بوڑھی کاکی

0

سوال نمبر 1: اس افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

تعارفِ سبق

سبق ”بوڑھی کاکی“ کے مصنف کا نام ”منشی پریم چند“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” پریم چند کے منتخب افسانے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

منشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ آپ ضلع بنارس کے ایک گاؤں میں ۱۸۸۰ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد منشی عجائب لال ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند نے ایک مولوی صاحب سے فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی، جبکہ انگریزی تعلیم بنارس میں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر منشی پریم چند ایک پرائمری اسکول میں استاد ہو گئے۔ 1908ء میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس ہوگئے۔

پریم چند کی ادبی زندگی کا آغاز 1901ء سے ہوا۔ آپ نے منشی دیا نرائن نگم کے رسالے ”زمانہ“ میں مضامین لکھے۔ پھر افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی طرف توجہ دی۔ پریم چند نے غریبوں کے حالات و واقعات کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا۔ ان کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ”بازارِ حسن، نرملا، میدانِ عمل، پریم بتیسی، پریم پچیسی، پریم چالیسی اور سوزِ وطن“ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ انہوں نے کُل ۲۹ ناول لکھے ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۶ء میں ہوا۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف ایک بوڑھی کاکی کا ذکر کرتے ہیں جس کے شوہر کا انتقال ہوا زمانہ گزر چکا ہوتا ہے اور اس کے سات بیٹے بھی جوان ہو کر داغ دے جاتے ہیں۔ اب اس کاکی کا اس دنیا میں سوائے اپنے بھتیجے بدھ رام کے اور کوئی نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی جائیداد بدھ رام کے نام کردیتی ہے۔ بدھ رام جائیداد اپنے نام کرواتے ہوئے تو بوڑھی کاکی سے بہت سے وعدے کرتا ہے لیکن وہ وعدے فقط سبز باغ نکلتے ہیں اور بوڑھی کاکی پیٹ بھر کھانے سے بھی اب محروم ہوجاتی ہے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ اس گھر میں کاکی سے محبت فقط بدھ رام کی بیٹی لاڈلی کو ہوتی ہے۔ ایک روز بدھ رام کے بیٹے کے تلک کا جشن اس کے گھر منایا جارہا ہوتا ہے، کاکی پوریوں کی خوشبو سونگھ کر بےتاب ہوجاتی ہے اور گرم کڑاہ کے پاس بیٹھ جاتی ہے۔ یہ دیکھتے ہی بدھ رام کی بیوی روپا بوڑھی کاکی پر چھپٹ پڑتی ہے اور اسے خوب باتیں سناتی ہے۔

لاڈلی اس دن اپنی پوریاں بچا لیتی ہے اور رات میں بوڑھی کاکی کے پاس وہ پوریاں لے جاتی ہے۔ جب لاڈلی کے حصے کی پوری کاکی کھالیتی ہے، لاڈلی سے کہتی ہے کہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے وہاں لے چلو جہاں مہمانوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ عین اس وقت روپا کی آنکھ کھلتی ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ لاڈلی اس کے پاس نہیں ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ سامنے کاکی مہمانوں کا چھوڑا ہوا کھانا کھا رہی ہے، تب اسے اپنی خود غرضی کا احساس ہوتا ہے اور وہ سوچنے لگتی ہے جس کی جائیداد سے مجھے سو دوسو روپے سال کے اندر آمدنی ہوتی ہے، اس کی یہ درگت، اور میرے کارن!مجھ سے بڑا بھاری گناہ ہوا ہے۔

روپا بوڑھی کاکی کو کھانے کا تھال دے کر کہتی ہے :
”کاکی اٹھو! کھانا کھا لو۔ مجھ سے آج بڑی بھول ہوئی۔ اس کا برا نہ ماننا، پرماتما سے دعا کرو کہ میری خطا معاف کر دے۔“

اس سبق کے سوالوں کے جوابات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال نمبر 2 : اس افسانے کی فکری اور فنی خوبیاں بیان کیجیے۔

اس افسانے کی فکری خوبی یہ ہے کہ افسانے میں بتایا گیا ہے کہ اگر نیکی اور بدی ایک ساتھ موجود ہوں تو بدی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور اس افسانے کی فنی خوبی یہ ہے کہ افسانہ انتہائی مضبوط پلاٹ پر لکھا گیا ہے جہاں کسی قسم کا کوئی جھول نظر نہیں آتا ہے۔

سوال نمبر 3 : درج ذیل الفاظ اور محاورات اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

محاورات جملے
جمِ غفیر : اتوار کے دن بازاروں میں لوگوں کا جمِ غفیر نظر آتا ہے۔
اشتہا اشتہا کے خاطر ہمیں غلط کام نہیں کرنے چاہیے۔
ناک کٹوانا اگر ہم برے کام کریں گے تو ہماری وجہ سے ہمارے والدین کی ناک کٹ جائے گی۔
بھنڈارے ہمیں اپنے بھنڈارے کو صاف رکھنا چاہیے۔
نام بیچنا اکثر مصنف کو پیسوں کے لیے اپنا نام بیچنا پڑتا ہے۔
سبز باغ دکھانا ہمیں کسی کو جھوٹے سبز باغ نہیں دکھانے چاہیے۔

سوال نمبر 4 : درج ذیل میں درست جواب پر (درست) کا نشان لگائیے:

(الف) بڑھاپا دورثانی ہوا کرتا ہے :

(۱)طفولت کا
(۲)بچپن کا ✔
(۳)بلوغت کا
(۴)جوانی کا

(ب) بڑھیا کے جوان بیٹے مرگئے تھے :

(۱)پانچ
(۲)چھ
(۳)سات ✔
(۴)آٹھ

(ج) بدھ رام آدمی تھے :

(۱)چالاک
(۲)مکار
(۳)نیک ✔
(۴)بےوقوف

(د) روپا سورہی تھی :

(۱)آنگن میں ✔
(۲)کمرے میں
(۳)کوٹھری میں
(۴)برآمدے میں

(ہ) بدھ رام کی چھوٹی لڑکی تھی:

(۱)من چلی
(۲)لاڈلی ✔
(۳)ضدی
(۴)چنچل

سوال نمبر 5 : آپ اس سبق میں سے مرکب تام اور مرکب ناقص کی تین تین مثالیں تلاش کرکے لکھیے۔

مرکبِ تام مرکبِ ناقص
۱) بڑھاپا بچپن کا دورِ ثانی ہوتا ہے ۱) سبز باغ
۲) اتنی دیر ہوگئی کوئی کھانا لے کر نہیں آیا ۲) اکیلی عورت
۳) اب پیٹ بھر رولھا دانہ بھی مشکل سے ملتا ہے ۳) لمبے چوڑے وعدے