شوریدہ کشمیری کے حالات زندگی اور شاعرانہ عظمت پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوریدہ کشمیری کی غزلوں کی تشریح

غزل نمبر 1:

مستی اپنی شراب کی سی ہے
آب و تاب آفتاب کی سی ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا جنون اس حد تک بڑھا ہے جیسے کوئی آدمی شراب پی کر مست ہو جاتا ہے ایسی ہی مستی ہم پر چڑھی ہوئی ہے اور اس مستی سے ہمارے چہرے کا رنگ بہت زیادہ چمک گیا ہے اور اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج ہے۔

لوگ جاگے ہیں لیکن آنکھوں میں
کیفیت ایک خواب کی سی ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ محبوب کے انتظار میں ہر کوئی دیر تک جاگتا رہتا ہے۔ اس ڈر سے کہ کہیں غلطی سے پلک نہ جھپک جائے اور ہم محبوب کے دیدار سے محروم ہو جائیں۔ مگر اب اس انتظار کی حد ہو گئی ہے۔ اب اتنا انتظار نہیں ہوتا کیوں کہ پلکیں نیند کی وجہ سے بہت زیادہ غبار آلودہ ہوگئی ہیں۔

روز و شب ہے کوئی ورق گرداں
حالت اپنی کتاب کی سی ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ میرا محبوب ہر وقت میرا امتحان لیتا ہے۔ اور وہ اپنے دل کو بھروسہ دلانا چاہتا ہے کہ مجھے کہیں بار پڑھنے کے بعد میری حالت کتاب کی سی ہو گئی ہے جسے بار بار پڑھا جاتا ہے۔

تیرے رخسار و لب کی رعنائی
نو خمیدہ گلاب کی سی ہے

اس شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کی خوبصورتی کا ذکر کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب تمہارے گالوں اور ہونٹوں کی خوبصورتی ایسی ہے جیسے تازہ کھلا ہوا گلاب ہو۔

اب بھی کتنی فرات ہیں بے فیض
جو چمک ہے سراب کی سی ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں اب بھی ایسے لوگ ہیں جن کے ہوتے ہوئے بھی انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ وہ بلکل اس طرح جس طرح میدان کربلا میں شہیدوں کو دیکھنے کے لیے دریائے فرات تو موجود تھا مگر اس کی موجودگی کا کیا فائدہ لہٰذا جو بھی چمک دمک بے فیض چیزوں کی ہے وہ ایک دھوکا ہے۔

غزل نمبر 2

جلوۂ بے حجاب نے مارا
پردۂ لاجواب نے مارا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں مجھے تو اپنے محبوب کی اس ادا نے مارا جب اس نے اپنے رخ سے پردہ ہٹا لیا اور اس پردۂ بے حجاب پر تو میرے ہوش تو حواس اڑ گئے۔

خارزاروں سے ہم بچ کے نکلے
تیرے روپ کے گلاب نے مارا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ہم زندگی کی مشکلات سے باآسانی نکل گئے ہیں مگر جب سے تمہارا خوبصورت چہرہ دیکھا ہے اس کو دیکھ کر ہم اپنا چین و قرار کھو بیٹھے ہیں۔

حسن نے دل میں گھر کیا لیکن
عشق خانہ خراب نے مارا

اس شعر میں بھی شاعر اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں اے میرے محبوب! تمہاری نازوادا میں جو نزاکت ہے اس نے تو میرے دل میں گھر کرلیا ہے۔ مگر اس عشق نے میرے دل کو کافر بنا دیا اس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔

نت نئے کیا سبق پڑھائی ہے
روز و شب کی کتاب نے مارا

اس شعر میں شاعر اپنی زندگی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے میری زندگی تم تو نئے نئے مراحل سے مجھے آشنا کراتی رہی اور یہ زندگی اب ایک کتاب کی طرح ہو گئی ہے جس میں مختلف مضامین کو پڑھایا جاتا ہے۔

ظلمتوں کو جہاں کی شوریدہؔ
جلوہ آنجناب نے مارا

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ دنیا کا اندھیرا کب ٹہیرنے والا تھا جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوۓ تو ساری دینا سے تمام تاریکی دور ہوگی اور کائنات میں اسلام کا بول بالا ہو گیا۔

سوالات و جوابات:

سوال: شاعر نے دریا ئے فرات کو بے فیض کیوں بتایا ہے ؟

جواب: دریا ئے فرات عراق کا ایک مشہور دریا ہے جس پر معرکہ کربلا  کے دوران  یزیدی  فوج نے پہرا بٹھا رکھا تھا  اور  اہلِ بیت کو فرات کے پانی سے محرم رکھا۔  گویا   پانی کی فراوانی کے باوجود یہ دریا کربلا کے شہدا  کی پیاس نہ بجھا سکا اور بے فیض ثابت ہوا۔ اسی پس منظر میں شاعر نے دریائے فرات کو بے فیض بتایا ہے۔

سوال: سراب کو دھوکہ اور فریب کے معنوں میں کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟

جواب: صحرا میں چمکتی ہوئی ریت کو  دور سے دیکھ کر پانی کا گمان ہوتا ہے اسکو سراب کہتے ہیں اس لئے اس لفظ کو سراب اور دھوکہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

سوال: روز و شب کی کتاب سے کیا مراد ہے؟

جواب:  روز و شب کی کتاب سے مراد زندگی  کی کتاب ہے جو دنوں اور راتوں کے گزرنے سے بنتی ہیں۔

سوال: شاعر کے نزدیک ظلمتوں کو کس نے مارا ؟

جواب:  شاعر کے نزدیک حضور ﷺ نے ظلمتوں کو مارا۔