امتحان

0

سبق : امتحان
مصنف : مرزا فرحت اللہ بیگ
ماخوذ از : مضامین فرحت

سوال ۲ : سبق “امتحان” کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔

تعارفِ سبق :

سبق ” امتحان“ کے مصنف کا نام ”مرزا فرحت اللہ بیگ“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”مضامین فرحت“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

مرزا فرحت اللہ بیگ دلی ہندوستان میں ۱۸۸۴ء میں پیدا ہوئے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم وہیں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر حیدرآباد دکن چلے گئے۔ وہاں پہلے محکمہ تعلیم میں ملازم رہے۔ پھر محکمہ انتظامیہ میں ملازمت اختیار کر لی اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ ان کے مضامین میں ”ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ اپنی زبانی اور دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ“ بہت مشہور ہیں۔ دہلی کی با محاورہ زبان، سنجیدہ ظرافت کے علاوہ واقعہ نگاری کے لحاظ سے بھی ان کے مضامین کو اردو نثر کے شہ پاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین کے مجموعے ”مضامین فرحت“ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۴۷ء میں ہوا۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف امتحانوں کے وقت پیش آنے والی صورتحال کے بارے میں بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ میرے ہم جماعت، میرے دوست اور تمام لوگ زیادہ تر امتحانوں کے وقت پریشان ہو جاتے ہیں لیکن مجھے ان کی پریشانی پر ہنسی آتی ہے کیونکہ امتحانوں کی تو دو ہی صورتیں ہوتی ہیں، یا انسان پاس ہوگا یا فیل۔

اور اس میں گھبرانے والی کیا بات ہے اگر اس مرتبہ پاس نہ بھی ہوا تو اگلی مرتبہ انسان پاس ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے امتحانوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں لا کی کلاس لے رہا تھا اور میرے والد صاحب کو یہ لگتا تھا کہ میں بہت جلد ایک وکیل بن جاؤں گا، لیکن میں تو پورا دن اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا تھا اور پھر ایک کلاس کا بھی لگا لیتا تھا۔ منشی صاحب میرے دوست تھے اور استاد ہر وقت پڑھانے میں مصروف رہتے تھے۔ اس لئے مجھے کبھی حاضری کی بھی فکر نہ ہوٸی ور میری حاضری بھی برابر لگتی رہیں۔

جوں ہی امتحانوں کا وقت قریب آیا تو میں نے اپنے والد کو کہہ دیا کہ میں اکیلے کمرے میں ہی پڑھ سکتا ہوں۔ کچھ روز تو اس طرح پڑھائی سے جان چھوٹ گئی لیکن پھر بی اماں نے اپنا سونے والا کمرہ خالی کر دیا اور مجھے وہاں پڑھنے کے لئے بھیج دیا۔ میں نے وہاں کے دروازوں کے شیشوں پر کاغذ لگا دیے اور شام سات بجے سے صبح 9 بجے تک لیمپ کھول کر سوجاتا۔ میرے گھر والوں کو لگتا تھا کہ میں اتنا وقت پڑھائی میں مصروف رہتا ہوں۔

جب امتحانات کا وقت آیا تو مجھے اپنے امتحانوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ میں نے وہاں کھڑے استاد سے پوچھا کہ یہ کس چیز کا پیپر ہے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ اصول قانون کا پرچہ ہے ، میں نے پرچہ دے دیے لیکن میرے سب میں صفر نمبر آئے۔ میرے گھر والوں کو یہی لگا کے کسی نے میرے ساتھ بددیانتی کی ہے اور میرے پرچوں کو بدل دیا ہے اور میرے والد صاحب نے فرمایا کہ اس مرتبہ نہ سہی اگلی مرتبہ تم پاس ہوجاؤ گے۔ آخر کب تک بےایمانی کریں گے یہ لوگ۔ ”سو دن چور کے ایک دن شاہ کا“

سوال ۱ : مختصر جواب لکھیں۔

(الف) مضمون نگار کو امتحان سے گھبرانے والوں پر ہنسی کیوں آتی ہے؟

جواب : مضمون نگار کو امتحان سے گھبرانے والوں پر ہنسی آتی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ امتحان سے کیا گھبرانا۔ دو ہی تو امتحان کی صورتیں ہوتی ہیں، پاس یا فیل۔ اس سال نہ کامیاب ہوسکے تو اگلے سال کامیاب ہوجائیں گے۔

(ب) جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے، مضمون نگار کے دوستوں اور ہم جماعتوں کا کیا حال ہوتا ؟

جواب : جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے، مضمون نگار کے دوستوں اور ہم جماعتوں کے حواس اور ان کے دماغ مختل ہوجاتے تھے اور ان کا منہ بنا رہتا تھا۔

(ج) مضمون نگار نے کون سا امتحان دیا تھا؟

جواب : مضمون نگار نے قانون کا امتحان دیا تھا۔

(د) مضمون نگار نے امتحان دیا تو کیا نتیجہ نکلا؟

جواب : مضمون نگار نے امتحان دیا تو پڑھائی نہ کرنے کی وجہ سے وہ فیل ہوگئے۔

(ہ) مضمون نگار کے والد نے کس طرح انہیں تسلی دی؟

جواب : مضمون نگار کے والد نے ان کو تسلی دیتے ہوۓ کہا : بیٹا کوئی گبھرانے کی بات نہیں اس سال نہیں تو آئندہ سال سہی۔ آخر کہاں تک بے ایمانی ہوگی۔

سوال۳ : مندرجہ ذیل الفاظ اور تراکیب کے معنی لکھیں۔

مختل درہم برہم
مستغرق ڈوبا ہوا
محویت انہماک
امدادِ غیبی غیب سے مدد ملنا
خادم زادہ خدمت گار کا بیٹا
ممتحن امتحان لینے والا
تشفی تسلی
اشک شوئی آنسو پہنچنا، دلجوئی کرنا
کم ترین بہت کم
بدرجہ اعلیٰ اونچے درجے کا
خادم خدمت گار

سوال ۴ : واحد الفاظ کی جمع لکھیں۔

واحد جمع
امتحان امتحانات
خیال خیالات
مشغلہ مشاغل
وکیل وکلاء
ممتحن ممتحین
تدبیر تدابير
مضمون مضامین

سوال ۵ : اعراب لگا کر تلفظ واضح کریں۔

حَواس
مخُتُل
مَشغَلَہ
مُسْتَغْرَق
خَلِیق

سوال ٦ : متن کو مدنظر رکھتے ہوئے درست جواب کی نشاندہی (درست) سے کریں۔

(الف) بندے پر امتحان کا اثر نہیں تھا :

  • ٭رتی برابر (✓)
  • ٭ذرا برابر
  • ٭بالکل
  • ٭معمولی

(ب) طالب علم نے کتنے سال میں لا کلاس کا کورس پورا کیا؟

  • ٭چار سال
  • ٭دو سال (✓)
  • ٭تین سال
  • ٭پانچ سال

(ج) لا کالج میں کون طالب علم کا دوست تھا؟

  • ٭لکچرار صاحب
  • ٭پرنسپل صاحب
  • ٭منشی صاحب (✓)
  • ٭چوکیدار

(د) طالب علم نے کس سے پوچھا کہ یہ پرچہ کس مضمون کا ہے؟

  • ٭نگران صاحب سے
  • ٭گارڈصاحب سے (✓)
  • ٭سپرنٹنڈنٹ سے
  • ٭کسی طالب علم سے

(ہ) طالب علم کتنی دیر میں کمرے سے باہر نکل آتا؟

  • ٭ایک گھنٹے بعد
  • ٭آدھا گھنٹا بعد(✓)
  • ٭دو گھنٹےبعد
  • ٭تین گھنٹے بعد

سوال ۷ : متن کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالی جگہ پر کریں۔

  • (الف) لوگ (امتحان) کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے ان کے (گھبرانے) پر ہنسی آتی ہے۔
  • (ب) والد صاحب قبلہ (خوش) تھے کہ بیٹے کو (قانون) کا شوق ہو چلا ہے۔
  • (ج) کسی زمانے میں بڑے بڑے (وکیلوں) کے کان کترے گا۔
  • (د) لیمپ روشن کر کے آرام سے (رات سات بجے) سے سوجاتا اور (صبح نو بجے ) اٹھتا۔
  • (ہ) قصہ مختصر درخواست شرکت دی گئی اور (منظوری) ہوگئی۔
  • (و) یہاں ایک بہت (خلیق) اور (ہنس مکھ) نگران کار تھے۔
  • (ز) ایک (مقنن) ایک اصول قائم کرتا ہے، دوسرا اس کو توڑ دیتا ہے۔
  • (ح) والد صاحب روز (گیارہ بجے) سے آجاتے اور (نیچے) صحن میں بیٹھے رہتے۔
  • (ط) والد نے عرض کیا کہ (خادم زادہ) اس سال امتحان میں شرکت ہوا ہے۔
  • (ی) سو دن (چور) کے تو ایک دن (شاہ) کا۔

سوال ۸ : متن کے مدنظر رکھ کر کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

فرحت اللہ بیگ امتحان
فیل پاس
جینا مرنا
دو سال لا کلاس
بڈھا بڑھیا
تقدیر تدبیر
مشکل آسان
کامیابی ناکامیاب
درخواست منظور