اُونُہہ

0

تعارفِ سبق

سبق ” اُونُہہ“ کے مصنف کا نام ”مرزا فرحت اللہ بیگ“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”مجموعہ مرزا فرحت اللہ بیگ ، جلد سوم مضامین“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

مرزا فرحت اللہ بیگ دلی ہندوستان میں ۱۸۸۴ء میں پیدا ہوئے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم وہیں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر حیدرآباد دکن چلے گئے۔ وہاں پہلے محکمہ تعلیم میں ملازم رہے۔ پھر محکمہ انتظامیہ میں ملازمت اختیار کر لی اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ ان کے مضامین میں ”مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی اور دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ“ بہت مشہور ہیں۔ دہلی کی با محاورہ زبان، سنجیدہ ظرافت کے علاوہ واقعہ نگاری کے لحاظ سے بھی ان کے مضامین کو اردو نثر کے شہ پاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین کے مجموعے ”مضامین فرحت“ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۴۷ء میں ہوا۔

سوال نمبر 1: اس کہانی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے۔

اس سبق میں مصنف ‘اونہہ’ کی اہمیت کو طنز و مزاح کے سہارے بیان کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طالب علموں کے اونہہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کل سے پڑھیں گے، پھر فیل ہو کر بھی اونہہ کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ باپ تو زندہ ہے ہی، اگر مر بھی گیا تو جائداد موجود ہے۔ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ طالب علموں کی اونہہ بہت بامعنی ہوتی ہے۔ پھر بچے کے فیل ہونے پر اماں اور ابا کی اونہہ کا مطلب یہ ہے کہ بچہ ابھی فیل ہوا ہے، دل ٹوٹا ہوا ہے۔ اگر کچھ کہہ دیا تو یہ نہ ہو کہ رو رو کر اپنی جان ہلکان کر لے یا کہیں مر مرا جائے۔

مصنف میاں بیوی کی اونہہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے مطابق میاں بیوی کی اونہہ وہ کام کردیتی ہے جو بڑے بڑے صلاح کار نہیں کر پاتے۔ میاں کسی بات پر بگڑے تو بیوی نے اونہہ کہہ کر بات ختم کردی۔ اگر بیوی غصے میں ہے تو میاں صاحب اونہہ کہہ کر گھر سے چل دیے۔ یوں میاں بیوی کے اونہہ کرنے سے گھر بچا رہتا ہے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ ہر بات کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ہر انسان یا تو فتح حاصل کرتا ہے یا پھر شکست۔ لیکن دونوں صورتوں میں اگر ہم اونہہ کہہ دیں اور شکست سے کچھ سبق نہ سیکھیں نہ ہی فتح کے وقت کی گئی محنت کا اندازہ لگائیں تو ہم ہمیشہ ناکام ہی ہوں گے۔ مصنف چاہتے ہیں کہ شکست ہو یا فتح انسان شکست کو شکست اور فتح کو فتح سمجھے اور اس سے سبق حاصل کرے۔ نہ کہ اونہہ کہہ کر شکست اور فتح کو نظر انداز کرے، کیونکہ یہ سراسر بےوقوفی کی بات ہے۔

اس کہانی کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال نمبر 2 : درج ذیل جوابات میں سے درست جواب پر (درست✓) کا نشان لگائیے :

(الف) قرضہ دینے کو تیار ہیں :

(۱) استاد
(۲) ماں باپ
(۳) ساہوکار ✔
(۴) دوست

(ب) الماری کے پیچھے سے ٹوٹا سامان نکلا :

(۱) شیشے اور چینی کا
(۲) مٹی اور شیشے کا ✔
(۳) پلاسٹک اور کاغذ کا
(۴) اسٹیل اور تانبے کا

(ج) “اونہہ” کر کے چپ ہونے سے نوکر ہو جاتے ہیں :

(۱) شیر ✔
(۲) باادب
(۳) دلیر
(۴) نافرمان

(د) بچوں نے دیواروں پر لکیریں کھینچیں :

(۱) چاک سے
(۲) کوئلے سے ✔
(۳) رنگ سے
(۴) چونے سے

سوال نمبر 3 : سبق میں موجود محاورات تلاش کر کے ان کے معانی تحریر کیجیے۔

محاورات معانی
۱) جان ہلکان ہونا اپنے آپ کو تھکا دینا
۲) مفت ملتا ہے بغیر پیسوں کے ملنا
۳) دل ٹوٹا ہوا ہے نااُمید ہوجانا
۴) آج نہیں ڈوبے گا تو کل ڈوبے گا آج تباہ نہ ہوا تو کل ضرور ہوجائے گا
۵) خاتمہ بالخیر اچھا انجام
۶) غُل مچایا شور مچانا
۷) ڈوب مرنا شرمندہ ہونا

سوال نمبر 4 : مندرجہ ذیل الفاظ میں سے سابقے اور لاحقے الگ الگ کر کے لکھیے :

سابقے

سابقے لاحقے
بد نصیب داغ دار
بد قسمت پائے دار
لا علاج شکر گزار

سوال نمبر 5 : درج ذیل عبارت کا مفہوم مع سیاق و سباق تحریر کیجیے :

”ہر معاملے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ فتح یا شکست۔ اور دونوں صورتوں میں “اونہہ” نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ شکست پر جس نے اونہہ کی، اس نے گویا شکست کو شکست نہ سمجھا۔ جس نے فتح پر “اونہہ” کی ، اس نے گویا اپنی ہمت کی قدر نہیں کی۔ وہ آج نہیں ڈوبا تو کل ڈوبے گا۔ دنیا میں وہی لوگ کچھ کر سکتے ہیں جو فتح کو فتح اور شکست کو شکست سمجھیں۔“

حوالہ سبق : یہ جملہ ہماری دہم جماعت کی کتاب کے سبق ” اُونُہہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”مرزا فرحت اللہ بیگ“ ہے۔ یہ سبق مرزا فرحت کی کتاب ”مجموعہ مرزا فرحت اللہ بیگ ، جلد سوم مضامین“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح

اس اقتباس میں مصنف لکھتے ہیں کہ ہر بات کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ہر انسان یا تو فتح حاصل کرتا ہے یا پھر شکست۔ لیکن دونوں صورتوں میں اگر ہم اونہہ کہہ دیں اور شکست سے کچھ سبق نہ سیکھیں نہ ہی فتح کے وقت کی گئی محنت کا اندازہ لگائیں تو ہم ہمیشہ ناکام ہی ہوں گے۔ مصنف چاہتے ہیں کہ شکست ہو یا فتح انسان شکست کو شکست اور فتح کو فتح سمجھے اور اس سے سبق حاصل کرے۔ نہ کہ اونہہ کہہ کر شکست اور فتح کو نظر انداز کرے، کیونکہ یہ سراسر بےوقوفی کی بات ہے۔