رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات

0
  • سبق : ” رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات“
  • مصنف : ”سر سید احمد خان“
  • ماخوذ : ”مقالاتِ سر سید“

سوال: اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے۔

سبق ” رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات“ کے مصنف کا نام ”سر سید احمد خان“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”مقالاتِ سر سید“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

سر سید احمد خان ۱۸۱۷ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد متقی تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اٹھارہ سال کی عمر میں مکمل کرلی۔ اس کے بعد مُنصِفی کا امتحان پاس کر کے بہ حیثیت منصف ملازم ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے جج کے عہدے تک پہنچ گئے۔

آپ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اپنے اخبار ”سیدالاخبار“ سے کیا۔ آپ نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ایک رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ نکالا۔ آپ نے علی گڑھ اسکول بھی بنایا جو بعد میں یونی ورسٹی بن گئی۔ آپ کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے ” جوّاد الدّولہ اور عارفِ جنگ“ کے خطابات سے نوازا۔ آپ بلند پایہ نثر نگار، اخبار نویس اور عالم تھے۔ انگریز حکومت نے آپ کو ”سر“ کا خطاب دیا۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں ”آثار الصّنادید، اسبابِ بغاوتِ ہند، خطباتِ احمدیہ اور تاریخِ سرکشی بجنور“ قابلِ ذکر ہیں۔

سبق کا خلاصہ

اس سبق میں سر سید احمد خان نے رسم و رواج کی بے جا تقلید کے نقصانات بتاتے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کررہے ہیں کہ وہ اپنے دماغ کا استعمال کریں اور انھیں چیزوں کو اپنائیں جو ان کے لیے مفید ثابت ہوں۔ سرسید نے ایک دانا کا عمدہ قول لکھا ہے کہ : ” انسان کی زندگی کا منشاء یہ ہے کہ اس کے تمام قوی اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نامناسبت اور تناقص واقع نہ ہو بلکہ سب کا مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہو۔“

سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ ایک اور بڑے دانا شخص کی رائے کا نتیجہ ہے کہ آزادی اور اپنی خوشی پر چلنا جہاں تک کہ دوسروں کو ضرر نہ پہنچے ہر انسان کی خوشی اور اس کا حق ہے۔ بےسوچے سمجھے پرانی رسومات کی تقلید سے گو کہ وہ رسمیں اچھی ہی کیوں نہ ہوں ، آدمی کی ان صفتوں کی ترقی اور شگفتگی نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ نے ہر آدمی کو جدا جدا عنایت کی ہیں۔

سر سید احمد خان کہتے ہیں کہ اگر کوئی انسان ان رسومات کی پابندی نہ کرے تو خیال کیا جاتا ہے کہ یہ غلط صحبت میں پڑھ چکا ہے اور یہ انسان اب خراب ہوچکا ہے۔ جب کہ یہ خیال کہ رسومات کی پابندی نہ کرنے سے انسان خراب ہوجاتا ہے اس لیے غلط ہے کیونکہ جس طرح انسان کے اندر برے کام کرنے کی قوتیں موجود ہیں ویسے ہی اسے ان کاموں سے روکنے کی قوتیں بھی موجود ہیں۔ اس لیے کسی کے خراب ہونے کی صورت میں وجہ رسم و رواج کی پابندی نہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے اندر کی قوتیں ہیں۔

سر سید احمد لکھتے ہیں کہ انسان کی طبیعت غلط رسموں کی پابندی کی مطیع و متحمل اس لئے ہوجاتی ہے کیونکہ ہر انسان رسموں کی پابندی کو فرض سمجھتا ہے اور وہی چیز پسند کرتا ہے جو زیادہ تر لوگوں کو پسند ہوتی ہے۔ جب ایک انسان کو کسی بات کی خواہش کرنے کا موقع نہیں ملتا تو پھر اس کی طبعیت مطیع و متحمل ہوجاتی ہے۔

رسومات کی کورانہ تقلید انسان کو تنزل کی طرف لے جاتی ہے کیونکہ ایک زمانے کی رسم ضروری نہیں اگلے زمانے میں بھی مفید ثابت ہو، ہوسکتا ہے کہ ایک زمانے میں موجود رسم اس وقت کے لئے مفید ہو لیکن اب اس کی بےجا تقلید انسان کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔

مشرقی اقوام کے زوال کا اصل سبب سر سید احمد خان کی نظر میں یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ کو استعمال کرنے کے بجائے بزرگوں کی رسومات کی بے جا تقلید کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ جب کہ مغرب کے لوگ اپنے دماغ کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے لئے بہتر سے بہترین چیزیں ایجاد کررہے ہیں۔

اس سبق کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال: ذیل کے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

الفاظ جملے
شگفتہ انسان کی زندگی کا منشاء یہ ہے کہ اس کے تمام قوی اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں۔
متناسب انسان کے جذبات میں باہم مناسبت واقع ہونی چاہیے۔
مطعون ہمارے معاشرے میں رسموں پر عمل نہ کرنے والے کو مطعون سمجھا جاتا ہے۔
معاشرت معاشرت کا قاعدہ کسی خاص شخص کی خصلت پر مبنی نہیں ہوتا ہے۔
عقل و فہم ہمیں اپنی عقل و فہم کا استعمال کرنا چاہیے۔
تقلید ہمیں کسی کی بھی بےجا تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
ترجیح ہماری ترجیح اللہ کے بتائے گئے اصول ہونے چاہیے۔
متحمل جس شخص کے پاس حقِ رائے موجود نہ ہو اس کی طبیعت متحمل ہوجاتی ہے۔
مسدود ایک قوم کسی قدر عرصے تک ترقی کی حالت پر رہتی ہے پھر اس کی ترقی مسدود ہوجاتی ہے۔
تناقص انسان کے جذبات میں تناقص واقع نہیں ہونا چاہیے۔

سوال: اپنے دوست کو خط لکھیے جس میں بتائیے کہ ہمارے معاشرے میں کیا کیا غلط رسمیں ہیں اور ان میں ہمیں کیا نقصانات ہوتے ہیں ؟

پیارے دوست،
خوش رہو!
تم کیسے ہو اور باقی سب گھر والے کیسے ہیں؟ کافی دنوں سے تمھارا کوئی خط نہیں ملا تو سوچا آج تمھیں میں ہی خط لکھ دوں۔ پیارے دوست میں کافی دن سے سوچ رہا تھا کہ ہمارے ارد گرد ناجانے کتنی رسومات ہیں جن پر ہم دن رات عمل کرتے ہیں لیکن نہ ہمیں ان رسومات کی حقیقت کا علم ہے اور نہ ہی اس حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب تم دیکھو کچھ روز قبل ہمارے محلے کے ایک بزرگ کا انتقال ہوگیا، ان کے گھر دور دراز سے رشتہ دار آئے ہوئے تھے اور وہ لوگ بیچارے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ اب ان کے گھر میں میت موجود تھی لیکن انھیں اس بات کی فکر تھی کہ گھر کا چولہا تو رسم کے مطابق اب تین دن تک نہیں جل سکتا تو ان تمام مہمانوں کے کھانے کا انتظام کیسے ہوگا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ شادی بیاہ میں بھی بےجا رسومات کے باعث نکاح مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے اور زنا اتنا ہی آسان۔ پیارے دوست زندگی میں ہم ناجانے کتنی رسومات کی پابندی کرتے ہیں لیکن ہمیں علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہیں یا نقصان دہ لیکن بس ہم ان کی تقلید کیے چلے جاتے ہیں اور اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ مجھے اس موضوع پر تمھاری رائے بھی جاننی ہے۔ اس خط کا جواب ضرور لکھنا، تمھارے خط کا مجھے انتظار رہے گا۔
فقط تمھارا دوست
ا – ب – ج

سوال: کوئی ایسا واقعہ بیان کیجیے جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی غلط رسم کی وجہ سے کوئی بہت بڑا فتنہ کھڑا ہوگیا۔

جواب: ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے سفر کے دوران ایک گاؤں میں کچھ دیر آرام کی نیت سے قیام کیا اور علاقائی لوگوں سے کہا
“میں مسافر ہوں مجھے کچھ کھانے کو دے دیں۔”

اس کو ایک شخص اپنے گھر لے گیا اور پُر تکلف کھانے کا انتظام کیا ، جوں ہی وہ مسافر کھانا کھانے لگا دسترخوان پر درخت کی موٹی سی شاخ لاکر رکھ دی گئی۔ وجہ پوچھنے پر وہ میزبان کہنے لگا ‘ “یہ ہمارے بزرگوں کے دور کی رسم ہے۔ کھانا کھاتے وقت ہم یہ شاخ یہاں رکھتے ہیں.” وہ مسافر مطمئن نہ ہوا اور وجہ جاننا چاہی تو گھر والے ایک پچاس ساٹھ سالہ علاقائی بزرگ کو بلا لائے۔ اس بزرگ نے شاخ کی حجم کم کروائی البتہ وجہ اسے بھی معلوم نہ تھی۔ پھر ایک سو سالہ بزرگ کو لایا گیا تو معلوم ہوا کہ دستر خوان پر شاخ نہیں بلکہ ایک چھوٹی سی لکڑی رکھنے کی رسم تھی تاکہ کھانا کھانے کے بعد دانت صاف کیے جاسکیں۔