ان دیوتا

0

دیوندر ستیارتھی

دیوندر ستیارتھی پنجاب کے ضلع سنگور میں پیدا ہوئے۔ ان کی پہلی اردو کہانی”اور بانسری بجتی رہی ” لاہور کے مشہور رسالے”ادب لطیف” میں شائع ہوئی۔ ”نئے دیوتا ،چائے کا رنگ، اور بانسری بجتی رہی“ ان کے اردو افسانوں کے مجموعے ہیں۔ انہوں نے اردو کے علاوہ پنجابی اور ہندی میں بھی علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا ہے۔ ان کے افسانوں کی بنیاد دیومالاؤں اور لوک گیتوں پر ہے۔

خلاصہ

”ان دیوتا“ دیوندر ستیارتھی کا ایک طنزیہ افسانہ ہے۔پورا افسانہ ان دیوتا کے ارد گرد گھومتا ہے۔افسانے کی شروعات اس طرح ہوئی ہے کہ ان دیو برہما کے پاس رہتا تھا۔ ایک دن برہما نے کہا کہ اے بھلے دیوتا تم دھرتی پر کیوں نہیں چلے جاتے؟ برہما کی بات سن کر دیوتا دھرتی پر چلا گیا لیکن وہ بہت اونچا تھا۔ اتنا زیادہ کہ بارہ آدمی ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہو کر بھی اس کے سرتک نہیں پہنچ سکتے تھے۔

تب برہما نے سندیس بھیجا کہ اے دیوتا! تجھے تھوڑا چھوٹا ہونا چاہیے۔ آدمی کا آرام بھی تو دیکھنا ہے۔ تو دیوتا آدھا رہ گیا۔ لیکن برہما کو اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے پھر پیغام بھیجا۔ اب دیوتا ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔ لیکن آدمی نے پھر شکایت کی۔ تو اب ان دیوتا اور چھوٹا ہوتے ہوئے آدمی کی کمر تک پہنچ گیا۔تو آدمی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔ آدمی نے اسے جھنجھوڑا اور بالیں زمین پر گر گئیں۔۔ یہیں سے آدمی نے کھیتی باڑی شروع کی۔اور اناج کی فصلیں اگنے لگیں۔ اب فصلیں تو اگنے لگیں لیکن ساتھ ہی سوکھا بھی پڑنے لگا۔

افسانے کا مرکزی کردار چنتو ہے جو کال پڑنے سے اس بار بہت پریشان ہے۔ کال تو اس سے پہلے بھی پڑتے تھے لیکن غریب لوگ اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے تھے۔مگر اس بار کے کال میں چنتو کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔اسی وجہ سے چنتو بہت پریشان تھا ۔۔۔اس کی بیوی ہلدی ہر سال ان دیوتا کی منت مانگتی اور ان اس کال کے حالات میں جب کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔انہی حالات میں ہلدی کا بچہ جب مسکراتا تو وہ کہتی ہے کہ دیوتا اس کی آنکھوں میں اپنی مسکراہٹ ڈال رہا ہے۔ چنتو کو اس پر غصہ آتا ہے اور وہ ہلدی سے کہتا ہے کہ میرا دل تو تیرے بھگوان کو بھی نہ مانے۔ کہاں اس کے میگھ راج ،کہا سو رہا ہے وہ خود۔ ایک بوند بھی تو نہیں برس رہی ہے۔

افسانے میں ایک کردار رامو بھی ہے جو بمبئی کے کسی مل میں کام کرتا ہے اور وہ ہر مہینے پچیس روپے منی آرڈر سے اپنے باپ کے لئے بھیجتا ہے۔ اس بار بھی جب اس نے منی آرڈر بھیجا تو چنتو پر رحم کھا کر بیساکھو نے اسے بھی سات آنے دے دیے۔ ہلدی کو لگا کہ شاید یہ بیساکھو سے پیسے مانگ کر لائے ہیں۔ لیکن چنتو نے اسے تسلی دلائی کہ وہ یہ پیسے مانگ کر نہیں لایا ہے بلکہ بیساکھو نے خود اسے یہ پیسے دیے ہیں۔

ہلدی نے کہا کہ چار پانچ دن کا خرچ ان پیسوں سے چل جائیگا۔بہرحال جب گاؤں کی حالات بہت بری ہو گئی تو قحط سبھا نے دھان بانٹنے کا فیصلہ لیا۔گاؤں میں پھڈکے صاحب اور منشی جی دھان بانٹنے آئے اور چنتو گاؤں کی پنچایت کا دایاں بازو تھا۔ وہ سب کو دھان بانٹنے لگا۔سب لوگ ان دیوتا کی جے جے کرنے لگے۔ہلدی کو لگا کہ شاید یہ دھان ان دیوتا نے بھیجا ہے۔اسے بیچارے گونڈوں کا خیال تو ضرور ہے لیکن جب ہلدی نے منشی جی اور پھڈکے صاحب کو حلوہ کھاتے ہوئے دیکھا تو وہ گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ یہ خیال بادل کی طرح اس کے ذہن پر پھیلتا چلا گیا۔

ایک دن چنتو صبح سویرے اٹھا اور بولا: دیوتا اب امیروں کا ہو گیا ہے۔ وہ ہمارے کھیتوں میں کیوں آئے گا وہ اب امیروں کی پوری کھانے لگا ہے۔ اب اسے غریب گونڈوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسی دن رامو بھی بمبئی سے لوٹ آیا اسے دیکھ کر ہلدی کی آنکھوں کو ایک نئی زبان مل گئی۔ اس رامو سے کہا کہ بتاؤ رامو بھائی کیا آپ نے بمبئی میں دیوت کو دیکھا ہے؟ رامو خاموش رہا۔

پھر آخر میں مصنف کہتا ہے میرا خیال ہے رامو نے بمبئی میں مزدور سبھا کی تقریر سنی ہو گی اور وہ صاف صاف کہہ دے گا کہ آدمی خود اگاتا ہے اپنے پسینے سے، اپنے خون سے، اگر آدمی آدمی کا خون چوسنا چھوڑ دے تو دنیا کی ساری کایا ہی پلٹ جائے۔ کال تو پہلے بھی پڑھتے تھے لیکن اب سرمایہ دار روز روز کسانوں اور مزدوروں کا خون چوستے ہیں اور غریبوں کے لئے تو ہمیشہ ہی کال پڑا رہتا ہے۔

ہلدی پھر راموں سے پوچھتی ہے کیا ہوا آپ چپ کیوں ہو گئے۔ راموں کے چہرے پر مسکراہٹ پیدا ہونے کے بعد فوراً سنجیدگی آجاتی ہے وہ بولا ہاں ہلدی۔ دیوتا اب ممبئی کے محلوں میں رہتا ہے۔ روپوں میں کھیلتا ہے۔ یہ سن کر ہلدی کی آنکھ میں آنسوں آجاتے ہیں۔وہ سوچتی ہے کہ کیا ہوا اگر ان دیوتا کو وہاں سندریاں مل جاتی ہیں کبھی تو اسے گھر کی یاد آئے گی اور پھر وہ آپ ہی آپ ادھرآجائیگا۔

اس کہانی کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

https://www.youtube.com/watch?v=nmfRjsFsmss