مسلمانوں سے لڑے گا وہ انھیں تو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا لیکن اپنا نقصان ضرور کر بیٹھے گا۔

(ب) یہ صورتیں جس سرزمین کی سیر کر رہی ہیں وہیں کی خاک سے ان کے پتلے نہیں بنے ہیں۔

تشریح

اس جملے میں مصنف یہ بتارہے ہیں کہ مسلمان جو اس وقت ہندوستان میں موجود، وہاں کی سیر کررہے ہیں وہ دراصل یہاں سے وابستہ نہیں ہیں۔ مسلمان ترک سپاہی یہاں کے باشندے نہیں تھے اس لیے وہ واضع طور پر غیر ملکی نظر آتے تھے۔ اور ان کے غیر ملکی نظر آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا رنگ ہندوستانیوں سے بالکل مختلف تھا اور ان کے خدوخال بھی یہاں کے لوگوں سے مختلف تھے۔

(ج) بھاٹ ان کی مدح خوانی میں اپنی فصاحت اور قادر الکلامی کے جوہر دکھا رہے تھے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف بھاٹ کا ذکر کررہے ہیں۔ بھاٹ ہندوؤں سپاہیوں کے لیے نغمہ خواں کو کہتے ہیں، یعنی بھاٹ اپنے گیتوں سے اپنے سپاہیوں کا جوش بڑھا رہے تھے۔ یعنی جنگ کے دوران وہ لوگ ملی نغمے گا کر اپنے سپاہیوں کے جوش کو بلند تر کررہے تھگ تاکہ وہ مسلمانوں کو شکست سے دو چار کر سکیں لیکن آخر کار انھیں اپنے منہ کی کھانی پڑی تھی۔

سوال ۸ : ذیل کے الفاظ کی جمع اور جمع الجمع لکھیے:

واحد جمع جمع الجمع
خبر اخبار اخبارات
دوا ادویہ ادویات
رقم رقوم رقومات
عجیب عجائب عجائبات
رسم رسوم رسومات
لازم لوازم لوازمات
وجہ وجوہ وجوہات

سوال ۹ : آپ کے کالج میں جشن میلادالنبیؐ جس جوش و خرش سے منایا گیا، اس کی روداد قلمبند کیجیے۔

ہمارے کالج میں ربیع الاول کے شروع ہونے سے بھی قبل ہی جشن میلاد النبی کی تیاریاں جاری و ساری تھیں۔ ہر جماعت کے طلبہ مل کر اور الگ الگ نعتیں تیار کررہے تھے جو انھوں نے میلاد کے روز پڑھنی تھی۔ ہر کلاس سے نعتوں کی آواز بلند ہوتی تو کالج کا منظر بہت اچھا لگنے لگتا تھا۔ اساتذہ بھی طلبہ کے ساتھ بہت جوش و خروش سے تیاریاں کررہے تھے اور پھر وہ دن آپہنچا تھا جس کا سب کو انتظار تھا۔ دس ربیع الاول کے روز ہمارے کالج مجں جشن میلاد النبی کی محفل سجائی گئی تھی۔ محفل کا آغاز قرآن کی تلاوت سے ہوا اور ایک لڑکی نے نہایت ادب و خوبصورتی کے ساتھ سورۃ رحمن کی چند آیتوں کی تلاوت کی تھی۔ اس کے بعد اسٹیج پر موجود اساتذہ اور چند لڑکیوں نے درود شریف پڑھنا شروع کیا۔ پھر ہر طلبہ اپنی اپنی باری پر آکر اپنی نعت شریف پیش کررہے تھے اور درمیان میں آپﷺ کی سیرت پر تقریر بھی کی گئی۔ محفل کے اختتام میں سلام پڑھ کر دعا کی گئی اور ایک خوبصورت دن اپنے اختتام کو پہنچا۔